Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی، ’گو نواز گو‘ کا نعرہ لوٹ آیا

شہباز شریف نے اپنا خطاب شروع کیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ’چور چور‘ کے نعرے بلند کیے (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف مسلسل دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ انھیں 201 جبکہ ان کے مدمقابل عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔
اتوار کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ قومی اسمبلی میں ہوئی۔ طریقہ کار کے مطابق ووٹنگ ایوان کی اوپن تقسیم کے ذریعے عمل میں لائی گئی۔ وزیراعظم کے دونوں امیدواروں کے لیے دو لابیز بنائی گئیں تھیں۔ ایک لابی میں شہباز شریف کو ووٹ دینے والے اپنا نام درج کراتے اور لابی کے اندر چلے جاتے جبکہ دوسری لابی میں عمر ایوب کو ووٹ دینے والے اپنا نام درج کراتے اور باہر لابی میں چلے جاتے۔ 
واٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر نے تمام ارکان کو ایوان میں واپس آنے کی ہدایت کی، ارکان باری باری واپس پہنچے اور اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
نواز شریف اور شہباز شریف جب ایوان میں واپس ائے تو لیگی ارکان نے شیر شیر کے نعروں کے ساتھ اور ڈیس بجا کر ان کا استقبال کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ن لیگی ارکان کے نعروں کی اواز سنی اتحاد کونسل کے ارکان سے بلند تھی۔ نواز شریف نے نشست پر بیٹھتے ساتھ ہی ہیڈ فون کانوں پر لگا لیے۔ 
 نتائج سپیکر ایاز صادق کے پاس پہنچے جنہوں نے اعلان کیا کہ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف 201  ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ نتائج کا اعلان ہونے کے بعد شہباز شریف اور نواز شریف اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے۔ نواز شریف نے شہباز شریف کو گلے لگایا جس کے بعد شہباز شریف آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں کی نشستوں پر پہنچے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ 
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے ایوان میں موجود ہونے کے باوجود ووٹ کاسٹ نہیں کیا جبکہ جمیعت علماء اسلام کے ارکان نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا اور وہ ایوان میں آئے ہی نہیں۔ 
نتائج کے اعلان کے بعد سنی اتحاد کونسل کے ارکان ایک بار پھر سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور ’جعلی وزیراعظم نامنظور اور فارم 47 والے وزیراعظم نام منظور‘ کے نعرے لگائے۔ 
سپیکر نے شہباز شریف کو وزیراعظم کی نشست پر بیٹھنے کہا تو شہباز شریف نے اس نشست پر بیٹھنے سے پہلے نواز شریف سے باضابطہ اجازت چاہی۔ 
شہباز شریف نے اپنا خطاب شروع کیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ’چور چور‘ کے نعرے بلند کیے۔ یہ نعرے اس وقت تک جاری رہے جب تک شہباز شریف کا خطاب جاری رہا۔ 
شہباز شریف کے خطاب کے دوران جب سنی اتحاد کونسل کے ارکان احتجاج کر رہے تھے تو عطا تارڑ نےئ ان کے سامنے گھڑی لہرائی۔ جمشید دستی نے عطا تارڑ کے سامنے پالش اور برش لہرایا تو عطا تارڑ میں اپنا جوتا ان کے سامنے کر کے اشارہ کیا کہ یہاں پالش کرو۔ 

نواز شریف  کے چہرے پر پریشانی اور غصے کے اثار نمایاں تھے (فوٹو: سکرین گریب)

اپوزیشن ارکان سپیکر ایاز صادق اور نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان حائل تھے اس لیے شہباز شریف ایاز صادق کو دیکھے بغیر انہیں مخاطب کرتے رہے، جبکہ سپیکر پارلیمنٹ ہاؤس کے دیواروں پر لگی بڑی سکرین پر شہباز شریف کو دیکھ کر ہیڈ فون لگائے ہوئے ان کا خطاب سنتے رہے۔ 
شہباز شریف کے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ’بلاسم بلاسم چیری بلاسم‘ اور ’تیرا یار میرا یار قیدی نمبر 804‘ اور ’سارا ٹبر چور ہے‘ کہ نعرے بلند ہوتے رہے۔ جمشید دستی مسلسل سیٹیاں بجاتے رہے۔ 
شہباز شریف کے خطاب کے دوران تحریک انصاف کا 2014 کا سب سے مقبول نعرہ ’گو نواز گو‘ بھی واپس آگیا اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان کافی دیر تک اور وقفے وقفے سے یہ نعرہ لگاتے رہے۔ نواز شریف نے شہباز شریف کے خطاب کے دوران ہیڈ فون لگائے رکھے لیکن ان کے چہرے پر پریشانی اور غصے کے اثار نمایاں تھے۔ 
اپوزیشن کے احتجاج کے دوران اگرچہ لیگی ارکان نے شہباز شریف اور نواز شریف کو گھیرے رکھا اور ان کے نعروں کا جواب بھی دیتے رہے لیکن پیپلز پارٹی حسب معمول لاتعلق رہی۔ 
جوں جوں شہباز شریف کا خطاب طویل ہوتا گیا اپوزیشن ارکان تھکتے چلے گئے۔ بعض ارکان کی آواز نکلنا بند ہو گئی اور کچھ کے چہروں پر تھکان اور پسینہ نظر آنے لگا۔ اس کے بعد نعروں کی آواز دھیمی پڑ گئی اور وقفے وقفے کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا۔
جوںہی اپوزیشن کی آواز دھیمی پڑی تو لیگی ارکان نے ’گو نیازی گو‘ کے نعرے لگا کر انہیں ایک بار پھر جوابی نعرے لگانے پر مجبور کیا لیکن جلد ہی یہ سلسلہ تھم گیا کیونکہ اپوزیشن ارکان کافی حد تھک چکے تھے۔ 

اندر شہباز شریف کا خطاب جاری تھا تو باہر لیگی رہنماؤں کی پارلیمنٹ ہاؤس میں مٹھائی تقسیم کی جا رہی تھی (فوٹو: اردو نیوز)

اپوزیشن ارکان جوں جوں تھکتے جاتے ایک ایک کر کے لابی میں جاتے ریفریشمنٹ کرتے اور تازہ دم ہو کر واپس آ جاتے، اور پھر احتجاج اور نعرے بازی میں شامل ہو جاتے۔ دوسری جانب شہباز شریف کے طویل خطاب نے حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان کو بھی بور کر دیا اور وہ جمائیاں لیتے رہے یا پھر آپس میں خوش گپیاں لگاتے رہے۔ 
اندر شہباز شریف کا خطاب جاری تھا تو باہر لیگی رہنماؤں کی پارلیمنٹ ہاؤس میں مٹھائی تقسیم کی جا رہی تھی۔ سابق ڈپٹی مئیر اسلام آباد ذیشان شاہ کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطہ میں کارکنان میں مٹھائی تقسیم کئی گئی۔ 
اپوزیشن کے احتجاج کے دوران سنی اتحاد کونسل کے رکن شاہد کھٹک سب سے زیادہ متحرک نظر آئے۔ وہ نعرے لگاتے لیگی ارکان کے ساتھ الجھنے اور اشارے کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ 
اپوزیشن کے تمام تر احتجاج اور شور شرابے کے باوجود شہباز شریف نے اپنا خطاب ایک گھنٹہ سولہ منٹ تک جاری رکھا۔ شہباز شریف کے خطاب کے بعد سپیکر نے ہارنے والے امیدوار عمر ایوب کو دعوت دی تو ن لیگی ارکان نے احتجاج شروع کر دیا اور ’چور چور گھڑی چور‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
جس کے باعث سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے عمر ایوب کو گھیرے میں لے لیا۔ اس دوران نواز شریف، آصف زرداری اور بلاول بھٹوزرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد شہباز شریف بھی ایوان سے باہر چلے گئے۔ 

شیئر: