Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ’ایکس‘ کی بندش، کاروباری افراد سے لے کر صحافیوں تک سبھی پریشان

گذشتہ ماہ 22 فروری کو سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ایکس کی سروس فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں سوشل میڈیا ایپ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش کو تقریباً تین ہفتے ہونے کو ہیں اور کاروباری افراد سے لے کر صحافی تک سبھی پریشان ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانیوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان کی ایکس تک رسائی بحال کی جائے۔
نیٹ بلاکس گلوبل انٹرنیٹ مانیٹر کے مطابق پاکستانی حکام نے 17 فروری سے ملک میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے بعد ایکس کو عارضی یا مکمل طور پر بند کیا ہوا ہے۔
جب صارفین ایکس تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر انہیں یہ میسج دیکھنے میں ملتا ہے: ’کچھ غلط ہو گیا لیکن پریشان نہ ہوں اور ایک اور کوشش کریں۔‘
تاہم کراچی میں ’سیڈ وینچرز‘ نامی فرم چلانے والی شائستہ عائشہ پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنی سوشل میڈیا پوسٹنگ ایکس کے ذریعے کرتے ہیں، اور دوسری تنظیموں اور فنڈرز کے ساتھ جڑتے ہیں، تو یقینی طور پر سوشل میڈیا کی رسائی کے حوالے سے نقصان ہوا ہے۔‘
شائستہ نے مزید کہا کہ انہوں نے ابھی تک ایکس پر پابندی کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کا حساب نہیں لگایا۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے انٹرنیٹ بندش کی مذمت کی اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پابندیاں اٹھائے اور آزادی اظہار رائے کا احترام کرے۔
رواں ہفتے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی وزارت اطلاعات کو دارالحکومت کے ایک رہائشی کی جانب سے ایکس تک رسائی میں رکاوٹ کو چیلنج کرنے والے کیس کا جواب دینے کے لیے طلب کیا۔ اس کیس کی سماعت اگلے ہفتے ہو گی۔
ابتدائی طور پر پی ٹی اے نے انٹرنیٹ کی بندش کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا، لیکن پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں اسی طرح کے ایک کیس میں اس نے کہا کہ وزارت داخلہ نے پولنگ کے دن موبائل فون سروس معطل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

پاکستانی حکام نے 17 فروری سے ملک میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے بعد ایکس کو عارضی یا مکمل طور پر بند کیا ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وکیل جبران ناصر نے بھی ایکس کی بندش اور انٹرنیٹ کی سست روی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ اس طرح کے ریاستی مسلط کردہ شٹ ڈاؤن یہ حکم دینا شروع کر سکتے ہیں کہ ’ہمیں اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے اور ہم کن آزادیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘
گذشتہ ماہ 22 فروری کو سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو ایکس کی سروس فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن جبران ناصر کے مطابق پابندی برقرار رہی۔ اس کی وجہ سے حکام کے خلاف توہین عدالت کا کیس چل رہا ہے جس کی سماعت 20 مارچ کو ہو گی۔

وی پی این کا استعمال

ڈیٹا رپورٹل کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ 10 لاکھ آبادی میں سے صرف 45 فیصد سے زائد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی میسر ہے، اور تقریباً سات کروڑ 20 لاکھ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
سنہ 2024 کے آغاز تک پاکستان میں ایکس استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 45 لاکھ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی اشتہاری رسائی 1.9 فیصد آبادی کے برابر تھی۔
پاکستان میں کئی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنیوں کی سرابراہی کرنے والے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ ہشام سرور کے مطابق چھوٹے کاروبار نقصان میں جا رہے ہیں کیونکہ شٹ ڈاؤن نے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کو نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’(ایکس) کی عدم موجودگی کے نتیجے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے کیونکہ میٹا پلیٹ فارمز (فیس بک اور انسٹاگرام) پر مواد بنانے میں وقت لگتا ہے۔‘

فریحہ عزیز کے مطابق انٹرنیٹ کی سپیڈ سست کر دی گئی جس سے وی پی این سے کنیکٹ ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

وی پی این سروس فراہم کنندگان کے مطابق، پابندیوں کو روکنے کے لیے بہت سے پاکستانیوں نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کا رخ کیا ہے جو ڈیٹا کو خفیہ رکھتے ہیں اور یہ واضح نہیں کرتے کہ صارف کا تعلق کہاں سے ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ وہ ایکس تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ’یہ (ایکس) ہر چیز کے بارے میں حقیقی معلومات حاصل کرنے کے لیے بہت اہم ہے جسے حکام نے مین سٹریم میڈیا پر بلاک کیا ہے جیسے انتخابی بے ضابطگیاں ہوں یا صحافیوں کی گرفتاری کی معاملہ ہو۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ سست کر دی گئی جس سے وی پی این سے کنیکٹ ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت وی پی اینز بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
روئٹرز نے جب وی پی اینز بند کرنے کے الزامات کے حوالے سے پی ٹی اے اور وزارت اطلاعات سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
صحافی عمیر علوی نے بتایا کہ جب سے بلیک آؤٹ شروع ہوا ہے وہ خبرین بریک کرنے، اپ ڈیٹس شیئر کرنے یا خبروں کے ذرائع جاننے کے لیے ایکس استعمال نہیں کر پا رہے۔

شیئر: