Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے مسلمان شہریت کے متنازع قانون سے پریشان کیوں؟

انڈین حکومت نے قانون پیر کو نافذ کیا ہے جسے ناقدین مسلم مخالف سمجھتے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
انڈیا میں حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف چند ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انڈین حکومت نے یہ قانون پیر کو نافذ کیا تھا جسے ناقدین مسلم مخالف سمجھتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس ترمیمی ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت ہندو، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں، بدھ مت اور جین مت کو ماننے والوں سمیت دیگر کو انڈیا کی شہریت دی جا سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ممالک، افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر ہندو اکثریتی ملک انڈیا آگئے تھے۔
انڈین حکومت نے کہا ہے کہ اہل افراد آن لائن پورٹل کے ذریعے انڈیا کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
اس قانون کا  نفاذ مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کیے گئے اہم انتخابی وعدوں میں سے ایک رہا ہے۔
مودی کی حکومت نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ قانون امتیازی ہے اورمؤقف اپنایا ہے کہ اس (قانون) کا مقصد صرف ظلم و ستم سے بھاگنے والی مذہبی اقلیتوں کو شہریت دینا ہے اور اسے انڈین شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

کونسا نقطہ اس قانون کو متنازع بناتا ہے؟

اس قانون کو 2019 میں انڈیا کی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا لیکن مودی کی حکومت نے نئی دہلی اور دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا۔
2019 میں ملک گیر احتجاج نے تمام مذاہب کے افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا جن کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک سیکولر ملک کے طور پر انڈیا کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے۔

انڈین حکومت نے کہا ہے کہ اہل افراد آن لائن پورٹل کے ذریعے انڈیا کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)

مسلمانوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوا کہا تھا کہ حکومت شہریوں کے مجوزہ قومی رجسٹر کے ساتھ مل کر قانون کو استعمال کر کے انہیں پسماندہ کر سکتی ہے۔ شہریوں کی قومی رجسٹریشن کا عمل دراصل غیر قانونی طور پر انڈیا آنے والوں کی شناخت کرنا ہے۔
رجسٹر صرف شمال مشرقی ریاست آسام میں لاگو کیا گیا ہے لیکن مودی کی پارٹی نے ملک بھر میں اسی طرح کی شہریت کی تصدیق کا پروگرام شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ناقدین اور مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ شہریت کا نیا قانون ان غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کرے گا جنہیں رجسٹر سے خارج کر دیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کو ملک بدری یا نظر بندی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انڈیا کے مسلمان پریشان کیوں ہیں؟

شہریت کے قانون کے مخالفین انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں، اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کی یہ (قانون) آئین میں درج سیکولر اُصولوں کے منافی ہے۔ عقیدے کو شہریت حاصل کرنے کی شرط نہیں بنایا جا سکتا۔

ناقدین کے نزدیک مودی ایک ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس سے ملک کی سیکولر بنیاد ختم ہونے کا خدشہ ہے (فوٹو:گیٹی امیجز)

پیر کو انسانی حقوق کے نگراں ادارے ایمنسٹی انڈیا نے کہا کہ ’یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو جائز قرار دیتا ہے۔‘
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اس قانون کا مقصد مظلوم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو اس میں اُن مسلم مذہبی اقلیتوں کو بھی شامل کرنا چاہیے تھا جنہیں اپنے ہی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسے کہ پاکستان میں احمدی اور میانمار میں روہنگیا مسلمان۔
ناقدین کے نزدیک مودی ایک ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس سے ملک کی سیکولر بنیاد ختم ہونے، مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جگہ کم ہونے اور ملک کے ایک ہندو قوم بننے کا خطرہ ہے۔
ہندو ہجوم کے ہاتھوں سینکڑوں مسلمان گائے کا گوشت کھانے یا گائے سمگل کرنے کے الزام میں ہلاک ہو چکے ہیں کیونکہ ہندو گائے کو مقدس سمجھتے ہیں۔
اسی وجہ سے مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا گیا، ان کے گھروں کو منہدم اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلم مخالف تشدد پر نریندر مودی کی واضح خاموشی نے ان کے کچھ انتہائی حامیوں کو حوصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے خلاف مزید نفرت انگیز تقاریر کو بڑھاوا دیا ہے۔

شیئر: