Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناصر کاظمی،شاعری میں قدیم انداز کو نیاپیرہن عطا کر گئے

الخبر میں بزمِ ادراک کے زیر اہتمام عہدساز شاعر کی یاد میں مشاعرہ
* * * *ادب ڈیسک۔ الخبر* * * *
یادوں کے نہاں خانوں میں ہر وقت ہزاروں نام تہ در تہ رکھے ہوتے ہیں۔ انسان کسی بھی شعبے میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے ماضی کی یاد، حال کا عمل اور مستقبل کی سوچ ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ جو مشاہیر اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں، اُن کو یاد رکھنا بھی ایک ذمہ داری کی ادائیگی کے زمرے میں آتا ہے۔ دنیائے ادب میںناصر کاظمی ایک ایسے شاعر تھے جو ایک وقت میں ماضی ،حال اور مستقبل تک رسائی رکھتے تھے۔ گزشتہ دنوں بزمِ ادراک نے مقامی ہوٹل میں عہدساز شاعر ناصر کاظمی کی یاد میں ایک نشست کا اہتما کیا۔ اِس نشست کی صدارت کا اعزاز رحجان ساز شاعر ادیب اور محقق راہی فدائی کو حاصل ہوا۔ نظامت کے فرائض شاعر ادیب افسانہ نگار اور بزم ِ ادراک کے روحِ رواں محمد ایوب صابر نے ادا کئے۔ نشست دوحصو ں پر مشتمل تھی ۔ پہلے حصے میں ناصر کاظمی کے فن پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ محمد ایوب صابر نے ناصر کاظمی کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کی تاریخ ایسے بے شمار ستاروں سے روشن ہے جو اپنے وقت پر نمودار ہوئے اور اپنی روشنی چھوڑ کر فلک کے اُس پار چلے گئے۔
ناصر کاظمی کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ سراغ ملتا ہے کہ انہوں نے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے درد سے آشنائی حاصل کی ۔انہوں نے اپنے اسلوب سے شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ انہوں نے پامال زمینوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ سادہ انداز میں ایسی گہر ی باتیں کہی ہیں کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ اُن کی شاعری پر آواز کا جادو جگا کر کئی غزل گائیک بامِ عروج تک پہنچ گئے۔ حسن الدین خان نے کہا کہ ناصر کاظمی کے اشعار سن کر ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کے بعد شعر ی دنیا میں ناصر کاظمی نے اپنا مقام حاصل کیا۔ اِس نشست میں شرکت کے بعد ناصر کاظمی کی شاعری میں میری دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ شہریار محمد خان نے کہا کہ ناصر کاظمی بلند مرتبہ اردو شاعر ہیں ، اُن کے کلام میں انفرادیت ہے ۔
انہوں نے اپنے اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ یہی ایک اچھے شاعر کی خوبی ہے اور ناصر کاظمی اِس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ دائود اسلوبی نے کہا کہ ناصر کاظمی کی شاعری میں وہی آہنگ اور تازگی ہے جو اُن سے پہلے اساتذہ کے کلام میں موجود تھی۔ اُن کی شاعری موجودہ دور میں بھی زندہ ٔ جاوید ہے اور وقت کے ساتھ اور بھی تاباں ہو گی۔ شعر و ادب کی دنیا میں ناصر کاظمی کا نام ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ محمد رفیق آکولوی نے کہا کہ میں ایوب صابر کا ممنون ہوں جنہوں نے اِس دور میں جب لوگ زندہ احباب کو بھول رہے ہیں، اساتذہ کی یاد میں ایسی نشست کا اہتمام کرنا بلا شبہ قابلِ تحسین عمل ہے۔ جو تخلق کارزیر زمیںجاچکے، اُن کے لئے دوستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ادب کی حقیقی خدمت ہے۔ ناصر کاظمی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور رہیں گے ۔ خالد صدیقی نے کہا کہ ناصر کاظمی نہ صرف اعلیٰ پائے کے شاعر تھے بلکہ اُن کے اسلوب میں نرالاپن تھا۔ اُن کی خاص خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے وقت کے قد آور شعراء کے درمیان رہ کر اپنا الگ مقام پیدا کیا۔ آج کی تقریب اِ س بات کی گواہ ہے کہ ناصر کاظمی کا فن زندہ ہے۔
سرفراز حسین ضیا نے کہا کہ میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ لاہور میں میرا موجودہ گھر ناصر کاظمی کی گلی میں ہے۔ میں کالج لائف میں رسالے کرائے پر لے کر آتا تھا۔ ہر رسالے میں ناصر کاظمی کا کلام شامل ہوتا تھا۔ اُس دور میں ریڈیو پاکستان پر سب سے زیادہ ناصر کاظمی کا کلام نشر ہو تا تھا۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں یہ خوبی ہے کہ وہ دل میں اتر جاتی ہے۔ انہوںنے نہ صرف غزل میں کمال پیدا کیا بلکہ نظم کے میدان میں بھی وہ اعلیٰ درجے کے شاعرتھے۔ ناصر کاظمی جیسے شعرا ء نے ادب کو پہچان دی۔ تنویر احمد تنویر نے کہا کہ ناصر کاظمی کی شاعری تعلیمی نصاب کا حصہ ہے۔ ناصر کاظمی ایک ایسے سچے تخلیق کار تھے جو اپنے لہجے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ناصر کاظمی ریڈیو کے ساتھ منسلک تھے۔اوّل درجے کے گلوکاروں نے اُن کا کلام گایا اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ معروف غزل سنگر غلام علی نے ناصر کاظمی کی غزل کا پہلا مصرع’’دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی‘‘ کو بے شمار انداز سے ادا کیا ۔میرے خیال میں ناصر کاظمی کا کلام ہی ایک لہر تھی جس نے سب کو اپنا ہم خیال بنا لیا۔ اِس سے ثابت ہوگیا کہ سچا فنکار کبھی نہیں مرتا۔
آج بھی ہم لوگ اُن کا نام لے رہے ہیں ،اِس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ادب کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو وقت یاد رکھے گا۔ راہی فدائی نے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج کی محفل میں ناصر کاظمی کے بارے میں شخصی اور ادبی آراء سامنے آئی ہیں۔ ناصر کاظمی اردو شعر و ادب کا معتبر نام ہیں ۔اُن کا نام اِس حوالے سے بھی معتبر ہو جاتا ہے کہ 1930ء کے بعد ترقی پسند ادب کا چرچا رہا۔ ترقی پسند تحریک پر بہت زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ شعراء شعوری یا لاشعوری طور پر اِس تحریک سے جُڑ گئے ۔ قدامت اور کلاسک کونظر انداز کیا جانے لگا ۔ 1960ء کے بعد جدیدیت آئی۔ اِس دور میں اکثر ترقی پسندوں کو بُر ا بھلا کہا جانے لگا۔ اُس زمانے میں ترقی پسندوں کے خلاف بات کرنے کو جدیدیت کا نام دیا گیا۔ اِن تمام حوالوں میں ناصر کاظمی کا فن مستحکم رہا۔ ہم ناصر کا ظمی کے فن کا احاطہ اُن کے اشعار سے کریںگے۔ ہمارے سامنے یہ بات زیادہ اہم نہیں کہ کتنے گلوکاروں نے ناصر کاظمی کا کلام گایا ۔ ناصر کاظمی کلاسک اور جدت کے درمیان کا ایک راستہ ہیں۔ انہوں نے میر اور غالب کو آگے بڑھایا اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے بغیر اپنی شاعری کو ایک محفوظ مقام تک لے آئے اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کو کلاسک سے آگے بڑھاتے ہوئے جدید سرحدوں میں داخل ہونے کی کوشش کی اور اِس میں کامیابی حاصل کر لی۔ ناصر کاظمی ایسے شاعر تھے جو اپنی شاعری میں قدیم انداز کو نیاپیرہن عطا کرگئے ۔ وہ اپنے لب و لہجے کی وجہ سے زندہ رہیں گے۔ نشست کے دوسرے حصے میں شاندار محفل مشاعرہ کا اہتما م کیا گیا۔
اِس محفل کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ شعرا ء اپنی غزل سے پہلے نعتیہ اشعارپڑھ رہے تھے۔ مشاعر ے میں سبحان اللہ ، واہ واہ اور مکرر ارشاد کا ایک تسلسل جاری تھا۔ شعرا ء اپنے بہترین کلام سے شعور و آگہی کا سامان مہیا کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک خاص قسم کے سرور نے محفل کو اپنے حصار میں لے لیا ہے، وقت تھم گیاہے اور ساعتیں کلام کر رہی ہیں۔ محمد ایوب صابر، دائود اسلوبی، رفیق آکولوی، خالد صدیقی ، سرفراز حسین ضیا، تنویر احمد تنویر اور راہی فدائی نے اپنا کلام پیش کیا۔ محمد رمضان، حسن الدین خان، قاضی امان اللہ، مشیر احمد اور سلمان خالد کی شرکت نے محفل کی رونق دوبالا کر دی۔آخر میں محمد ایوب صابر نے تما م شرکا ء کا شکریہ ادا کیا۔ اِ س طرح یہ یاد گار محفل اختتام پذیر ہوئی۔قارئین کی دلچسپی کے لئے شعرا ء کے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار پیش خدمت:
٭٭داؤد اسلوبی
 کس کو بتائیں دوشی ، کس سے کریں گلہ
 اب پھونک دے جو گھر کو، خود گھر کا آدمی
ایسی لگی ہے آتش ساگر کے درمیاں
ساحل پہ آ گیا ہے ساگر کا آدمی
٭٭سرفراز حسین ضیا:
 یہ تاب حسنِ یار کے قابل نہیں ابھی
پت جھڑ ہے رُت بہار کے قابل نہیں ابھی
اشکوں سے دُھل رہی ہے ابھی گرد آنکھ کی
یہ چشم اِس دیار کے قابل نہیں ابھی
٭٭محمد رفیق آکولوی:
 عشق نے دل میں مرے آگ لگائی کیا کیا
جلوۂ رُخ نے ترے آگ بجھائی کیا کیا
ٹوٹنا حلقۂ غم کا نہیں ممکن تھا مگر
بات اک ضربِ تبسم نے بنائی کیا کیا
٭٭محمد ایوب صابر:
مٹی مرے بدن کی یوں مخمور ہو گئی
اک چاک پر سفال کو سانچے میں ڈھال کر
 سوچوں کو تری اک نیاانداز دے دیا
میں نے ترے جلال کو سانچے میں ڈھال کر
٭٭خالد صدیقی:
 پامال اِس قدر کبھی دیکھا نہیں گیا
 ایسا بھی ہو گا یہ کبھی سوچا نہیں گیا
بولی تو اِس ضمیر کی اچھی لگی مگر
 ہم سے ہی خود کو آج بھی بیچا نہیں گیا
٭٭تنویراحمد تنویر
میں حق کی بات کہہ سکوں ظالم کے سامنے
اے کاش مصلحت کا یہ ہیجان ٹوٹ جائے
اُس وقت کی نہیں تمہیں رسوائیوں کا خوف
 طاقت کا جب بھرم سرِ میدان ٹوٹ جائے
٭٭راہی فدائی
فلک کی چاہ کہاں ہے نئی زمینوں کو
 مکاں بھی شعلہ بداماں ملا مکینوں کو
کرشمہ سازیٔ حُسنِ نظام کے ہاتھوں
 سحر جبیں کی سند مل گئی شبینوں کو
 زمینِ شر ہی سہی یہ امید ہے، تہ سے
 نکال لائیں گے ہم، خیر کے دفینوں کو

شیئر: