Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر: دوغلی پالیسیاں اور تضادات کا مجموعہ

 چھوٹا بھائی جس دن ہوش کے ناخن لے گا اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوکر واپس آئے گا تو اپنے بڑے بھائیوں کو بانہیں پھیلائے پائے گا

 
عبد الستارخان
 
خلیجی بحران پلک جھپکتے پیدا ہوا اور برف کے گولے کی طرح بڑھتا چلا گیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج قطر خلیجی وحدت ہی نہیں بلکہ اجماعِ امت سے کٹ کر الگ ہوگیاہے۔ جو لوگ مگرمچھ کے آنسو سے دھوکہ کھا رہے ہیں اور جذبات میں آکر قطر کے گن گارہے ہیں کہ ان کے لئے قصۂ یوسف علیہ السلام میں کافی عبرت ونصیحت ہے۔ یہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی ہی تھے جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا اور پھر شام کو روتے پیٹے اپنے باپ کے پاس پہنچے۔ اگر آنسو بہانے سے باطل کو حق مانا جائے تو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں سے زیادہ معصوم اور کون ہوسکتا ہے۔ جو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر قطر کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں انہیں کچھ دیر صبر کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ ابھی حقائق مکمل طور پر نہیں کھلے اور قطر کی قلابازیاں پوری طرح سے واضح نہیں ہوئیں۔ حماس اور اخوان کی حمایت پر قطر کو سزا دینے کا گن گانے والے اور گلہ پھاڑ پھاڑ کر قطر کی دہائی دینے والے قطری انتظامیہ کی متضاد پالیسیوں سے عوام الناس کو کیوں آگاہ نہیں کرتے۔ 
 
جی ہاں ، قطر حماس اور اخوان کی حمایت کرتا ہے مگرلوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ قطر اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات رکھتاہے۔ قطر پورے خلیج میں واحد ملک ہے جس نے اپنے ہاں اسرائیل کا دفتر کھول رکھا ہے۔ قطر ، اسرائیلی تعلقات آج کے نہیں بلکہ ان کا آغاز 1996ء میں ہوا تھا۔ مگرمچھ کے آنسو بہانے والے بتائیں کہ یہ کیا متضاد پالیسی ہے کہ حماس کی پشت پناہی کرکے سادہ لوح عوام کی حمایت حاصل کی جارہی ہے اور اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھاکر مسلمانوں کو دھوکہ دیا جارہاہے۔ قطر نہ صرف متضاد پالیسیوں کا ملک ہے بلکہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ وہ حوثی باغیوں کیخلاف اتحادی افواج کا حصہ ہے اور حوثی باغیوں کی مالی مدد بھی کرتاہے، اس کے ساتھ معزول صدر علی عبد اللہ صالح کے جنگجوؤں کی پشت پناہی کرتا ہے ، ساتھ ہی یمنی صدر عبد الربہ ہادی کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جنوبی یمنیوں کو شمالی یمنیوں کیخلاف اکساتاہے۔ یمن کے حوالے سے یہ تمام متضاد اور باہم متصادم پالیسیاں اختیار کرنے پر آخر کونسا مفاد حاصل ہوسکتاہے۔ ہاں صرف ایک مفاد ہے اور وہ ہے خطے میں خلفشار پیدا کرنا۔ 
 
دھول بیٹھنے کے بعد اب عربوں کو معلوم ہوا ہے کہ تیونس، لیبیا، مصر، یمن اور شام میں عوامی بغاوت جسے اس وقت ’’عرب ممالک میں موسم بہار‘‘ کا نام دیا گیا تھا حقیقت میں موسم خزاں کا آغاز تھا۔ غور کیا جائے کہ جن جن ممالک میں عوامی بغاوت ہوئی تھی وہاں اس بغاوت سے آخر کونسا خیر برآمد ہوا ہے۔یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ اس مبینہ بہار کے پیچھے کن خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور کس کے گریبان میں کتنا خون لگا ہے مگر آج اس کے کچھ حقائق آشکار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ عرب ممالک کی مبینہ بہار میں قطر کی دولت ملوث رہی ہے۔ 
 
خطے کی تازہ ترین حالات کو دیکھ کر بے خبر لوگ معصومانہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر یہ لاوا کیوں پھٹ پڑا۔ عرض یہ ہے کہ یہ لاوا گزشتہ21سال سے پک رہا تھا۔ سعودی عرب کے سابق فرمانروا شاہ عبد اللہ طبعاً نرم مزاج، درگزر کرنے والے اور معاف کرنے والے تھے۔ شاہ عبد اللہ پر بھی ایک وقت ایسا آیا جب صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے گئے تھے۔ بعد ازاں ریاض میں عہد وپیماں کے بعد سعودی عرب نے قطر کو ایک اور موقع دیتے ہوئے اسکے سارے قصور معاف کردیئے اورتعلقات کے نئے صفحے کا آغاز ہوا مگر قطر ی حکام فطرتا ًٹیڑھ پن کا شکارہیں۔ عہد وپیماں باندھنے اور قسمیں کھانے کے بعد بھی خلیجی ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئے۔ آخر کار سعودی عرب، بحرین اور امارات کے علاوہ مصر کو وہ شواہد مل گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے مشرقی شہر قطیف میں شیعہ فرقے کو اکسانے والا کوئی نہیں ، قطر ہی ہے جو ایران کے توسیع پسند ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل کر رہا ہے۔ بحرین میں بھی آئے دن جو فتنے اٹھ رہے ہیں ان میں بھی قطر کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح مصر میں موجودہ حکومت کیخلاف سازشیں بننے اور اس کے استحکام کو نشانہ بنانے میں قطر گردن تک ملوث ہے۔
 
جن لوگوں کو نہیں معلوم انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت خطے میں 3طاقتیں اپنے اپنے مفادات کیلئے خفیہ وعلانیہ کام کر رہی ہیں۔ پہلی طاقت ایران اور اسکے دم چھلے ہیں جو کسریٰ کے عظیم فارس کے احیائے نو کی کوشش میں ہیں۔ دوسری طاقت قطر ہے جو ریڈیکل قوتوں کے ساتھ قطر کو خطے میں اسکے حجم سے کہیں زیادہ کردار سونپنے کی کوشش میں ہے جبکہ تیسری طاقت سعودی عرب اور اعتدال پسند قوتوں کی ہے جو خطے میں امن واستحکام اوربقائے باہم کے اصولوں پر بہتر مستقبل کی تلاش میں ہیں۔ پہلی 2 قوتوں کا بظاہر باہم اختلاف ہے تاہم اہداف مشترک ہیں جبکہ تیسری قوت جیو اور جینے کے اصولوں پر پہلی 2قوتوں سے یکسر متضاد رویہ پر عمل پیرا ہے۔ آج کی دنیا کو سازشوں ، دھماکوں اورخفیہ تنظیموں کے ذریعہ بیوقوف بنایا جاسکتاہے نہ ہی فتح کیا جاسکتا ہے۔ دنیا اپنا دل کھولے گی تو صرف اس کیلئے جو اپنے اندر شفافیت کاجوہر رکھتا ہو۔ امت کے ہر فرد کو معلوم ہونا چاہئے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک آج سنی مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ ہیں۔ جب تک خلیجی ممالک مستحکم ہیں دنیا میں سنی مسلمان خیریت سے ہیں۔ خدانخواستہ خلیج عدم استحکام کا شکار ہوگیا تو عراق کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ 
 
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے پاکستان میں شیعہ نواز میڈیا اور لفافہ صحافیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوںگا کہ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے یہ راگ ا لاپنا چھوڑ دیں کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے قطر کے ساتھ حماس اور اخوان سے تعلق کی وجہ سے یہ اقدام کیا ہے۔ عوام سے یہ بات کیوں چھپائی جارہی ہے کہ قطر کے جتنے تعلقات حماس کے ساتھ ہیں اتنے ہی اسرائیل کے ساتھ بھی ہیں۔خلیج میں جاری بحران سے صرف قطر کو ہی نقصان نہیں ہورہا بلکہ اس میں خود سعودی عرب ، بحرین اور امارات کو بھی قطر کے نقصان سے تکلیف ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی کی بغاوتوں سے تنگ آکر بڑے بھائیوں نے یہ اقدام کیا ہے۔ چھوٹا بھائی جس دن ہوش کے ناخن لے گا اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوکر واپس آئے گا تو اپنے بڑے بھائیوں کو بانہیں پھیلائے پائے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ چھوٹا بھائی اپنی شرارتوں سے باز آجائے اور صحیح روش پر چلے۔ جسم کے ایک عضو میں اگر خرابی پیدا ہوجائے اور وہ باقی جسم کے لئے نقصان دہ بن جائے تو ہم خود اسے کاٹ کر پھینک دیتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ ہم اپنے جسم کے عضو سے مایوس ہوجائیں۔ 
 

شیئر: