Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا آپشن موجود رہنا چاہیے: بیرسٹر سیف

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ ’دونوں اطراف سے خون بہہ رہا ہے اور اس جنگ کو روکنے کا واحد حل بات چیت ہے۔‘ 
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ایک بار پھر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر نہیں کریں گے اور جب تک دہشت گردی جاری ہے یہ جنگ بھی جاری رہے گی، تاہم اس کے باوجود امن کو راستہ دینے کے لیے مذاکرات کا آپشن موجود رہنا چاہیے۔‘
 بیرسٹر سیف کے مطابق ’دونوں اطراف سے خون بہہ رہا ہے اور جب تک جنگ جاری رہے گی، یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ اگر ہم امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔‘ 
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم دہشت گردوں کے آگے سرنڈر کر رہے ہیں یا ہم اُن کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں۔‘
ہماری بات اگر ہوگی تو وہ تب ہوگی جب وہ پاکستان کے آئین، پاکستان کی ریاست اور پاکستان کے قانون کے احترام کا وعدہ کریں گے، اس کے بعد ہم راستہ بنائیں گے کہ ہم ان کے ساتھ کس طرح ایڈجسٹ کریں تاکہ یہ معاملہ ختم ہو۔‘
مشیر اطلاعات کا مزید کہنا ہے کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے اُن کا رابطہ تاحال قائم ہے، ٹی ٹی پی والے کوئی پیغام دینے کے لیے مجھے میسج کرتے ہیں، میں بھی اپنا پیغام اُن تک پہنچاتا ہوں، تاہم ابھی تک اُنہوں نے مجھ سے باضابطہ طور پر کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘ 
’عسکریت پسند بھی مذاکرات چاہتے ہیں کیونکہ انہیں بھی شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم دونوں جانب سے رضامندی کے بعد ہی مذاکرات ممکن ہوسکیں گے۔‘
بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ ’اگر ہم مذاکرات کرنا چاہیں اور وہ نہ مانیں تو پھر بھی امن مشکل ہے۔ اس سے قبل ٹی ٹی پی سے بات چیت اُسی کی رضامندی سے ہوئی تھی، اگر ٹی ٹی پی والے نہ چاہتے تو ملاقات نہ ہوتی۔‘

ترجمان خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ ’بات چیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دہشت گردوں کے آگے سرنڈر کر رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختو نخوا حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ ’وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت سے بات چیت ہو تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکل سکے۔‘
وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے بیان دیا ہے؟
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پیر کو پریس کانفرنس کے دوران واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’بات چیت کو ایک بار پھر موقع دینا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے قبل مذاکرات ناکام ہوئے جس کا ہمیں نقصان بھی ہوا، تاہم اب ہمیں سنجیدگی سے اس معاملے پر سوچنا چاہیے۔‘ 
علی امین گنڈاپور کے مطابق ’تمام اداروں کو مل بیٹھ کر معاملے کا جائزہ لینا چاہیے اور اس پر بحث ہونی چاہیے۔ ملکی مفاد کے لیے ایک مربوط پالیسی مرتب کی جانی چاہیے۔‘ 
وزیراعلی نے مزید کہا کہ ’ہمارا صوبہ افغانستان کی سرحد سے متصل ہے جس وجہ سے زیادہ نقصان ہمیں پہنچ رہا ہے، اس لیے ہمیں افغان حکومت سے مل کر بات چیت کرنا ہوگی۔‘
تجزیہ کاروں کا موقف
سینیئر تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ماضی میں جب بھی مسلح گروپوں سے بات چیت ہوئی وہ حکومت نے نہیں بلکہ عسکری قیادت نے کی یا اُن کی مرضی سے ہوئے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق ’مذاکرات سے قبل دہشت گردوں کو پاکستان کے آئین اور قانون کے احترام کا وعدہ کرنا ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس سے قبل 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے تھے جو اس وقت کی فوجی قیادت کی رضامندی سے ہوئے تھے، تاہم حکومت ختم ہونے کے بعد بات چیت بھی ختم ہوگئی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی نے ہمیشہ طالبان کے لیے سوفٹ کارنر رکھا ہے اسی لیے اُن پر تنقید بھی ہوتی ہے، اب پی ٹی آئی کی قیادت نے دوبارہ مذاکرات کی بات کی ہے، تاہم اس بار ایسا ہوتا مشکل نظر آرہا ہے۔‘
’اس کی وجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت تنہا یہ فیصلہ نہیں کرسکتی، اگرچہ دہشت گردی کی وجہ سے صوبے کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور کافی جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔‘
مذاکرات کن شرائط پر ہوں گے؟ 
صحافی مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ ’وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہو رہے ہیں اور اِن حملوں میں شدت بھی نظر آرہی ہے۔‘ 
اُن کی رائے کے مطابق وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے یہ وضاحت نہیں کی کہ بات چیت کیسے ہوگی اور کن شرائط پر ہوگی؟ کیا وہ قیدیوں کو رہا کریں گے؟ کیا ٹی ٹی پی والوں کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی؟ 

تجزیہ کاروں کے مطابق ’صوبائی حکومت کو مذاکرات سے قبل عسکری اداروں کو اعتماد میں لینا ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’مذاکرات سے قبل ان تمام پہلوؤں پر غور کرنا پڑے گا اور عسکری اداروں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ کالعدم ٹی ٹی پی بھی مذاکرات چاہتی ہے، اگر یہ بات چیت آگے بڑھتی ہے تو حالات میں بہتری آسکتی ہے۔‘
واضح رہے کہ 2013 میں پہلی بار خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کو صوبے میں دفاتر کھولنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان بھی متعدد بار عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بیانات دے چکے ہیں۔ 

شیئر: