Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو ماہ گزرنے کے بعد بھی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کیوں نہ ہو سکی؟ 

رولز آف بزنس کے مطابق ’وزیراعظم کے حلف لینے کے ایک ماہ بعد قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل ہو جانی چاہیے‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کی 16 ویں قومی اسمبلی کے نومنتخب ارکان نے 29 فروری کو اپنا حلف اٹھایا تھا۔ اس طرح نئی قومی اسمبلی کے قیام کو تقریباً دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی عدم تشکیل کی ایک اہم وجہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کمیٹیوں اور پارلیمانی امور پر اتفاق رائے نہ ہونا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سمیت دیگر اہم پارلیمانی بزنس، قانونی سازی اور اہم امور پر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
پارلیمان کی قائمہ کمیٹیوں نے قانون سازی سمیت وزارتوں کے اہم پارلیمانی امور پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔قائمہ کمیٹیوں کی عدم موجودگی میں پارلیمنٹ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم کے لیے بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ کمیٹیوں کی تشکیل کا معاملہ ایک ہفتے میں طے کر لیا جائے گا۔
سپیکر کی کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت
جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں سپیکر کی زیرِصدارت ہونے والے اہم اجلاس میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈرز اور چیف وہپ نے مشاورت کی۔
اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کے عددی تناسب سے قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی لیڈرز اور چیف وہپ کو ایک ہفتے کے اندر کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔
اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کے عددی تناسب سے قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم کا فارمولہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ اسی فارمولے کے تحت حکومت اور اپوزیشن میں کمیٹیوں کی تقسیم کی جائے گی۔
حکومت کو 26 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو 11 کمیٹیوں کی سربراہی دینے کی تجویز

پی اے سی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر اتفاق نہ ہونے سے بھی کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہوئی (فائل فوٹو: شیر افضل مروت ایکس اکاؤنٹ)

جمعرات کے روز سپیکر اور اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں اتحادی جماعتوں کو 26 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو 11 کمیٹیوں کی سربراہی دینے کی تجویز دی گئی۔
ابتدائی تجاویز میں یہ طے پایا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ہاؤس بزنس مشاورتی کمیٹی کے سربراہ سپیکر خود ہوں گے۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی سربراہی حکمران جماعت کو ملے گی۔
ابتدائی تجاویز کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے ہوگا۔ پی اے سی اور کشمیر کمیٹی کے ارکان کی تعداد 30، 30 رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
قومی اسمبلی کی ہاؤس کمیٹی کے سربراہ ڈپٹی سپیکر ہوں گے۔ ہر کمیٹی میں حکمران اتحاد کے ارکان کی اکثریت ہوگی۔ 8 کمیٹیوں کی سربراہی پی پی، دو ایم کیو ایم جبکہ ق لیگ اور آئی پی پی کو ایک ایک کمیٹی کی سربراہی دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
اسی طرح  14 قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی مسلم لیگ ن کو ملنے کا امکان ہے۔اس سلسلے میں حتمی فارمولہ سپیکر کی زیرِصدارت اجلاس میں طے ہوگا۔ سنی اتحاد کونسل کو 8 کمیٹیوں کی صدارت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی سربراہی حکمران جماعت کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے (فائل فوٹو: سینیٹ سیکریٹریٹ)

قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کام عمل جلد مکمل ہونا چاہیے: رہنما پیپلز پارٹی
اس موقع پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل پر ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے، چند روز میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہونے کا امکان ہے۔‘
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’قائمہ کمیٹیوں کی عدم موجودگی میں پارلیمنٹ مکمل طور پر فعال نہیں ہے جس سے عوامی اور قانونی مسائل پر بحث نہیں ہو رہی۔‘
اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو۔‘
وزیراعظم کے انتخاب کے ایک ماہ بعد قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل مکمل ہونی چاہیے 
پارلیمانی امور کو کور کرنے والے سینیئر صحافی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کے مطابق قائد ایوان یعنی وزیراعظم کے حلف لینے کے ایک ماہ بعد قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہو جانا چاہیے۔
ان کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر کی ایک وجہ اپوزیشن لیڈر کا تاخیر سے منتخب ہونا ہے کیونکہ اپوزیشن لیڈر ہی نے قائمہ کمیٹیوں پر سپیکر سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔ 

مسلم لیگ ن کو 14 جبکہ سنی اتحاد کونسل کو 8 قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی ملنے کا امکان ہے (فائل فوٹو:  وِکی پیڈیا)

’قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے معاملے پر اپوزیشن اور حکمران اتحاد کے اجلاس میں اہم پیش رفت ہو گئی ہے۔فریقین کے درمیان کمیٹیوں کی سربراہی کے معاملے پر ابتدائی فارمولہ طے پا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب حکومت اور اپوزیشن نے یہ طے کرنا ہے کہ کس جماعت کو کون سی کمیٹی کی صدارت ملے گی، اور پھر یہی نام سپیکر قومی اسمبلی کو بھیجے جائیں گے۔‘
اعجاز احمد نے بتایا کہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر کی زیادہ ذمہ دار اپوزیشن ہے۔اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے معاملے نے طُول پکڑا ہے۔
’حکومتی سطح پر قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر کی وجہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر اتفاق رائے نہ ہونا بنا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب اپوزیشن کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کے لیے دوسرا نام بھیجنے کے بعد معاملات آگے بڑھے ہیں۔‘

شیئر: