Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: رفح پر حملے کے بعد غزہ کے لوگ کہاں جائیں گے؟

حسام ذکی نے کہا کہ ’ہم فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر قائم رہیں‘ (فوٹو: عرب نیوز)
گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے غزہ میں جارحیت بڑھنے پر اسرائیل کی جانب  سے بارہا یہ دعویٰ کیا گیا کہ اگر عرب ممالک کو واقعتاً غزہ کا خیال ہوتا تو وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیتے۔
عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل حسام ذکی کے مطابق ’یہ دلیل بالکل ناقص ہے جس میں اس حقیقت کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ عرب ممالک پہلے ہی لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔‘
حسام ذکی سمجھتے ہیں کہ دعوے میں اس حقیقت کو نظرانداز کیا گیا ہے کہ ایک بار جب غزہ کے عوام بےگھر ہو جائیں گے تو اسرائیلی حکومت ان کی واپسی کی اجازت نہیں دے گی۔
انہوں نے عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’اگر ہم واقعی سچ جاننا چاہتے ہیں تو اسرائیل کی خواہش ہے کہ  فلسطینی آبادی مقبوضہ علاقوں سے غائب ہو جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ فلسطینیوں کو مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ سے غائب ہوتے دیکھنا پسند کریں گے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ وہ زمین چاہتے ہیں۔ وہ علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس علاقے کو اپنی ریاست سے جوڑنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے انٹرویو میں 16 مئی کو بحرین میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس، رفح پر اسرائیل کے حملے کو روکنے کی کوششوں اور دو ریاستی حل کے کم ہوتے امکانات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کی طرح بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں دہرائی جائے گی۔
’فلسطینیوں نے ماضی کی غلطیوں، 1948 اور 1967 کی جنگ سے سبق سیکھا ہے کہ اگر ایک بار وہ اپنی سرزمین سے باہر نکل گئے تو یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اسے دوبارہ حاصل کرنا ایک مشکل جنگ ہو گی۔‘
حسام ذکی نے کہا کہ ’لہذا، ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر قائم رہیں، اپنی زمین پر ڈٹے رہیں، اور سرزمین چھوڑ کر باہر نہ جائیں کیونکہ وہ باہر جانے کے نتائج جانتے ہیں۔‘

حسام ذکی نے کہا کہ ’اسرائیل کی خواہش ہے کہ  فلسطینی آبادی مقبوضہ علاقوں سے غائب ہو جائے۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’وہ (اسرائیلی) ہم پر جتنی چاہیں تنقید کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس تمام عرب ممالک میں فلسطینی رہ رہے ہیں، کچھ بہت کم تعداد میں پناہ گزین کیمپوں میں لیکن زیادہ تر ان ممالک کے عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں۔ مصر اور خلیجی ممالک میں، اردن، شمالی افریقہ ، تمام عرب ممالک میں فلسطینی رہتے ہیں۔‘
حسام ذکی نے مزید کہا کہ ’یہ ایک ایسی تنقید ہے جو ہم اس لیے سُن لیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کا مقصد صرف اسرائیلیوں کے فائدے کے لیے علاقے کو خالی کرنا ہے جو اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عرب لیگ اور مصر، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت اس کے ہیوی ویٹ ممبران عرب امن اقدام کا فروغ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی پہلی بار 20 سال قبل نقاب کشائی کی گئی تھی اور قتل کے جنون کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک کچھ بھی کامیاب نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ جنگ روکنے اور سیز فائر کے لیے اقوام متحدہ کی واحد قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔‘
حسام ذکی کا خیال ہے کہ امریکہ کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل کو استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل بنیادی طور پر ایک ایسا ملک ہے جسے امریکہ، اس کے بہت سے اتحادیوں، ساتھیوں اور مغرب میں نام نہاد دوستوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ وہ اس پاگل پن کو نہیں روک سکتے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عرب لیگ کسی حد تک تنازع کو ختم کرنے میں ناکامی کی ذمہ دار ہے تو حسام ذکی نے ساری ذمہ داری واشنگٹن پر عائد کی۔
’ہم کیوں اور کیسے عرب لیگ کو مورود الزام ٹھہرائیں گے؟ عرب لیگ اس میں شریک نہیں ہے۔ عرب لیگ اسرائیل کو بم نہیں دے رہی۔ عرب لیگ اسرائیل کو گولہ بارود نہیں دے رہی۔ عرب لیگ اسرائیلی جارحیت کی مالی معاونت نہیں کر رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عرب لیگ ایک علاقائی تنظیم ہے جو امن کی خواہاں ہے، جو سیاست پر بات کر رہی ہے۔ یہ ایک سفارتی ادارہ ہے۔ جو بھی امن چاہتے ہیں ہم اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

شیئر: