Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب ترامیم کیس: عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت

اٹارنی جنرل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ ’ہم پارلیمنٹ کی نیب ترامیم کی حمایت کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سابق وزیراعظم عمران خان کو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت 16 مئی تک ملتوی کر دی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی۔ یہ بینچ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل ہے۔
عمران خان اگر پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو پیش کیا جانا چاہیے: جسٹس اطہر من اللہ
سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس مقدمے میں پٹیشنر عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے۔ وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں۔ یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔‘
دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ’اس کیس میں جو دلائل وفاقی حکومت کے ہوں گے ہم ان ہی کو اپنائیں گے، جبکہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔‘
عمران خان بطور وکیل کی نمائندگی چاہتے ہیں تو جیل حکام اقدامات کریں: چیف جسٹس 
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کے انتظامات کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں فریق ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اگر دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں، ان کے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے۔
اٹارنی جنرل کا دوران سماعت کہنا تھا کہ ’ہم پارلیمنٹ کی نیب ترامیم کی حمایت کرتے ہیں۔‘ جبکہ پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہم وفاقی حکومت کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا عدالتی کارروائی کو صرف قانونی نکات تک محدود رکھیں گے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرکزی کیس میں خواجہ حارث کے ذریعے دلائل دیے گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’عمران خان فریق ہیں انہیں سنا جانا چاہیے۔ یہ معاملہ نیب کی پولیٹیکل انجینیئرنگ میں ملوث ہونے سے متعلق ہے۔ اگر عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی پیش ہونا چاہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔‘
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمراں خان کو بذریعہ ویڈیو یا وکیل کے ذریعے نمائندگی دی جا سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ کیس ذاتی حقوق کا نہیں، معاملہ قانون کی شقوں میں ترمیم کا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کیا تمام مقدمات میں بھی ایسے ہی سائلین کو نمائندگی ملنی چاہیے۔ کیس ترامیم کے درست ہونے یا غلط ہونے سے متعلق ہے۔
سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک انفرادی درخواست گزار کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے اور کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مرکزی اپیلیں قابل سماعت بھی تھیں یا نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک دلائل دے سکتے ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے۔ چیف جسٹس نے عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا جاسکتا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ عدالتی معاون غیر جانبدار ہوتا ہے۔ وہ وکیل جو کسی فریق کا وکیل رہ چکا ہو اسے عدالتی معاون مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جب آرڈیننس آئے تو اس وقت کی حکومت اور عمران خان نے ان ترامیم کو سپورٹ کیا۔ اس وقت کہا گیا کہ نیب کی وجہ سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، معیشت متاثر ہو رہی ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہاں ہمارے پاس 57 ہزار کیس زیر التو ہیں (فوٹو: اے پی پی)

مخدوم علی خان نے جسٹس اطہر من اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی یادداشت بہت شاندار ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر قانون اور وزیر خزانہ نیب کے خلاف بیانات دیتے رہے تھے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’یہاں ہمارے پاس 57 ہزار کیس زیر التو ہیں۔ ہم اس کیس پر وقت کیوں ضائع کریں۔ اس کیس میں بنیادی درخواست گزار کی نیک نیتی ثابت نہیں تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا تھا کہ کیس لانے والوں نے پارلیمنٹ میں کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ نیب ترامیم کا معاملہ ہائی کورٹ میں تھا ہم دیگر سائلین کا وقت اس کیس کو کیوں دیں؟‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کی نیب قانون میں کی گئی ترامیم پی ٹی آئی دور کے آرڈیننس اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔ پارلیمنٹ کی ترامیم کا مقصد ان افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا جن پر نیب کے لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوئے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 16 مئی تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دی تھیں۔

شیئر: