Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند کی بیٹی دیش میں بھی تحفظ چاہتی ہے

خواتین ہندوستان کی آدھی آبادی ہیں،ہمارے ہاںہر 20 منٹ میں زیادتی کا کم از کم ایک واقعہ پیش آتا ہے
* * *عمیر کوٹی ندوی ۔ نئی دہلی* * *
اس وقت ہمارے ملک میں خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی جو فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔نئی دہلی کی رہنے والی 20سالہ عظمیٰ کی پاکستان سے واپسی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ خبروں کے مطابق معاشقہ کی وجہ سے پاکستان جانے والی یہ لڑکی وہاں مبینہ طور پر ظلم وزیادتی کا شکار ہوئی لیکن خود اس لڑکی کی سوجھ بوجھ اورپاکستان میں ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔اس کی واپسی کے لئے پاکستان کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کیا گیا۔اس کیس کی پیروی وکیل شہنوازنون نے کی اور عدالت نے اس لڑکی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے فریق مخالف کی اس دلیل کو کہ "یہ پاکستان کے وقار کا معاملہ ہے" یہ کہہ کر خارج کردیا کہ" اس معاملہ میں درمیان میں پاکستان کا وقار کہاں سے آگیا"۔ جسٹس کیانی نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ" عظمیٰ ہندوستان میں کہیں بھی جانے کے لئے آزاد ہے"۔اسی کے ساتھ عدالت نے ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمیشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس لڑکی کو ضروری کاغذات لے کر واہگہ بارڈر سے ہندوستان لے جائیں۔
وزیر خارجہ سشماسوراج جو نہ صرف اس پورے معاملہ پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھیں بلکہ متعدد بار فون پر لڑکی سے بات کرکے اسے تسلی بھی دی۔اس لڑکی کے مطابق وزیر خارجہ سشماسوراج نے اس سے کہا تھا کہ "گھبرانا نہیں ،تم ہندوستان کی بیٹی ہو۔ اگر 2سال بھی ایمبیسی میں رکھنا پڑا تو رکھیں گے لیکن تمہیں طاہر کے حوالے نہیں کریں گے"۔ انہوں نے پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ،اس لڑکی کا کیس لڑنے والے وکیل اور ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ "اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کیانی نے انسانی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے "اس فیصلے کا ستائشی انداز میں ذکر بھی کیا۔ وزیر خارجہ سشماسوراج نے لڑکی کی طرف سے اس کیس کی پیروی کرنے والے وکیل شہنواز نون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ"یہ مقدمہ انہوں نے ایک والد کی طرح لڑا ہے"۔ وطن واپسی پر اس لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے تلخ واقعات کا ذکر کیا تو اس کی واپسی میں معاونت کرنے پر ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا کہ"حکومتِ ہند اور وزیر خارجہ سشما سوراج کی شکرگزار ہوں کیونکہ ان کی کوششوں کے سبب ہی میں ہندوستان واپس آسکی ہوں"۔ اس واقعے کے ردعمل اور اس کی آڑ میں دیئے جانے والے بیانات اور عائد کردہ الزامات سے ماورا، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو کسی بھی وجہ سے برے حالات کا شکار ہوئی، اس کو بچانے کے لئے دونوں ہی ممالک کی حکومتوں نے مثبت قدم اٹھایا۔
عدلیہ نے اپنا مؤثر کردار اداکیا اور انتظامیہ نے بھی اپنا کام کیا۔ عدلیہ نے اس معاملہ کو " پاکستان کا وقار"قرار دینے کے ذریعے کی جانے والی اُس کوشش کی نفی کرکے قدغن لگادی جوعصبیت اور فرقہ واریت کو ہوادینے کے لئے اکثر وبیشتر کی جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ ہر جگہ ،ہر کہیں ہوتا رہتا ہے۔ میڈیا ماحول گرم کرتا ہے، سڑکوں چوراہوں پر ہنگامہ آرائی اور تخریب کاری ہوتی ہے، وکلاء مقدمات کی پیروی نہ کرنے کے لئے سبھا لگا بیٹھتے ہیں۔اگر کوئی مقدمہ لڑنے کے لئے آمادہ ہوجائے تو اسے زد وکوب کیا جاتا ہے اور نہ ماننے پر قتل بھی کردیا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں دونوں ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ دونوں ہی طرف سے مثبت اقدام کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی فکر دونوں جگہ پروان چڑھ رہی ہے۔
خواتین کے تعلق سے اس فکر کے باوجود خود ہمارے ملک میں ایک بار پھر25،26مئی کی درمیانی شب خواتین کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انسانیت کو شرمسار کردیا۔یہ واقعہ اس ریاست میں پیش آیا جہاں پر حکمراں پارٹی نے سال گزشتہ 30-31جولائی کی درمیانی شب وقوع پذیر ہونے والے ایسے ہی ایک واقعے اور ریاست میں کرائم کنڑول کو اسمبلی انتخابات میں اہم ایشو بنا یا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک کنبے کے لوگ بذریعہ کار نوئیڈا سے شاہجہان پور جارہے تھے کہ این ایچ 91پر بلند شہر کوتوالی دیہات حلقہ میں کار کو روک کر لوٹ مارکی گئی تھی اور ایک خاتون اور اس کی 14 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی لیکن اب جب کہ اس پارٹی نے ریاست اترپردیش میں اقتدار حاصل کرلیا ہے،وہاں لگا تار اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں حالانکہ یہ پارٹی مرکز میں بھی برسراقتدار ہے، اس کے باوجود نہ تو کوئی مؤثر قدم اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے اور نہ ہی کہیں سے تیزوتند بیانات سنائی دے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو میڈیا ماضی کے واقعے پر آسمان سرپر اٹھائے ہوئے تھا ،وہ اس بار بس جیسے تیسے خبر کی اشاعت پر ہی اکتفا کررہا ہے اور وہ بھی دل پر پتھر رکھ کر۔ پولیس کی مستعدی بھی قابل دید ہے۔
بلند شہر ہائی وے پر جیور کے سبوتا گاؤں کے قریب بدمعاشوں نے نہ صرف کارسے جیور سے بلندشہر جانے والے ایک ہی خاندان کے لوگوں سے ساتھ لوٹ مار کی بلکہ کار میں سوار4 خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی اور مزاحمت کرنے پر اس خاندان کے سربراہ شکیل کو گولی مار کرہلاک کردیا۔ مقتول شکیل نے کار کے ٹائر پنچر ہونے پر اپنے بھائی کوڈیڑھ بجے فون کر کے اس کی اطلاع دی تھی اور فوراً آنے کیلئے کہا تھا۔ ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ ان پر حملہ ہوگیا ۔موبائل کے آن ہونے پر واقعہ کے بارے میں شکیل کے بھائی کواسی وقت معلوم ہوگیا اور اس نے وقت ضائع نہ کرتے ہوئے فوراً پولیس کو اطلاع دے دی۔ اس کے مطابق اس نے 5منٹ کے اندر پولیس کوواقعے کی اطلاع دیدی تھی۔ جیور تھانہ سے جائے وقوعہ کی دوری صرف 5 کلو میٹر ہے لیکن حسب معمول پولیس ’’مستعدی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2گھنٹے کے بعد وہاں پہنچی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔17مئی کویوپی کے ہی ہردوئی ضلع میں5 لوگوں نے ایک لڑکی کو اسکے گھر سے اغوا کر کے اجتماعی زیادتی کی اوراس کے بعدنیم مردہ حالت میں اسے چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ریاست یوپی خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملے میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سال گزشتہ اجتماعی زیادتی کے762واقعات درج کئے گئے تھے۔
اس ریاست کے علاوہ ابھی چند روز پہلے ہریانہ کے سونی پت کی 23 سالہ لڑکی کو اغوا کرکے اسکے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔بعدازاں اسے قتل کر کے لاش پھینک دی گئی جسے کتوں نے کئی جگہوں سے نوچ ڈالا۔ یہ واقعات زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی فکر ملک کے باہر ہی نہیں ملک کے اندر بھی حقیقی معنوں میں اسی قوت ارادی کے ساتھ پروان چڑھنی چاہئے۔ اس لئے کہ اعداد وشمار اور رپورٹوں کے مطابق ہمارے ملک میں ہر 20 منٹ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کا کم از کم ایک واقعہ پیش آتا ہے۔پھر ہند کی بیٹی دیش سے باہر ہی نہیں دیش کے اندر بھی رہتی ہے اور وہ اس ملک کی آدھی آبادی ہے۔

شیئر: