Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر پر نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت

 اس الجھے ہوئے منظر نامے میں کسی ایسی تدبیر کی ضرورت ہے جو حالات کے سدھار اور تنازعہ کے حل کی جانب پیش قدمی کا باعث بن سکے
ارشاد محمود
  کشمیر سے آنے والی خبریں اور تجزیئے اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ نوجوانوں کی بھاری تعداد پُرتشدد کارروائیوں کی طرف مائل ہورہی ہے۔ جیل اورپولیس تشدد کا خوف ان کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ لوگ ہفتوں تک احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں حتیٰ کہ طالبات بھی احتجاج کا سرگرم حصہ بن چکی ہیں۔
ہندوستانی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے خبردار کیا کہ جو کوئی بھی ملٹری آپریشن میں رکاوٹ ڈالے گا اسے دہشتگرد تصور کیا جائےگا۔ شہریوں نے اس دھمکی کی کوئی پراہ نہیں کی۔ جب بھی کوئی حریت پسند محاصرے میں پھنستاہے تو وہ اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں چنانچہ فوج کو شہریوں کی مزاحمت کے باعث 13 مرتبہ ملٹری آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ عسکریت پسندی کےلئے عوامی حمایت ایک دہائی کے بعد پھر لوٹ آئی ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران پورے کشمیر میں پر تشدد واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے لیکن جنوبی کشمیرخاص طور پر تحریک مزاحمت کا مرکز بن چکا ہے۔
حریت کانفرنس جومزاحمتی تحریک کی رہنمائی کرتی ہے کے ساتھ مل کرہند مسئلہ کا پرامن حل تلاش کرنے کےلئے تیار نہیں۔ ہندکے اس طرزعمل کے نتیجے میںحریت کے اندر اعتدال پسند عناصر زیادہ تر غیر موثر ہوگئے اور سخت گیر لیڈر غالب آگئے۔ عسکری تنظیموں پر سے بھی حریت کانفرنس کا کنٹرول آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے اور انتہا پسند عناصرابھررہے ہیں جو تنازعہ کشمیر کی سیاسی جہت کو پس منظر میں ڈال کر اسے ایک مذہبی مسئلہ کے طورپر ابھارنا چاہتے ہیں۔
حزب المجاہدین کے ایک سابق کمانڈر ذاکر موسیٰ نے دعویٰ کیا کہ اسلام کے بغیر آزادی کےلئے جدوجہد بے معنی ہے۔سوشل میڈیا پر نوجوان کی ایک کثیر تعداد نے ان کے خیالات کی تائید کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی نسل انتہا پسندی کے خیالات سے تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔ 
جس طرح کشمیر کے معاملات کو ہندڈیل کررہاہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی حکمت عملی کو سرد خانہ میں ڈال کر فوج کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اب تاثر یہ ہے کہ عید کے بعد ہندوستان ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کرنے والا ہے۔ہندوستانی آرمی چیف نے کہا ہے کہ وہ مزاحمت کار گروہوں کو خاموش کرنے کےلئے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 
نئی دہلی میں، حکومت اور ذرائع ابلاغ‘ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیانہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آتے ہیں بلکہ میڈیا فوج اور سیاسی قیادت کو مزاحمت کاروں کےخلاف سخت کارروائی کرنے کےلئے اکساتا ہے۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ ایسے فوجیوں کی تعریف کرتے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
میجر نتن گوگوئی، جنہوں نے ایک کشمیری نوجوان کوجیپ سے باندھ کرقریہ قریہ گھمایا اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا‘ کو ایک ہیروقراردیا گیا حتیٰ کہ اسے فوج کی جانب سے ایک اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ ان اقدامات سے کشمیریوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں اور نئی دہلی میں شاید ہی کوئی ان کا ہمدرد ہو۔
پاکستان کشمیرمیں جاری احتجاجی تحریک پر نہ صرف شاداں وفرحاں ہے بلکہ اس کا تجزیہ ہے کہ ہند کا ہر اقدام اسے مزید دلدل میں دھکیلے گا اور کشمیریوں کی ناراضی میں اضافے کا سبب بننے گاچنانچہ پاکستان میں ایک مضبوط لابی کشمیر پر ہند کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے خلاف ہے۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کے ذریعے کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرتی ہے اور ہندوستانی جمہوریت کو شرم سار کرنے میں بھی مصروف ہے۔
پاکستان کی عسکری قیادت مسلسل کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔ گزشتہ6 مہینوں کے دوران آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے لائن آف کنٹرول کا 7 بار دورہ کیا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی۔ اس قدر تسلسل سے کسی بھی آرمی چیف نے آزادکشمیر کے دورے نہیں کیے اور نہ ہی کشمیر پر بیانات جاری کیے۔ 
ان تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی برادری نتازعہ کشمیر کے حل کےلئے دوطرفہ مذاکرات پر اصرار کرتی ہے۔ بیجنگ سے لے کر اقوام متحدہ تک دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کا مشورہ ہے کہ دونوں پڑوسی مل بیٹھ کر مسائل حل کریں۔ اس مشورہ کے باوجودہند اور پاکستان کے درمیان تمام رسمی یا غیر رسمی تعلقات اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
ٹریک ٹو ڈائیلاگ جو مذاکراتی عمل سے قبل سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘کب کے دم توڑ چکے ہیں کیونکہ دونوں ممالک ایسی سرگرمیوں کےلئے ویزے جاری کرنے سے انکاری ہیں۔ کراچی سے ممبئی کی پروازوں کو معطل کرنے سے عوامی رابطوں کو مزید کم کردیا گیا ہے۔ اب کنٹرول لائن کے ذریعے جاری تجارت بھی مشکلات سے دوچار ہے کیونکہ نئی دہلی میں حکام کو شک ہے کہ کشمیر میں تحریک کی حمایت کےلئے پاکستان اس راستے سے رقم بھجواتاہے۔
اس الجھے ہوئے منظر نامے میں کسی ایسی تدبیر کی ضرورت ہے جو حالات کے سدھار اور تنازعہ کے حل کی جانب پیش قدمی کا باعث بن سکے۔ اگرچہ پاکستان، ہند اور کشمیر میں ایک جذباتی فضا ہے اور کسی بھی قسم کے تازہ خیالات کی پزیرائی کے امکانات نہیں لیکن اس کے باوجود سوچ اور فکرپر تالے ڈالے رکھنا کوئی عقلمندی نہیں۔
دنیا کے کئی ایک تنازعات میں داخلی یا مقامی ثالثی کا تصور کامیابی سے لاگو کیا گیا۔ اندرونی ثالثی کے فارمولے کو تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کےلئے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ کم ازکم اس حوالے سے بحث ومباحثہ ضرورکیا جانا چاہیے۔ اس تصور کو اس وقت زبردست تقویت ملی جب ہند کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، قومی کمشنر برائے اقلیتی امور وجاہت حبیب اللہ، ایئر مارشل (ر) کپیل کاک، صحافی بھارت بھوشن، سی ڈی آر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سوشوبہ بروے، کانگریس کے رہنما منی شنکرایّر اور کمیونسٹ پارٹی کے وفود کے دورہ کشمیر کے بعد ان کے خیالات پڑھے۔
ان خواتین وحضرات نے کشمیر کے لوگوں کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ حکومت ہند سے مطابلہ کیا کہ وہ تنازعہ کے حل کےلئے کشمیریوں اورپاکستان سے مذاکرات کرے۔ یہ رپورٹیں کافی جرات مندانہ تھیں۔ ان کے مطالعہ سے یہ امید بندھی کہ اس خطے کے لوگ اپنے مسائل اور تنازعات کے حل کےلئے خود بھی پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ وہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں۔ 
ہند اور پاکستان کے ممتاز شہری ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دےکر جموں و کشمیر کے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کےلئے ایک پراسیس شروع کریں۔یہ ممتاز ہندوستانیوں اورپاکستانیوں کا ایک کنسورشیم بھی ہوسکتا ہے جو موجودہ سفارتی جمود کو توڑ کر دھیرے دھیرے کشمیری اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان رسمی بات چیت کےلئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے سکتاہے۔ مذاکرات کے دوران ثالثی کے ماہرین کی ایک معتبر ٹیم کو بھی مقرر کیا جا سکتا ہے جو اس عمل میں شریک ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی مدد کرے۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر میں تشدد کےلئے بڑھتی ہوئی عوامی حمایت ایک خطرناک رجحان ہے جس پرہند اور پاکستان کے باہمی اشتراک سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کےلئے سیاسی عمل کا آغاز بہت ضروری ہے۔ اگلے مرحلے میں خفیہ مذاکرات کا آغاز ہوسکتاہے جو کنٹرول لائن پراور وادی کےاندر کشمیری حریت پسندوں اور فوج کے مابین جنگ بندی کا اہتمام کرانے پہ منتج ہوں۔ 
یہ بھی پیش نظررہے کہ 2003 سے 2007 کے درمیان دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے ایک فریم ورک ڈیزائن کیا تھا، جو اب بھی نئی شروعات کےلئے بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ اگرہند اور پاکستان تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو تمام دیگر معاملات کے حل کےلئے راستہ کھل جائے گا۔اسکے نتیجے میں اگلے چند سالوں میں اس خطے میں خوشحالی کی ایک نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے۔ یہ تجویز ایک ابتدائی خیال ہے، اس پر بحث ومباحثہ کیا جاسکتاہے۔ اس خطے کو جنگ سے بچنے کےلئے نئے خیالات اور آئیڈیاز کی اشد ضرورت ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا: 
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اُڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں 
 ٭٭٭٭٭٭

شیئر: