Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لوڈ شیڈنگ:کتابیں’’ بریل‘‘ میں شائع کرنیکی تجویز

بجلی کے فائدے ان گنت ہیں لیکن اہلیانِ پاکستان کی قسمت میں بجلی جیسی نعمت کہاں
* * * *عنبرین فیض احمد۔ ریاض* * * *
کراچی جو کسی زمانے میں روشنیو ں کا شہر کہلاتا تھا آج اندھیروں میں ڈوب چکا ہے، باسیوں کی قسمت سو چکی ہے ۔ دن میں سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے تو رات حبس میں گزرتی ہے۔ انسان تو انسان چرند پرند تک سائے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں کی حالت قابل رحم ہوچکی ہے۔ آگ برستی گرمی نے نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگی کا خاتمہ تک کردیا ہے۔ یوں تو گھروں میں ایئر کنڈیشنر، پنکھے، کولر سب کچھ موجود ہیں لیکن بجلی کے بغیر یہ سب ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ سنتے تھے کہ بجلی وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بجلی کی آنکھ مچولی ے سب ہی عادی ہوچکے ہیں۔ اکثر بچوں کو تو بہانہ مل جاتا ہے اسکول کا کام نہ کرے کا اور کچھ بچے جو پڑھنے والے ہوتے ہیں وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک انتہائی ذہین مشورہ دیا ہے کہ درسی کتب ’’بریل‘‘ میں شائع کی جائیں پھر ہزار لوڈ شیڈنگ ہو، کم از کم پڑھائی کا حرج نہیں ہوگا۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جارہے ہیں یعنی واپس پتھر کے زمانے میں لوٹ رہے ہیں جب درختوں کے پتوں کو پنکھے کے طور پراستعمال کیا جاتا تھا ، جہاں چقماق سے آگ لگائی جاتی تھی۔
آج کے دور میں علی الصباح دفتر جانے والے لوگ رات بھر جاگ کر اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں کوئی چور یاڈاکو گھر میں نہ گھس آئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ انہیں دفاتر میں بھی سونے کا موقع نہیں مل پاتا کیونکہ وہاں بھی بجلی نہیں ہوتی۔ چارو ناچار دفتری کاموں میں مشغول ہو کر وہ اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ویسے عوام کافی ہوشیار ہوچکے ہیں ، جب بجلی آتی ہے تب بھی اسے استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ایسی بجلی کا کیا فائدہ جو چند لمحوں کیلئے مہمان بن کر آتی ہے۔ اب آہستہ آہستہ بغیر بجلی زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ دیکھا جائے تو بجلی کے فائدے ان گنت ہیں لیکن اہلیانِ پاکستان کی قسمت میں بجلی جیسی نعمت کہاں۔ دیکھاجائے تو بجلی نہ ہونے کے زیادہ فوائد ہیں جنہیں صاحبانِ اختیار ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ عوام میں صبر و شکر کی مشق بھی تو ہورہی ہے یعنی جب بجلی آتی ہے تو ہر ایک کی زبا ن سے شکر کے کلمات ادا ہوتے ہیں اور جب نہیں آتی توعوام صبر کرتے ہیں۔
کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دسترخوان پر کیا کچھ ہے، منہ میں نوالہ جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اچھا غلطی سے سالن اور کھیر ایک ہی پلیٹ میں ڈال لی گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماہ مبارک میں لوگوں کو اندھیرے اور گرمی کا شکار کر کے انہیں احساس دلایا جارہا ہے کہ مشقت کیا ہوتی ہے۔ ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر روزے پورے کرنے کا کیا فائدہ۔ ویسے ہمیشہ کیلئے بجلی نہ آئے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بجلی ہوگی نہ بل آئے گا۔ اس طرح مہنگائی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے بل ان کی تنخواہوں سے زیادہ آجاتے ہیں جو ان کا سکھ چین سب کچھ برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ خواتین، بچے، بوڑھے ، جوان سب ہی بجلی والوں کوبرا بھلا کہہ کہہ کر تھک چکے ہیں۔تمام تر صورتحال کے باوجود بجلی والے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جب عوام رات بھر جاگ کر کاٹتے ہیں تو یقینا وہ دن میں ہی سوئیں گے چنانچہ دفتر سے بھی چھٹی اور یوں کام سے بھی نجات، بس آرام ہی آرام۔ الغرض حکمرانوں نے ایسی قوم تشکیل دے دی ہے جو ہر حال میں خوش نظر آتی ہے خواہ مسائل ہوں یا وسائل، سب کچھ خود ہی کرنا اور خود ہی سہنا ہے۔

شیئر: