Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہو بیٹیو ں کو با زار جا نے کی ’’بے دریغ اجازت‘‘نہیں تھی

چوڑیوں کی کھنک سنائی دے رہی ہو تو احساس بیدار رہتا ہے کہ ملکہ اپنی سلطنت میں موجود ہے
* * * *تسنیم امجد۔ ریا ض* * * *
عید ،چاند رات ، مہندی اور چو ڑیا ں،ان کا چو لی دامن کا ساتھ ہے۔چاند رات اپنے اندر چا ند کا سا حسن سمیٹے ہو ئے ہے۔اکثر کوشش ہو تی ہے کہ عید سے پہلے پہلے سبھی کام سمیٹ سماٹ کر صرف اور صرف شیر خرما کی تیا ری پر بھر پور تو جہ دی جا ئے لیکن نہ جانے اس رات میں کو نسی مقنا طیسیت ہے کہ یہ کام سمیٹے نہیں سمٹتے۔اسی لئے تو شعراء نے شاعری میں انہیں سمیٹنے کی بھر پور کوشش کی ہے،کچھ آپ کی نذر ہے:
 دھنک رنگ چو ڑیا ں پہنے
 سجے ہو ں ہاتھ مہندی سے
لگا ئے آنکھ میں کا جل
ہمارے سامنے آ کر
 مبا رک عید کی تم دو
 ہماری عید ہو جا ئے
عید قریب آتی ہے تو نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’تصویرِ کائنات‘‘ کے رنگ نکھر آئے ہیں، ہرگھر میں گرہستنیں اپنی سلطنت کو رشکِ عالم بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیتی ہیں۔ وہ اپنے لئے مہندی، چوڑیاں، نئے ملبوسات،نئے جوتے، زیورات سب تیار کرنے میں مگن ہوجاتی ہیں، یوں گھر نامی چہار دیواری کے اندر ’’نسوانی احکامات‘‘ کا غلبہ ہوتا ہے ، فضا بھی عجب قسم کی ’’تانیث‘‘ سے معمور محسوس ہونے لگتی ہے ۔
کبھی چوڑیوں کی کھنک سنائی دیتی ہے تو کبھی پازیب کی جھنک۔ سچ پوچھیں توہر عورت کو شادی کے دن دلہن بنایاجاتا ہے جبکہ عیدین ایسے تہوار ہیں جن میں عورت خود دلہن بنتی ہے۔ ہماری والدہ کا فرمان تھا کہ مہندی اور چو ڑیو ں سے ہی عید ہو تی ہے۔ اس لئے کہ ہماری آپی جا ن چو ڑ یا ں پہننے سے گھبراتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو کلا ئی میں ایک گھڑ ی ہی بھا تی ہے۔جب تلک وہ بیا ہی نہیں گئیں، ہما رے گھر ہر عید پر یہی وا ویلا ہو تاتھالیکن اب وہ سب سے پہلے اپنی دونو ںکلا ئیا ں چو ڑیو ں سے بھر تی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مجھے میکے کے وہ دن بہت یاد آتے ہیں،میری ضد اور امی کی ڈانٹ۔آنسو تو تھمتے ہی نہیں۔امی بھی انہیں چن چن کر سیٹ بھیجتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہر بیٹی کو میکے سے آنے والی عید کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ کو ئی زیادہ دور کی با ت نہیں، ماضی قریب کا ہی احوال ہے جب گھر کے باہر گلی سے صداآتی تھی ’’ چوڑی والی ،چو ڑیا ں لے لو ،رنگ برنگی چو ڑیا ں‘‘ اور ہمارے کان اسی پر لگے رہتے تھے ۔جیسے ہی چوڑی والی آتی، اسے گھر میں بلالیا جاتا اور عید سے چند روز قبل ہی چوڑیوں سے کلائیا ں بھر لی جا تی تھیں۔تب با زار جا کر نا محرمو ں سے چو ڑ یا ں پہننے کا کو ئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔اگر چو ڑیو ں والی نہ آتی تو انہیں ملا زم بھیج کر بلوایا جا تاتھا ۔یہ سب ہماری روایات کا حصہ رہاہے ۔ ہمارے والد صاحب اکثر لڑ کیو ں کے لئے چو ڑیو ں کا تحفہ لاتے۔چوڑی کا سائز بڑا ہوتا تو بھی چا رو نا چار پہننی پڑتی ۔
اس سے ایک فائدہ تھا کہ ہمارے پاس ڈبے کے ڈبے چو ڑ یو ں سے بھرے رہتے تھے اور سبھی سہیلیاں ہمیں رشک سے دیکھتی تھیں۔دادی صدقے واری جا تیں۔اگر وہ ہماری امی کی کلا ئیا ں خا لی دیکھ لیتیں تو انہیں بے بھا ئو کی سنا تیں۔ اس لئے کہ وہ انہیں سہا گ کی علا مت قرار دیتی تھیں۔وہ کہا کرتی تھیں کہ گھر میں بہوئیں اپنے کا م کررہی ہوں اور ان کی کلائیوں میں پڑی چوڑیوں کی کھنک سنائی دے رہی ہو تو یہ احساس بیدار رہتا ہے کہ اس چہار دیواری کی ملکہ اپنی سلطنت میں موجود ہے ۔ یہ وہ دن تھے جب سادگی تھی ۔
بہو بیٹیو ں کوآج کی طرح با زار جا نے کی ’’بے دریغ اجازت‘‘نہیں تھی ۔مہندی اُن دنوں میں بھی خوب لگائی جاتی تھی۔ کون شون تو اُس دور میں نہیں ہوتی تھی نہ ہی کیمیکل والی مہندی کا رواج تھا۔ عام قدرتی مہندی بڑے سے کٹورے میں گھو ل کر رکھ دی جا تی تھی ۔ڈیزا ئنو ں کا تصور نہیں تھا۔ہتھیلی اور انگلیو ں کی پو رو ں پر ہی مہندی لگائی جاتی تھی۔ اگر ماچس کی تیلی یا با نس کے تنکو ں سے کو ئی ڈیز ا ئن بنا یا جا تا تواسے اتنا پسند نہیں کیاجاتا تھا ۔گھر والیا ں کام سے فا رغ ہو کر ہتھیلی پر مہندی رکھ کر مٹھیا ں بند کر لیتیں یوں خود ہی بندمٹھی کا ڈیزا ئن جسے مچھلی سے منسوب کیا جا تا تھا،بن جا تا۔
صبح تڑ کے اس کے رنگ پر غور ہوتا۔ڈیزائن خواہ کتنا ہی پھیل چکا ہوتا،یقین جا نئے اس مہندی کی خو شبو دل کو بھا تی تھی۔اس دور میں یہ بات معروف تھی کہ جس خاتون کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ گہرا چڑھتا ، اس کے بارے میں کہا جاتاتھاکہ اس کا شو ہر اس سے زیادہ محبت کرتاہے یعنی مہندی کی گہری رنگت، شوہر کی گہری محبت کی غمازی قرار دی جاتی تھی۔اسی لئے جس کے ہاتھوں پر مہندی کا رنگ گہرا ہوتا ، وہ اتراتی پھر تی اور اس کی سہیلیاں اسے حسرت سے تکتی تھیں حالانکہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، اس مفرو ضے کی کو ئی بنیا د نہیں تھی، یہ محض گمان تھا ۔ آجکل ما ئع مہندی کا رواج ہے۔گو کہ اس کا رنگ چو کھا چڑ ھتا ہے لیکن اس سے خو شبو کی بجا ئے کیمیکل کی بو آ رہی ہو تی ہے۔ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں اس ’’کیمیائی حنا‘‘ کا استعمال بھی خاصا فروغ پا چکا ہے ۔ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیا ں ہیں ۔وہ بضد ہیں کہ پا رلر سے مہندی لگوا ئیں گی ۔
سبھی سہیلیو ں نے مل کر پرو گرام بنا یا ہے۔اس طرح میرے سیکڑوں روپے اس مہندی پر اٹھ رہے ہیں۔کیا کرو ں، مجبور ہوں، یہ سب تو کر نا ہی پڑ ے گا ۔بیٹیو ں کی خوا ہش ٹا لی بھی نہیں جا سکتی۔اس خاتون کے شو ہر کسی فا ر میسی پر ملا زم ہیں۔ان حالات میں ہم ما ضی کو نعمت کہیں گے جب سا د گی کے باعث ذہنی سکو ن ہوا کرتا تھا۔ گھر وا لیا ں سال بھر تھو ڑا تھو ڑا بچا کر رکھتی تھیں تا کہ یہ روایتی مو اقع خوش اسلو بی سے گزر جا ئیں۔ عید کی نماز کے بعد ملنے ملانے والو ں کا آنا جا نا ، گلے ملنااور پھر باہم مل کر تفریحی پروگرام تر تیب دینا بہت اچھالگتا تھا ۔کم سے کم خرچے میں عید کی ساری خو شیا ں سمیٹ لی جا تی تھیں۔
آ ج ہم خوش ہیں کہ جدید رنگ میں رنگے گئے ،کسی سے پیچھے نہیں رہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔وقت محاسبے کا متقا ضی ہے۔ہم جن قو مو ں کی نقالی میں فخر محسوس کر رہے ہیں ،ان کی زندگیو ں کو قریب سے دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ ہم تقلید کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہا ں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ اپنے کھا نے پینے ،پہننے او ڑھنے پر کم سے کم خرچہ کرتے ہیں۔یقین نہیں آتا تو کبھی اپنی کسی فارنر سہیلی کے ساتھ سفر کا پرو گرام بنا لیجئے۔اس کے ہمراہ صرف ایک بیگ ہو گا جبکہ آپ ایک بڑا بکس، ہینڈ بیگ اور پرس کے ہمراہ ہانپتی نظر آئیں گی ۔ہم نے سو یو ں کی جگہ عید کیک کو دیدی لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس کا بو جھ کب تک برداشت کریں گے ۔
بناؤ سنگھار کے لئے ہم نے گھریلو ٹو ٹکو ں کی جگہ پا ر لروں کے چکر لگانے شروع کر دیئے اور خود اپنے لئے جنجا ل کھڑا کر لیاجبکہ وہا ں بھی چہرے کے نکھار کے لئے کھیرے ،ٹماٹر اوردہی پر مبنی تر کیبیں ہی آزمائی جا تی ہیں ۔خیر یہ ایک لمبی بحث ہے ،بہتر یہی ہے کہ ’’اولڈ اِز گولڈ‘‘کی کہاوت کو پلے با ندھ لیاجائے کیو نکہ:
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
 سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جا ؤ گے
ہم تحریروں کے ذریعے ان احساسات و جذ بات کوجگا نے کی کو شش کرتے ہیںجو ہماری پہچان ہیں۔ہم دین اسلام کے داعی ہیں جو ہمیں صراط مستقیم کی دعوت دیتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ رمضان کریم کی تربیت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ہمیں ہر کام اپنے رب کی خوشنودی کے لئے کرنا چاہئے ۔

شیئر: