Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان ، اتحاد ، تنظیم

مسائل کے حل کیلئے وزارت محنت و افرادی قوت نے اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے نام سے 1979ء میں ایک تنظیم قائم کی جس کا کام اب تک اپنے ہی مسائل حل کرنارہا ہے
* * * جاوید اقبال * * *
اسلام آباد کے اس فائیو اسٹار ہوٹل میں دئیے گئے ظہرانے نے مجھے کوئی 4دہائیاں قبل کے خوشبوئوں میں لپٹے شہر شیراز کی سرمگیں شام کی یاد دلا دی ۔ ظہرانہ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک کی طرف سے فائونڈیشن کی مشاورتی کونسل کے نومامور ارکان کیلئے تھا اور میزبان کے دلکش خطاب نے مجھے شیراز کی معطر نوروز میں جا کھڑا کیا ۔اپریل کا مہینہ تھا ، خیابانِ زند کے دونوں طرف پھولوں کی قبائیں رنگین ہو چکی تھیں ۔ شام کے جھٹپٹے مَیں اس شاہراہ پر کھڑا اسے عبور کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ عقب کی عمارت کے پیچھے سے ایک مانوس صدا کانوں میں پڑی ۔ کوئی میاں محمد بخش کی سیف الملوک گا رہا تھا ۔ اس دن عید مبارک ہو سی جس دن فیر ملاں گے ۔
میں واپس پلٹا اور اونچی عمارت کے گر د سے ہوتا عقب میں پہنچ گیا ۔ ایک 3منزلہ عمارت زیر تعمیر تھی ۔ آگے بڑھ کر نیم تاریکی میں دیکھا کوئی نصف درجن مزدور خاموش بیٹھے تھے اور ایک گا رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا ۔ میاں محمد بخش کا کلام تھا ،میں اندر چلا گیا ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا اور مغنی کو دوبارہ گانے کی درخواست کر دی ۔ دلکش آواز پھر تیرنے لگی ۔ ’’لوئی لوئی بھر لے کڑیے جے تد پہانڈا بھرنا‘‘۔سعدی و حافظ کے شیراز میں جشنِ نوروز کا آغاز ہونے کو تھا اور کلیوں اور پھولوں پر میاں محمد بخش اور بلھے شاہ کے کلام کی مہک چکر لگاتی رہی ۔ پھر جب مختصر محفل اختتام کو پہنچی تو تعارف ہوا ۔ گانے والا محمد حسین تھا اور گجرات کے نواحی قصبے کمالیہ کا تھا ۔
محنت مزدوری سے اپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا کہ گائوں کے ایک طاقتور فریق نے ایک قتل کر کے محمد حسین کو نامزد کر دیا ۔ 25سالہ محمد حسین بھاگا اور کوئٹہ پہنچا ۔ اطلاعات ملتی رہیں کہ اسکے اہلخانہ کو پولیس بہت تنگ کر رہی تھی اور انکی آواز کہیں نہیں سنی جا رہی تھی ۔ محمد حسین ایران میں داخل ہو گیا اور اب گزشتہ 5برس سے شیراز میں ایک ایران کی تعمیراتی کمپنی میں مزدور تھا ۔ ہر مہینے کے اواخر میں مشاہرہ ملتا تو بلاناغہ قریبی بینک میں جا کر گھر والوں کو رقم ارسال کر دیتا ۔ وطن میں بے سہارا تھا ، بے صدا تھا اور دیارِ غیر میں بیٹھا اپنا غم سرائیکی کافیوں اور پنجابی نظموں کے اشکوں میں چھپا رہا تھا ۔ اپنی بے گناہی کا پردیس شانوں پر سنبھالے پھرتا تھا ۔
بیرسٹر امجد ملک نے انتہائی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے مستقبل کے منصوبوں پر بات کی ۔ دیارِ غیر میں تو آج ہزاروں بے نوا محمد حسین تو بیٹھے ہوئے ہی ہیں، انکے علاوہ بھی ایسے لاکھوں ہیں جو اپنی شبانہ ورز مشقت سے وطن عزیز کا زرِ مبادلہ کا ذخیرہ بھرے رکھتے ہیں ۔ بیرون ملک اور خصوصاً برطانیہ کیلئے پاکستانیوںکی روانگی گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز میں ہونا شروع ہوئی تھی ۔
منگلا ڈیم کی تعمیر سے 2شہر میر پور اور ڈڈیال زیر آب آئے تو وہاں کی افرادی قوت کو ایوب حکومت نے ورک پرمٹ جاری کر کے برطانیہ بھجوایا ۔ اُن دنوں پاسپورٹ صرف کراچی میں بنتے تھے چنانچہ میرپور اور ڈڈیال کے ہزاروں باشندے ریل گاڑیوں پر سوار ہوکر کراچی پہنچ گئے ۔ جن کے پاسپورٹ نہ بن سکے وہ صرف ورک پرمٹ اور شناختی کاغذات دکھا کر لندن کیلئے بحری جہازوں میں سوار ہو گئے ۔ مانچسٹر کی کپڑے کی ملیں ان کی منتظر تھیں ۔ دن رات کام ہونے لگا اور پاکستان کیلئے ترسیلِ زر کا آغاز ہو گیا ۔ پھر ترک وطن کا اگلا دور 70کی دہائی کے آغاز میں آیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد کراتے ہی خلیجی ریاستوں کو پاکستانی افرادی قوت ارسال کرنا شروع کی ۔
’’ چلو دبئی‘‘ کا نعرہ لگا ۔ سعودی عرب کے صحرا میں سے نئے شہروں کے الماس ابھرنے لگے ۔ تارکین وطن دن رات جاگتے شہروں کے شور میں اپنے بدن توڑنے لگے لیکن اس بڑھتی تعداد کے ساتھ ہی ان ’’پردیسیوں ‘‘ کے اپنے وطن میں مسائل بڑھنے لگے ۔برطانیہ اور امریکہ میں مستقلاً مقیم ہوجانے والے پاکستانی تو میزبان حکومتوں کا سہارا ڈھونڈھ بیٹھے ۔ خلیجی ریاستوں میں آنیوالے نئے درتلاش نہ کر سکے ۔ انہیں اس حقیقت کا ہمیشہ احساس رہا ہے کہ بالآخر انہیں اپنی جائے پیدائش پر ہی آنا ہے ۔ ان کے وطن میں مسائل کے حل کیلئے وزارت محنت و افرادی قوت نے اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے نام سے 1979ء میں ایک تنظیم قائم کی جس کا کام اب تک اپنے ہی مسائل حل کرنارہا ہے ۔
اس ظہرانے کے دوران چند ایک تلخ سوالات بھی اٹھائے گئے ۔ ایک یہ تھا کہ کچھ عرصے پہلے برطانیہ میں کچھ بچے صرف وہاں پہنچنے کیلئے مختلف ولدیت اختیار کر گئے تھے جبکہ ان کے آبائی گائوں میں ریکارڈ میں ان کی اصلی ولدیت درج ہے ۔ اب انہیں جائیداد کی تقسیم کے بکھیڑے درپیش ہیں ۔ ولدیت کا قضیہ حل کرنے میں اوپی ایف کیا مدد کر سکتی ہے ؟ پھر ایک اور سوال تھا کہ 14سال کی عمر سے کم بچوں کا اندراج ان کے والدین کے کاغذات میں ہوتا ہے ۔ اگر وہ پاکستان اس عمر تک پہنچنے سے 3یا4ماہ قبل آتے ہیں تو واپسی پر انہیں نیا پاسپورٹ بنوانے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ او پی ایف یہ مسئلے حل کرے ۔ مملکت میں سابق پاکستانی سفیر منظور الحق کا سوال بڑا برمحل تھا ۔ انہوں نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ مملکت میں دورانِ کاروفات پانے والے یا زخمی ہونیوالے کارکنوں کے بقایاجات ان کے کفیل ادا کر دیں تو پھر اس رقم کو متوفی یا مجروح کے اقارب و لواحقین تک پہنچانے کیلئے گنجلک کاغذی کارروائی کرنا پڑتی ہے ۔ اس طریقہ کار کو آسان بنایا جائے ۔
ظہرانہ انتہائی کامیاب تھا لیکن اس سے بھی مثبت اور دلچسپ بیرسٹر امجد ملک کا خطاب تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ او پی ایف کی کارکردگی میں اب بہت مثبت پیشرفت ہو گی، اسلئے نہیں کہ ظہرانہ خوش ذائقہ تھا، اسلئے بھی نہیں کہ مشاورتی کونسل انتہائی مختصر اور تجربہ کار ارکان پر مشتمل ہے اور اس لئے بھی نہیں کہ ارکان میں اسناد تقسیم کی گئیں ۔ یہ سب تو تھا اور بہت اچھا تھا لیکن ایک عنصر بہت قابل ستائش تھا اور وہ یہ کہ مشاورتی کونسل کی سربراہی بیرسٹر امجد ملک کے پاس ہے ۔ اُس امجد ملک کے پاس جس نے بار ایٹ لاء لنکز ان سے کر رکھا ہے جہاں سے 1895ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بار ایٹ لاء کیا تھا ! ایمان ! اتحاد ! تنظیم !

شیئر: