Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور ریمنڈڈیوس کے اعترافات

ریمنڈ ڈیوس کی تحریری گواہی بھی آگئی ، جو کچھ اس کے فرار کیلئے بند وبست کیا گیا وہ غیر شر عی ، غیر اسلا می ، غیر آئینی اور غیر قانو نی تھا
* * * * سید شکیل احمد* * * *
اور بھی دکھ ہیں زما نے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
کتنی کھر ی بات فیض احمد فیض نے کہی تھی مگر کیا کیا جائے کہ قوم کی مسیحائی گیر ی کا ادعا کر نے والو ں نے اہم ترین مسائل کو درکنا ر کر کے جٹی کو پر دہ سیمیں نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پر دہ سیاہ کا مرکزی کر دار بنا دیا ہے۔ جے ٹی آئی حروف کو جوڑ کر جٹی بنا یا گیا ہے اور اب اس کا کر دار بھی جٹی کی طر ح کا ہو گیا ہے کیو نکہ وہ مر کزی توجہ بنی ہوئی ہے اور سب کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی ہے حالا نکہ ریمنڈ ڈیو س کے انکشافات نے ایک ایسا بھونچال پید ا کر دیا ہے کہ دنیا میں پاکستانی چہر ے شرمساری کا شکا ر ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس نے صرف ایک جما عت کا ذکر یو ں کیا ہے کہ وہ آخر وقت تک ا س کی رہائی کی مخالفت کر تی رہی اور اسی مہم جو ئی میں رہی۔
یہ بات درست ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے پاکستانیوں کے قاتل کیخلا ف مو ثر انداز میںآواز اٹھائی مگر وہ اس میں اکیلی نہیں تھی بلکہ 20کر وڑ عوام بھی اس آواز میں شامل تھے۔ صرف مٹھی بھر لو گوں میں تو جو ریمنڈ ڈیو س کو پا کستان سے فرار کر انے کی عجلت میں مبتلا تھے ، سرکا ری ادارے اور سیا سی شخصیات بھی شامل تھیں جن کا ذکر ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتا ب میں کیا ہے لیکن ا س کے علا وہ2 تنظیمیں اور بھی تھیں جو ریمنڈ ڈیو س کے فرار کے خلاف تھیں ۔ ان میں ایک ڈاکٹرعافیہ رہائی تحریک اور دوسری پا سبان تنظیم تھی جس کی سر براہی الطا ف شکور کررہے ہیں۔ انھو ں نے مقتولین کے خاندا ن سے کہا تھا کہ ان کو دیت کے نام پر جتنی رقم کی پیش کش کی جا ئے وہ ان کو بتادی جائے تاکہ اس رقم کا بندو بست وہ کردیںگے مگر ان کے سا تھ کوئی سمجھو تا نہ کیا جائے بلکہ امریکی شہری کو پاکستانی شہر یوں کے قتل کی سز ا ملنی چاہیے ۔
یہ کتنا ظلم ہے کہ پا کستان کے سرکار ی ادارو ں اور حکمر انو ں و سیا ستدانو ں نے جنہوں نے ریمنڈ ڈیو س کے پا کستان سے فرارکیلئے گھناؤنا ترین کر دار اداکیا ، ایک ایسے مجر م کو جس نے اعتراف جر م اس وقت بھی کیا تھا اور اب اپنی کتا ب میں بھی تحریر اًکیا ہے بچانے کیلئے مقتولین کے ورثاء کو انصاف دلا نے کے بجا ئے اسلا می قانو ن ، اخلا قیا ت ، آئین اور قانو ن کی دھجیا ں بکھر دیں ۔کیا عافیہ پا کستان کی بیٹی نہیں ؟ نو از شریف جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ 6ما ہ میں وہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکیو ں کے چنگل سے چھڑا لا ئیں گے، اس کا کیا ہوا؟ اب تو ڈاکٹر عافیہ کا نا م سنتے ہی ان کا سارا بدن کپکپانا شروع کر دیتا ہے اسی لئے کہنے والے یہی کہتے ہیں کہ ممتاز قادری کی آہ اور مظلو م بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی مظلو میت نے میا ں کے اقتدار کو گھیر ا ہے ۔بات تو سچ ہے ۔
بہر حال پو رے پا کستان کو جٹی کے جلو ؤں میںالجھا دیا گیا ہے اور اہم ترین معاملا ت سے اعراض برتا جارہا ہے اور اب تو ریمنڈ ڈیوس کی تحریری گواہی بھی سامنے آگئی ہے کہ جو کچھ اس کے فرار کیلئے بند وبست کیا گیا وہ غیر شر عی ، غیر اسلا می ، غیر آئینی اور غیر قانو نی اقدام تھا ۔جس طر ح امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا دی اسی طر ح کا یہ فعل قر ار پا تی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب ہو نا کیا چاہیے ۔ میا ں نو از شریف کے حامی فرماتے ہیںکہ جب ریمنڈ ڈیو س کے فرار کا بندوبست کیا گیا اس وقت نو از شریف پاکستان میں نہیں تھے بلکہ وہ لند ن میں عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور دل کا علا ج کر ارہے تھے۔
ان کی ایک شریا ن سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا ، بھائی شہبا ز شریف بھی بیما ر پر سی اور خدمت گزاری کیلئے لند ن گئے ہوئے تھے ۔ مقتولین کے وکیل اسد منظور بٹ کاکہنا ہے کہ جس دن دیت کا فیصلہ کیا گیا اُس رو ز ان کو نہ تو اپنے موکلّو ں سے ملنے دیا گیا اور نہ عدالت میں پیش ہو نے دیا بلکہ ان کو 4گھنٹے تک ایک اسسٹنٹ جیلر کی نگر انی میں جیل کے ایک کمر ے میں حبس بیجا میں رکھا گیا۔ جیل اور اس کا عملہ صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہوتاہے لہذاجب چھوٹے میا ں یہ فر ما تے ہیں کہ ان کی حکومت کا اس میں کوئی کر دار نہیں تو ان کے زیر کنٹرول محکمے کے عملے نہ یہ غیر قانو نی اقدام کس مجال سے کیا ۔ اسد منظور بٹ کی شکا یت پر کیا کا رروائی کی گئی ؟ اس کی تحقیق اور تفتیش کا اختیار تو میاں جی کے پا س اب بھی ہے اور تب بھی تھا ، قوم کو بتائیں کہ اپنے محکمو ں کی اس لا قانو نیت کا انھو ں نے کیا نو ٹس لیا ۔ اگر وہ اس مذمو م کھیل میں ملو ث نہ تھے تواب بھی وقت ہے کہ ریمنڈ ڈیو س کی کتا ب کی روشنی میں قدم بڑھا ئیں ۔ چیف جسٹس سے عوام کو توقع ہے کہ وہ پاکستان کی اس شرمساری اور بعض شخصیا ت و ادارو ں کی جانب سے آئینی ، قانو نی اور شرعی خلا ف ورزیو ں پر ازخود نو ٹس لے کر کا ررؤائی کر یں گے کیو نکہ مقتولین کے حقیقی ورثا ء کا بھی صیح طورپر تعین نہیں کیا گیا ۔
ریمنڈ ڈیوس کی تحریر یہ کہہ رہی ہے کہ دیت کا معاملہ ورثا ء کی آزادنہ مر ضی سے نہیںہو ا ۔ مدعیو ں کے وکیل اسد منظو ربٹ کا مو قف ہے کہ اسلا می قانو ن کی خلا ف ورزی اور توہین کر کے ریمنڈڈیوس کی رہائی میں کر دار ادا کرنے والو ں کے خلا ف مقدمہ چل سکتا ہے کیو نکہ انھو ں نے اپنے حلف کی خلا ف ورزی کی ہے ۔ان کے خلا ف آئین کے آرٹیکل 4، آرٹیکل نو اور آرٹیکل19 کے تحت مقدمہ چلا یا جانا چاہیے ، بقول اسد منظور ایڈوکیٹ ان کیخلاف انسداد دہشت گردی کے تحت بھی کا رروائی ہوسکتی ہے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بھی ۔ شہبازشریف ایک مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں ۔
پولیس ، صوبائی انتظامیہ ، محکمہ جیل خانہ جا ت وغیر ہ سب انکے ما تحت ہیں، انھی کے اختیا ر میں ہیں پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس میں شریک نہ تھے۔ اگر شریکِ کا رنہ تھے تو انھو ں نے ان کر داروں کیخلا ف کیا کا ررؤائی کی قوم کو بتائیں ۔ اسد منظور بٹ ایڈوکیٹ نے جیل انتظامیہ کے خلا ف ایک کیس دائر کیا تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ محکمہ قانو ں پنجا ب نے جج کو دباؤ میںلا کر یہ کیس چلنے نہیں دیا۔ یہ ایک بہت بڑا الزام ہے۔ میا ں صاحب کو چاہیے کہ اس امر کا نو ٹس لیں اور وہ بھی ایک جٹی اس الزا م کی روشنی میں بنا دیں کہ اسد منظور بٹ ایڈوکیٹ کے اس مقدمہ کا کیا حشر ہو ا اور کیو ں ہو ا، پاکستان کا مسئلہ صرف جٹی کے جلوئو ں کا ہی نہیں اور بھی دکھ اس کے سوا جن کا مدوا اب بھی زیادہ ضروری ہے ۔

شیئر: