Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن:: رات کے ہاتھ میں اب کو ئی دیا چاہتا ہے‘‘

ہمیں نادم ہونا چاہئے کہ70برس گزر گئے مگر ہماری بے چارگی جوں کی توں ہے،اب بھی وقت ہے خود احتسابی کا
* * * * *تسنیم امجد۔ریاض* * * * *
زندگی کی ترتیب نظم و ضبط کے بغیر بے معنی ہے ۔آج ہماری افراتفری کا سبب یہ ہے کہ ہم لالچ ،خود غر ضی، حسد اور دین اسلام سے دوری کا شکار ہو چکے ہیں۔قوا نین کا احترام کیو ں اور کیسے کیا جا تا ہے ،اب توشاید یہ سوچ بھی ہمیں احمقانہ لگنے لگی ہے ۔ مو با ئل فو ن ٹیکنا لو جی کا وطن عزیز میںاستعما ل بے دریغ انداز میں اس حد تک کیا جا نے لگا ہے کہ اس کے منفی پہلو ئو ں پر سو چنے کی بھی کو ئی ز حمت گوا را نہیں کر تا ۔فون کمپنیو ں کی جا نب سے پرو مو شنز نے بھی عوام کو مختلف علتو ں میں ڈال دیا ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا وجود اسمارٹ ہو یانہ ہو، اس کا فون اسمارٹ ہونا بے حد ضروری ہے ۔ اسمارٹ فون دورِ حاضر میں ہر کس و ناکس کا اوڑھنا بچھو نا بن چکا ہے۔
تجز یہ نگارو ں کا کہنا ہے کہ بد نظمی ،جمہو ریت کی مو ت ہے۔مو با ئل کا مثبت استعمال ایک نعمت ہے ۔ اماں کل ہی اس ٹیکنا لو جی کو دعا ئیں دے رہیں تھیںکہ اس نے میر ے تفکرات میں کمی کر دی۔ابا اور بیٹے گھر سے باہر اگر دیر لگا دیتے تھے تو میں دروا زے پر آ کھڑی ہو تی تھی اوردعائیں کرتی رہتی تھی۔ جب تک گھر نہ آتے ، پریشان رہتی تھی مگر ابایک بٹن دبا کر فون پر خیریت معلوم کر لیتی ہو ں ۔کبھی کبھی تو یہ تصویر کھینچ کر بھیج دیتے ہیں تاکہ مجھے تسلی ہو جا ئے۔ مو با ئل فو ن ٹیکنا لو جی کی دنیا میں بلا شبہ ایک کا ر آمد اضا فہ ہے اگر اس کو مثبت استعما ل میں لا یا جا ئے۔نسل نو کو کیا چاہئے گھر بیٹھے تیس روپے میں تین سو ایس ایم ایس فری یا ایک منٹ بات پر ایک گھنٹہ فری مل جا تا ہے۔
اسطرح بو ریت یا ما یو سیو ں سے پیچھا چھڑانا آسان ہو چکا ہے مگر یہ کیا کہ رات بھر ہیلو ہائے میں مصروف اور پھر دن چڑ ھے تک سوئے رہنا اس پر طرہ یہ کہ شکوہ کرنا وقت سے ۔ ما ضی کی طرف جھانکیں تو منشیات کی لعنت سے شکوہ تھا۔ نو جوان نشے میں اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا ئے ہو ئے تھے۔ آج اس میں کمی ہوئی توہمارے معمارانِ مستقبل کواسمارٹ فون کے نشے نے بربا دی کے گڑ ھے میں دھکیل دیا ہے۔سیلفی کا نشہ اسقدر جڑ پکڑ چکا ہے کہ پیچھا چھڑانا مشکل ہو رہا ہے۔ہر عمر کے لوگ جان کی با زی لگا نے کو تیار ہیں۔حال ہی میں خبر ملی تھی کہ ایک لڑ کی با لکنی سے گر کر بری طرح زخمی ہو گئی ۔دو نو ں ٹا نگو ں کی ہڈ یا ں ٹو ٹ گئیں۔اس کے ا متحان بھی ہو نے والے تھے۔
اس حادثے کی وجہ سے ا س کا سال بھی ضا ئع ہوگیا ۔آخر کیا ضرورت تھی کہ دیوار پر کھڑے ہو کر سیلفی بنا ئی جا ئے؟ اسی طرح بسو ں سے لٹک کر سیلفیا ں بنا نے والے بھی زندگی کی با زی ہا ر رہے ہیں۔ آج حیرت تو یہ ہے کہ دو وقت کی رو ٹی کا حصول مشکل ہے مگر اخلاق کی تبا ہی کے سامان انتہا ئی ارزا ں اور سہل ہیں۔سوجھ بوجھ کی تمام صلا حیتیں ان منفی کا مو ں میں ضا ئع ہو رہی ہیں۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ ملک کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے لیکن صاحبان اقتدار و اختیار کو کوئی فکر نہیں۔یہی وجہ ہے کہ محکمانہ کر پشن عروج پر ہے ۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ایک ایسے شخص کی لا پر وائی کی عکاس ہے جو خود قانون کا محافظ ہے۔کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر تی ہے،یہ حقیقت اس تصویر سے عیا ں ہے ۔ محکمہ پو لیس میں بھی ایسی مچھلیا ں موجود ہیں جنہوں نے اسے بد نا می کی گہرا ئیو ں تک پہنچادیا ہے تاہم کچھ ذمہ دار لوگ بھی مو جو د ہیں اس لئے ابھی تک ز ندگی رواں ہے۔
بد نظمی کی ذمہ دار حکومت اور اس کی پا لیسیا ں ہیں۔قانون اور اس کا دائرہ نفا ذ صرف فا ئلو ں کی حد تک ہے ورنہ ٹیکنا لو جی سے کسی کو شکا یت نہ ہو تی ۔ہم مغرب کی نقالی میں یہ نہیں سوچتے کہ وہاں یہ ٹیکنالوجی قانون کے دائرے میں رہ کر بر تی جا تی ہے ۔وطن میں مک مکا کا رواج زورو ں پر ہے کیو نکہ اس سے جیبیں گرم رہتی ہیں ۔افسوس سے یہ کہنا پڑ تا ہے کہ ہم تمام تر عقلی ،علمی اور سا ئنسی تر قی کے با و جود اشرف ا لمخلوقات ہو نے کا بھرم قائم رکھنے میں ناکام ہیں ۔صرف اس لئے کہ خود کو جدید دنیا کا باسی ثابت کر سکیں۔ہاتھ میں فون تھام کر اس سے الٹی سید ھی سیلفیا ں لیکراور قانون شکنی سے تو ہم جنگل کے باسی ہی کہلا ئیں گے ۔ صاحبان اختیار سے درخواست ہے کہ وہ جن مما لک میں سرمایہ رکھتے ہیں، سیر سپا ٹے کے لئے ملکی خزا نہ خالی کرتے ہیں،تھو ڑی فرصت نکال کر ان کے قانونی ڈ ھانچے پر بھی نظر ثانی کریں ۔وہاں ہر شے ایک ضابطے کے تحت ہے۔ہمارے عوام بیچارے ہر حال میں جینا سیکھ لیتے ہیں۔ آج بھی وہ اس یقین کے ساتھ جی رہے ہیں کہ کبھی تو اند ھیرا چھٹے گا ،بقول شاعر:
*رات کو ما ن لیا دل نے مقدر لیکن
*رات کے ہاتھ میں اب کو ئی دیا چا ہتا ہے
ہمارے ہا ں محکمانہ بھر تیا ں بھی قابلیت کی بجائے مک مکا کی بنیا د پر ہو نے لگی ہیں اسی لئے فرا ئض کی بجا آوری کا فقدان ہے جبکہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا نا رواداری و محبت کے زمرے میں آتا ہے۔تیسری دنیا میں سب کو ایک ہی لا ٹھی سے ہا نکنے کی ریت عام ہے جبکہ وطن ایک نظریاتی ملک ہے جس میں اختیارات و فرائض دین اسلام کے مطا بق استعمال کرنے کا وعدہ کیاگیاتھا ۔ہم نے وعدہ خلا فی کی ہے ۔اسی لئے آفات کا شکار ہیں۔کیالاشو ں کے انبار ہمیں جنجھو ڑنے کے لئے کا فی نہیں ؟ سیاسی جماعت ، عوام ،انتخاب۔اس مثلث کے مضبوط و شفاف ہو نے سے جمہو ریت اصل رنگ پکڑ تی ہے ۔ہما رے ہا ں تینو ں ہی شفاف نہیں اسی لئے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔پار لیمنٹ یعنی مجلس قانون ساز میں ہر پیسے والے کی بھرتی ممکن ہے۔
پا ر ٹی با زی عروج پر ہے اس ما حول میں با صلا حیت لوگ آگے آنے سے گھبراتے ہیں۔ وطن عزیز کا آئین گواہ ہے کہ یہا ں جمہو ری حکو مت ہے اور یہ فلا حی مملکت ہے۔اس لیبل کے تحت احتساب کا عمل بہتری کی جانب گا مزن رہتا ہے ۔اگر با اختیار طبقے کو آزاد چھو ڑ دیا جائے تو استعما ریت جنم لیتی ہے اور عوام انصاف کو تر ستے ہیں۔امن و سکون تباہ ہو جا تا ہے۔آج وقت متقا ضی ہے کہ عوام بیداری کا مظاہرہ کریں۔
میڈیا سے التماس ہے کہ وہ اس سلسلے میںعوام کی تر بیت کرے ۔اس سلسلے میں الیکٹرانک میڈیازیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے کیو نکہ عوام کی اکثریت اسی سے استفادہ کر سکتی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہر فرد کی جانب سے اپنے اپنے حصے کے فرائض گن گن کر ادا کئے جا ئیں پھر شکا یات کا ازالہ ممکن ہوسکے گا ۔ اجتماعی کا وشوں سے حالات پر قابو پانا آسان ہو گا۔ کسی بھی نظام کی خرا بی کو دور کرنے کے لئے کوئی جا دو کی چھڑی نہیں ہو تی کہ جسے گھماکر تمام خرابیاں دور کر دی جائیں۔اس کے لئے محنت اور خلوص درکار ہے ۔یکجہتی شرط اول ہے۔ ہمیں نادم ہونا چاہئے کہ70برس گزر گئے مگر ہماری بے چارگی جوں کی توں ہے۔ ہم س دلدل سے نہ نکل سکے۔اب بھی وقت ہے خود احتسابی کا ،اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچاننے کااورسچ کی راہ پر چل کر کامیابی کی منزل کو پہنچنے کا۔

شیئر: