Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوجوانوں کی ذمہ داریاں ، اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں

اسلام نوجوان کو والدین کا خدمت گزار، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے والے سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتا ہے
* * * * محمد عظیم قاسمی فیض آبادی۔ہند* * * *
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا تقدیرِ ملت کے ان ستاروں کی روشنی اور اس کی کرنیں اُس وقت تک آب وتاب اور پورے چمک دمک کے ساتھ برقرار رہتی ہیں، جب تک یہ عہد شباب کی منزلوں کے رہ گزر میں واقع کہکشاؤں کے مسافر ہوں۔ جس طرح آسمان کی بلندیوں پر تابندہ روشن ستاروں کی تابندگی ان کی ذاتی نہیں بلکہ سورج کی روشنی سے مستفاد ہوتی ہے بعینہٖ اسی طرح تقدیر ملت کے ان ستاروں کی روشنی بھی اس کی ذاتی نہیں ہوسکتی، اس کے لئے استفادئہ نور کا کوئی ’’منبع ومرکز‘‘ اگر ممکن ہے تو وہ نورِ نبوت اور مشکوٰۃ نبوی () ہوسکتا ہے ۔
یہی وہ چراغ اور سراج منیر ہے جس سے نورِ ہدایت پھوٹتے ہیں اور جس سے نورِ ہدایت اور جس کی دمکتی ہوئی روشنی میں صراط مستقیم کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ بحر ذخار ہے جس سے زندگی کی خشک وبنجر زمین کو سیراب کرکے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے ۔یہی مقام انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن کے لئے غازہ بہار ہے اور مایوس انسانیت کے لئے آس وامید کی کرن ہے اور فقط نبوت ہی ہے جس کے خورشید منور کی ضیاپاش کرنوں سے بزم انسانیت کی تاریکیوں اور ظلمتوں کا دور ختم ہوکر صبح سعادت کا آغاز ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒنے کہا تھا کہ: درفشانی نے تری قطروں کو دریا کردیا دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا جو نہ تھے خود راہ پر غیروں کے رہبر بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا نبوت کا یہ چراغ اپنی تمام تر روشنیوں کے ساتھ حیاتِ انسانی کے ہر شعبے میں اور ہر شعبے کی ہر جہت اور ہر ہر پہلو میں مینارئہ نور بن کر اسوئہ نبی اکرم کی شکل وصورت میں انسانوں کی صحیح رہنمائی کیلئے اپنے تمام تر برکات کے ساتھ موجود ہے۔
جو چاہے اور جب چاہے اس سے اپنی ہدایت ورہنمائی کا سامان فراہم کرسکتا ہے۔ ’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃٌ حسنۃ‘‘(الاحزاب21) کہہ کر اللہ رب العزت نے کامیابی وکامرانی کے متلاشی ساری دنیا کے انسانوں کو خبر دے دی کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی منبع البرکات ذات بہترین نمونہ ہے اس لئے ہدایت کے خواستگار کو چاہئے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت وسکون، نشست و برخاست، سیادت و قیادت، امارت وحکومت ،اخلاق و کردار، معاشرت، معیشت و تجارت، صبر وقناعت، زہد وعبادت، مروت و شجاعت بلکہ ہرہر عمل کے اندر کامیابی وکامرانی کے لئے نبی اکرمکے طور طریق کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھیں۔
کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت نے نبی کے طور طریق بطور اسوہ اپناکر ہر میدان میں فتح مندی کا وہ پرچم لہرایاکہ دنیا جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اسی لئے سرورکائناتکے طرز حیات کے مقابلے میں دنیا کی کوئی تہذیب وتمدن ،کوئی ثقافت ومعاشرت ان کی آنکھوں کو خیرہ اور دلوں کو فریفتہ نہ کرسکی۔ تقدیر ملت کے ستاروں کی روشنی اُس وقت تک ماند نہیں پڑسکتی جب تک اس ملت کے ہاتھوں میں ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کی مشعل اپنے پورے استحکام کے ساتھ باقی رہے گی۔ ملت کے افراد کو اسوئہ نبوی سے کیا ضابطے اور حیاتِ انسانی کے کیا کیا اصول ملتے ہیں ،وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو نبی کریم کی حیات طیبہ کی روشنی میں ملت کے ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے افراد، یعنی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے جس پر چل کر چین وسکون کا غلبہ ہو اور پورا مسلم معاشرہ بلکہ پوری دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ملت کے نوجوانوں کی حیثیت کیا ہے۔ دراصل نوجوانانِ ملت کی مختلف حیثیتیں ہیں اور مختلف حیثیت سے مختلف حالات میں اس کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ ہم اس وقت حالات وواقعات کے پیش نظر چند حیثیتوں کی تعیین کرکے تعلیمات نبوی() اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ہر ایک کو الگ الگ تحریر کرتے ہیں کہ کس حیثیت سے نوجوان کے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
(1) نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے۔
(2) نوجوان اہل قرابت و رشتہ داروں کے ایک فرد کی حیثیت سے۔
(3) نوجوان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے۔
(4) نوجوان ملک کے ایک فرد کی حیثیت سے۔
(5) نوجوان اپنے ذاتی کردار کی حیثیت سے۔
(6) نوجوان اپنے جذبات کی حیثیت سے۔
اگر نوجوانانِ ملت اپنی حیثیت کو شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں سمجھیں اور اس پر عمل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے اور گھر، خاندان، اور معاشرہ چین وسکون اور امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ کسی شاعر نے بڑے ہی درد کے ساتھ کہا ہے کہ: اگر ہم اپنی روش بدل کر رہِ ہدایت پہ ہوں روانہ خدائی نصرت بھی ساتھ ہوگی، مٹے گا یہ دور جابرانہ نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے: نوجوان اپنے والدین کا لاڈلا ،ان کی امیدوں و آرزوؤں کا مرکز، ان کی تمناؤں کا مظہر اور ان کی ضعیفی کا سہارا اور بڑھاپے کی لاٹھی ہوتا ہے۔
اسلام نے والدین کے حقوق کی رعایت اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید کی ہے۔ والدین کی اہمیت اور ان کی عظمت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم نے توحید جیسے بنیادی عقیدے کا تذکرہ کیا ، اسی کے ساتھ ساتھ فوراً والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان سے مخاطب کے وقت لہجے کی نرمی اور ان کے سامنے عاجزی ونیازمندی اور ان کے لئے دعاوغیرہ کے اہتمام کا حکم دیا ۔سورئہ بنی اسرائیل میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف بھی نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہنا اور ان کے لئے یوں دعا کرتے رہنا: اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘(بنی اسرائیل24,23)۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ رب العزت نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عبادت کے ساتھ ملاکر واجب فرمایا، جیسا کہ سورہ لقمان،آیت14 میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملاکر لازم فرمایا:میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔ یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے : رسول اللہسے ایک شخص نے سوال کیا کہ :اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا : ’’نماز کو اپنے (مستحب) وقت میں (پڑھنا) ۔‘‘ اس نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’والدین کے ساتھ اچھا سلوک ۔‘‘(بخاری کتاب الادب)۔ ابن ماجہ شریف میں حضرت ابوامامہ ؓ کی روایت ہے:ایک شخص نے رسول اللہسے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں ہی تیری جنت اور دوزخ ہیں۔
مطلب یہ ہے ان کی اطاعت وخدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کی بے ادبی و ناراضگی اور نافرمانی و ایذارسانی دوزخ میں لے جاتی ہے۔ جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے، رسول اللہ نے فرمایا : ’’اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہونے کیلئے والد کی رضا جوئی شرط ہے، والد کی ناراضگی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضی ہے لہٰذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا ،وہ رضائے الٰہی کی دولت سے محروم رہے گا۔ اس حدیث میںاگرچہ والد کا لفظ آیا ہے لیکن ماں کا حکم بھی وہی بلکہ اس سلسلے میں ماں کا درجہ باپ سے بھی زیادہ بڑھا ہوا ہے جیساکہ دوسری احادیث میں موجود ہے اس لئے ماں کی خوشی وناراضگی کا بھی وہی حکم ہے۔ بیہقی نے بروایت حضرت ابن عباس نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو خدمت گزار بیٹا اپنے والدین پر رحمت وشفقت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حجِ مقبول کا ثواب ملتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں100مرتبہ ان پر نظر کرے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں 100مرتبہ بھی (ہر نظر پر ثواب ملتا رہے گا)۔
والدین کی وفات کے بعد ان کے حقوق: والدین کے حقوق کا سلسلہ ان کی حین حیات میں ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے اوپر کچھ اور حقوق عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی نیک بخت اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضاورحمت کا وسیلہ ہے۔ حضرت ابواْسید ساعدی ؓ کی روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے والدین کا مجھ پر کچھ ایسا بھی حق ہے جو ان کی وفات کے بعد مجھے ادا کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! ان کیلئے خیر ورحمت کی دعا کرنا، ان کیلئے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا اور اگر کسی سے ان کا کوئی عہد ومعاہدہ ہوتو اس کو پورا کرنا ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں، ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور انکے دوستوں کا احترام کرنا۔‘‘ (ابوداؤد وابن ماجہ)۔
جس طرح زندگی میں والدین کی اطاعت وخدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہیں جو بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اسی طرح ان کی وفات کے بعد ان کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا ایساعمل ہے جو ایک طرف والدین کے لئے قبر میں راحت وسکون کا وسیلہ بنتا ہے تو دوسری طرف اولاد کے ان قصور وکمی کی تلافی کا ذریعہ ہے جو والدین کی خدمت میں ان سے ہوئی اور وہ خود رحمت باری کی مستحق ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم نے اولاد کو بڑے اہتمام اور بڑی تاکید کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اللہ سے والدین کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا مانگا کریں: رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَارَبَّیَانِی صَغِیْرًا ۔ ’’(اور اللہ سے یوں عرض کرکہ)اے میرے پروردگار! میرے والدین پر رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے بچپنے میں (شفقت) کے ساتھ پالا تھا۔‘‘ (بنی اسرائیل24)۔
غرض والدین کی خدمت واطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک نوجوانوں کی وہ ذمہ داریاں ہیں جن کی سرکار دوعالم کی تعلیمات اور آپ کی سیرت طیبہ نے بڑی تاکید کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اسلام نوجوانوں کو والدین کا خدمت گار، مطیع وفرمانبردار، ان کی ضروریات کا خیال اور راحت رسانی کی فکر کرنے والا، ان کی کسی طرح کی ناگواری سے اجتناب کرنے والا ،ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ پیش آنے والا اور ان کے ساتھ ادب و نرمی کا معاملہ کرنے والا نیک، صالح وسعادت مند بیٹے کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتا ہے، جو معاشرے کا سب سے اہم عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ افراد، گھر، خاندان، محلہ اور معاشرے کے امن وامان اور چین وسکون کا باعث بھی ہے۔

شیئر: