Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب ہر پاکستانی کا دوسرا گھر ہے، راشد محمود بٹ

جب پہلی مرتبہ بیت اللہ کا فرش تبدیل کیا جا رہا تھاتو مجھے کھجور کے تنے ہٹانے کا ٹاسک دیا گیا، میں نے یہ کام4 دن میں سرانجام دیا

 
 
راشد محمود بٹ ایک سادہ اور حلیم طبع انسان ہیں ۔ ریاض کمیونٹی میں ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ ان کا کردار ہمیشہ متاثر کن رہا ہے ۔ ریاض کمیونٹی میں ہم آہنگی میں ان کا بھی نمایاں کردار رہا ہے ۔ان کا تعلق گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے علاقے وڈالہ سندھواں سے ہے جہاں ان کا خاندان بھرپور سیاسی کردارادا کر رہا ہے ۔اردو نیوز کے نمائندہ خصوصی ذکاء اللہ محسن نے ان کا انٹرویو کیا :
 
*  راشد محمود بٹ ، اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق کچھ بتائیں؟ 
۔  ہمارا خاندان شروع سے ہی علاقائی سیاست کا حصہ رہا ہے ۔ میرے والد 1947 میں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں بطور اسٹوڈنٹ لیڈر تحریک آزادی کا حصہ رہے اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کروانے میں پیش پیش رہے ۔ قیام پاکستان کے بعد والدصاحب اور دادا جان نے بزنس شروع کیا اور سیاسی لحاظ سے بھی کردار ادا کرتے رہے ۔ پہلے بی ڈی الیکشن میں والد صاحب وائس چیئرمین منتخب ہوئے اور پھر عشرہ وزکوٰۃ کمیٹی کے 3 مرتبہ بلامقابلہ صدر بھی منتخب ہوئے ۔ میرے چچا محمد صفدر بٹ3مرتبہ یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی شاہد محمود بٹ بھی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ۔ 
 
*  آپ سعودی عرب کب آئے اور کس پیشے سے منسلک ہوئے ؟  
۔  1982 ء میں سعودی عرب آیا اورمقامی کمپنی میں بطور پروجیکٹ انجینیئر میکینکل کام شروع کیا ۔ یہ ایگریمنٹ ایک سال کا تھا مگر آج31سال ہونے کو ہیں مجھے اپنے کام پر فخر ہے اور میں نے الحمدللہ اپنی ملازمت کے دوران بے شمار پاور اسٹیشن اور گرڈاسٹیشن کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔میرے لئے یہ کام بھی قابل فخر ہے کہ میں نے حرم مکی کے پروجیکٹ میں بھی کام کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ 1983 میں پہلی مرتبہ جب بیت اللہ کا فرش تبدیل کیا جا رہا تھا تو بن لادن کمپنی کی جانب سے مجھے بیت اللہ کے اندر پرانے کھجور کے تنوں جو ستونوں کا کام دے رہے تھے، کو اوپر اٹھانے کا ٹاسک دیا گیا ۔ میں نے یہ کام4 روز میں بیت اللہ کے اندر بیٹھ کر سرانجام دیا جس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ عظیم سعادت بخشی ۔اس کے علاوہ زمزم پلانٹ پر بھی کام کرکے مجھے دلی خوشی اور راحت نصیب ہوئی ۔گزشتہ 16سال سے میں ایک اسٹیل فیکٹری کو بطور ڈویژن منیجر چلا رہا ہوں ۔ یہاں بھی الیکٹریکل پاور پلانٹ بنانے کے کام سے منسلک ہوں ۔ 
 
*  سیاست سے کیسے لگاؤ ہوا؟  
۔  ایک تو میرے سیاسی گھرانے کی مناسبت سے اور دوسرا جب سعودی عرب میں سیاسی پارٹیوں کے افراد سے تعلقات بنے تو اس کے ساتھ ہی میری باقاعدہ سیاست کا آغاز ہو گیا ۔ میں اس وقت مسلم لیگ ن کا سینیئر نائب صدر ہوں اور بزم اقبال کا پیٹرن انچیف بھی ہوں ۔
 
*  آپ چند ماہ قبل ہی اوورسیرز پنجاب ایڈوائزری کونسل کے ممبر بھی منتخب ہوئے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟  
۔  الحمدللہ پارٹی نے جس طرح ہماری خدمات کو سراہتے ہوئے ہمیں اعزاز بخشا ہے ،میں اپنے قائد وزیراعظم محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اور مڈل ایسٹ کے آرگنائزر نورالحسن تنویر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے سعودی عرب میں اپنے ہموطنوں کی بہتر خدمت کرنے موقع دیا ہے کیونکہ یہاں پر پاکستانی ورکرز چونکہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ، اس لئے ان کو چھوٹے بڑے مسائل کا سامنا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ بنیادی قسم کے مسائل ہیں جن کے حل کے لئے ان کی سفارشات حکومت پنجاب کو بھجوائی جا رہی ہیں تاکہ ان کا بہتر حل نکالا جا سکے ۔ 
 
*  بٹ صاحب! آپ ہمیشہ ہر ایونٹ کو رونق بخشتے ہیں، کیسا لگتا ہے؟
۔  بھئی عوامی آدمی ہوں، اس لئے یقینی طور پر اچھا لگتا ہے اور پھر دیار غیر میں جس طرح پاکستانی کمیونٹی مختلف تقریبات کا انعقاد کرتی ہے ،اس میں شرکت کرکے دلی سکون اور راحت ملتی ہے ۔ اپنے لوگوں سے میل ملاپ ہو جاتا ہے اور مختلف مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بات چیت ہو جاتی ہے ۔ آپس میں ملکر دکھ سکھ اور سیاست پر خوب بحث و مباحثہ ہو جاتا ہے ۔ اس سے بہتری نکلتی ہے اور ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ اہل ریاض گلدستے کی مانند ہیں جو الگ الگ سیاسی، سماجی ، ادبی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں ۔ جب ہم سبھی اکٹھا ہوتے ہیں تو اس سے ایک یگانگت اور باہمی بھائی چارے کی فضا جنم لیتی ہے ۔ ہمارے سیاسی نظریات الگ الگ ضرور ہیں مگر ہم پوری دنیا کے لئے مثال ضرور ہیں کہ ہم سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود تمام تر تقریبات میں اکٹھا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ۔ 
 
*  جس طرح آپ کے والدین نے آپ کو پڑھایا، کیا آپ بھی اپنے بچوں کو اسی طرح توجہ دے پائے ہیں؟  
۔  جی بالکل، الحمداللہ میں اللہ کے کرم سے اس میں کامیاب رہا ہوں ۔ اللہ نے مجھے ایک بیٹی اور3 بیٹوں سے نوازا ہے ۔ بیٹی اقراء راشد آرمی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرکے ڈاکٹر بن چکی ہے ۔ متین محمود بٹ ایم بی اے کے بعد زیر تعمیر فلور مل کو دیکھ رہا ہے جس کا آغاز بہت جلد ہو جائے گا ۔دوسرا بیٹا حافظ معین بٹ ہے جو الیکٹریکل انجینیئر مکمل کر چکا ہے اور تیسرا بیٹا جنید بٹ زیر تعلیم ہے ۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بچے جتنا پڑھ سکتے ہیں، وہ پڑھیں کیونکہ تعلیم زندگی گزارنے کیلئے بہت ضروری ہے ۔ اس سے ایک شعور بھی بیدار ہوتا ہے اور ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے اس لئے میں اپنے دوستوں اور اپنے گاؤں کے لوگوں کو تجویز کرتا ہوں کہ جب تک آپ اور آپ کی نسلیں تعلیم حاصل نہیں کریں گی، تب تک نہ تو آپ کا معیار زندگی بہتر ہو سکتا ہے اور نہ ہی آپ ایک اچھے انسان بن سکتے ہیں ۔
 
*  سعودی عرب کو کیسا پایا ؟ 
۔  سعودی عرب صرف میرا ہی نہیں تمام پاکستانیوں کا دوسرا گھر ہے ۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ تمام پاکستانی جس طرح حرمین شریفین سے عقیدت رکھتے ہیں اور اپنے سعودی بھائیوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنائیت کا رشتہ رکھتے ہیں، اس سے سعودی عرب اور اس کے عوام کا مقام بہت بلند ہو جاتا ہے ۔ یہاں کئی دہائیوں سے پاکستانی آباد ہیں ۔ آپ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ چلے جائیں تو آپ کو ہر طرف پاکستانی نظر آئیں گے ۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں نے جس طرح یہاں ڈیولپمنٹ میں حصہ لیا ہے ،وہ قابل تحسین ہے جس کا اعتراف سعودی گورنمنٹ بھی کئی مرتبہ کر چکی ہے ۔ سعودی حکومت کی جانب سے ہمیشہ ہماری عزت اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس پر ہم اس کے مشکور ہیں۔ 
 
*  اردو نیوز کی خدمات کے حوالے سے کیا کہیں گے ؟ 
۔  اردو نیوز ہمارا اپنا اخبار ہے جو ہماری قومی زبان میں شائع ہوتا ہے ۔ میں سال ہا سال سے اس کو پڑھ رہا ہوں اور جس طرح یہ پاکستانی کمیونٹی کی تقریبات کو جگہ دے رہا ہے، اس سے نمایاں بہتری آئی ہے ۔ پاکستانی کمیونٹی کی سرگرمیاں اب محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی جہاں کہیں پاکستانی موجود ہیں وہ اس سے مستفید ہوتے ہیں ۔ جس طرح اردو نیوز نے ویب سائٹ کا آغاز کیا ہے، اس سے لمحہ بہ لمحہ با خبر رہنے کا موقع بھی مل رہا ہے ۔ میں بطور پاکستانی آپ کا اور اردو نیوز کی پوری انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
میرا پیغام یہی ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ،اس وقت پاکستان مختلف بحرانوں کا شکار ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سیاسی اور دیگر اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھیں اور اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کریں ۔
 

شیئر: