Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے خلاف سازش؟

* * * * سید شکیل احمد * * * * *
پانامہ لیکس کا جب سے شوشہ اٹھا ہے تب سے بعض حلقے یہ خدشات ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کے خلا ف بیر ونی سازش کار فرما ہے ۔اس بارے میں طرح طرح کی بولیا ں بولی جا رہی ہیں تاہم یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کبھی سول حکومت مستحکم ہوئی ہے، اس کے پاؤں اکھا ڑنے کی مساعی کی گئی ۔ اس بارے میں نہ صرف منتخب حکومت کو ختم کرنے کی سازشیں کی گئیں بلکہ آئین کو بھی ہلا دینے کیلئے ا یڑی چوٹی کا زور لگا یاگیا ۔پاکستان میں غیر ملکی اثر رسوخ تب ہی بڑھاہے جب غیر منتخب حکومتیں قائم ہوئیں یا پھر صدارتی نظام نافذکیا گیا ۔ یہ سلسلہ تقریبا ً سابق صدر سکند ر مر زا کے دور سے جا ری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض بیر ونی طا قتیں چاہتی ہیںکہ پاکستان ایک لا دینی ریاست بنے اور وہا ں پارلیمنٹ کو بالا دستی قطعی طور پر حاصل نہ ہو کیو نکہ پارلیمنٹ کی مو جو دگی میںان طاقتو ں کے جن میں امریکہ پیش پیش ہے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ۔ مختصر سی بات ہے کہ صدارتی نظام ان کو اپنے مقاصد کیلئے سو د مند نظر آتاہے جہا ں پارلیمنٹ کے بجا ئے صدر مختا رِ کل ہو تا ہے ۔ پا کستان کی پہلی قانو ن ساز اسمبلی کو اسی سازش کے تحت تو ڑا گیا تھا اور فیڈرل کو رٹ کے جج جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت اسی بنیا د پر اختراع کیا تھا جس کے بعد صدراتی نظام کی راہ ہمو ار کی گئی اور ایو ب خان نے صدراتی نظام قائم کر کے ایک شخصی حکومت قائم کی ۔ پاکستان میں حکومت، نو کر شاہی اور عدلیہ کی تثلیث نے ابتداء ہی میں صدارتی نظام کیلئے اتحاد بنائے رکھا۔ 1955ء کی راولپنڈی سازش اس سلسلے کی کڑی تھی جو بعد ازاں ایو ب خان کے ہاتھوں کا میا ب ہوئی اور ملک میں بی ڈی نظام کے نا م سے پا رلیمنٹ کی بالا دستی کی بجا ئے شخصی بالادستی صدارتی نظام کی صورت میںقائم کی گئی ۔ ایو ب خان نے اپنے صدارتی نظام کو اسلامی نظام قرار دیکر نافذ کیا ۔ اس بارے میں وسیع پروپیگنڈہ بھی کیا جا تا رہا ۔
اسی زمانے میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ پا کستان تشریف لائیں تو انھو ں نے بھی اس کو اسلا می نظام قرا ر دیکر بے حد پسند گی کا اظہا ر کیا ۔ اگر جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ ملک میں 1973ء تک ایک متفقہ آئین اس لئے نہیں بن سکا کہ سیا سی استحکا م نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سیاسی افر اتفری میں غیر ملکی قوتیں ملو ث تھیں تاکہ پاکستان کو ایسا آئین نہ مل جا ئے جس میں شخصی حکومت کی بجا ئے پا رلیمنٹ کے اختیا رات ہو ں ، چنا نچہ ایو ب خان کی حکومت کو مستحکم کر نے میں اِن غیر ملکی طا قتو ں نے اپنا بھر پو ر کر دار ادا کیا ۔پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ بھٹو اور اس زمانے کی حزب اختلا ف کی جما عتوں نے مل کر ایک اسلا می ، پا رلیمانی جمہو ری اصولوں پر اتفاق رائے کر کے متفقہ آئین ملک کو دیا ۔ اس میں پختونخوا کی اس وقت کی صوبائی اسمبلی کا بھی اہم کر دار تھا۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت سرحد اسمبلی(موجو دہ کے پی کے ) نے ایک قرار داد منظور کی تھی۔ اس وقت صوبے میں مفتی محمو د کی سربراہی میں جمعیت العلمائے اسلا م اور نیشنل عوامی پارٹی کی مشترکہ حکومت قائم تھی ۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ قرار داد جما عت اسلا می کے رکن اسمبلی ڈاکٹر یعقوب خان نے پیش کی تھی جس میں وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ملک کے لیے اسلامی ، جمہو ری اور پارلیمانی آئین تشکیل دیا جائے یہ قرا رداد اسمبلی نے منظور کی جس کے افتتاحی اجلا س کے مو قع پر دنیا بھر سے اخباری نمائند ے اس آس میں اجلا س کی کا رروائی دیکھنے آئے تھے کہ اسمبلی کے پہلے اجلا س میں نیشنل عوامی پا رٹی جو تشکیل پاکستان کی مخالف تھی وہ پاکستان سے علیحد گی کا اعلان کر دے گی ۔غیر ملکی صحافیو ں کی اتنی بھیڑ تھی کہ پر یس گیلری میں مقامی صحافیو ں کے لیے جگہ ہی نہیں بچی تھی جبکہ مہما نوں کی گیلری بھی صحافیو ں سے بھری ہو ئی تھی۔جب پہلے دن کی کا رروائی خوش اسلو بی سے گزر گئی تو ان غیر ملکی صحافیوں کے چہر ے اتر ے ہوئے تھے اور ان کی امید و ں پر اوس پڑ چکی تھی مگر پھر بھی یہ3 دن تک اسمبلی کے ارد گرد منڈلا تے رہے ۔ متفقہ آئین بن جا نے کے با وجو د اسے بکھیرنے کی غرض سے اس میںبعض اوقات ترمیم لانے اور کبھی یہ پر وپیگنڈہ کر نے کی پھلجھڑی چھوڑی جا تی ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہے ا سلئے نظام بدلنے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کا موجودہ آئین جو دراصل 1973ء کے آئین کی بگڑی سنوری صورت ہے بہترین جمہو ری ، پا رلیمانی اور اسلامی آئین ہے۔ اسکے ساتھ چھیڑ چھا ڑ پاکستان کے استحکام سے چھیڑ چھاڑ ہو گی ۔ جہا ں تک یہ سوال رہا کہ بہترین جمہو ری پارلیمانی اور اسلا می آئین ہونے کے باوجو د تینوں نکات کا سقم کیو ںپا یا جا تا ہے تو وہ نیتو ںکی بات ہے جیسا کہ پا رلیمانی نظام اورپاکستا ن کے آئین کے تحت وزیر اعظم بااختیا ر ہوتا ہے مگر پی پی کے گزشتہ دور میں وزیر اعظم کے بجا ئے اختیا ر کا منبع صدر رہا کیو نکہ آصف زرداری کاشخصی کردار موجو د تھا۔
اب وہی آئین ہے، ویسی پارلیمنٹ ہے مگر کلی اختیا ر وزیر اعظم اپنے ہا تھ میںلے رکھے ہیں۔ ان تما م واقعات سے یہ ثابت ہو ا ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطا بق بھٹو کے دور سے اب تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ امریکہ چاہتاہے کہ پاکستان کو بھی بنگلہ دیش کی طر ح بنا کر اس کی ڈور ہندکے ہا تھ میں پکڑ ادی جائے جس طرح جنو بی ایشیا میں دیگر ممالک پر ہندوستانی بالا دستی قائم کی گئی ہے۔صدرتی نظام کا المیہ یہ ہے کہ اس میں شخصی حکومت کا اثر نما یا ں رہتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں اس کا کا فی تجر بہ رہا ہے ، لیکن حیر ت ہے کہ بعض قابل احتر ام شخصیات کی جانب سے اکثر وبیشتر صدارتی نظام کی بات اٹھتی ہے ، مثلاً ًجب جنرل (ر) اسلم بیگ نے سیا ست میں قدم رکھا تو انھو ں نے بھی صدارتی نظام کی خواہش کی، بعد ازاں جب محسن پا کستا ن ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنی سیا سی جماعت بنائی تو انھو ں نے بھی اسی نظام کی حما یت کی۔ اسکے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے میدان سیاست میںقدم رکھا تو انھو ں نے بھی صدارتی نظام ہی کی بات کی۔اب عمر ان خان نے بھی صدارتی نظام کی بات اُگل دی ہے ۔ بات نظام کی ہیئت کی نہیں ہو تی بلکہ اخلاص اورنیت کی ہوتی ہے۔ جب آصف زرداری صدر تھے اس وقت بھی یہی پارلیمانی آئین نا فذ تھا مگر اختیا ر آصف زرداری کی جیب میںتھا۔ آج بھی وہی آئین مو جو د ہے مگر اختیا ر ات وزیر اعظم کے پاس ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو تا ،اسی وجہ سے ملک بحران در بحران کا شکا ر ہے۔ جس د ن حکومتوں اور سیا سی ادروں کی بات نہیں بلکہ تمام سر کاری ادارے آئین کی روح کے مطابق روبہ عمل ہو ں گے تو پاکستان کے تما م دَلِدّرمٹ جائیں گے، ملک کو خلو ص چاہیے شخصیت سے نہیں ۔

شیئر: