Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی تاریخ کا پہلا اور بڑا جرم ، عدم اعتراف

کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے، کچھ خریدنے کیلئے کچھ ادا کرنا پڑتا ہے ، کسی وقت ایک غم آیا ہے تو بے شمار نعمتیں موجود بھی ہیں
* * * * *ڈاکٹر بشریٰ تسنیم۔ شارجہ* * * *
تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑاجرم کیا وہ "عدم اعتراف"ہے اور سب سے پہلا جرم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چنیدہ بندوں کو ہادی و رہنما کے طور پر قبول نہ کرنا بھی انسانی تاریخ کا جرم ِعظیم رہا۔مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بھلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملاًعدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا۔زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی۔ دھوپ چھا ؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ زندگی اسی سرد و گرم کا نام ہے اورعقل مندی یہ ہے کہ اس کی ناخوش گواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے۔تکلیف، غم، دکھ، پریشانی یا بیماری سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا، اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت اور منفی زاویے سے ان کا سامنا کیا جائے۔
زندگی کی ذمہ داریا ں نبھانا ایک مشقت طلب کام ہے ۔جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے وہ اس کو احسن طریقے سے نبھانے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ راعی کم رعیت رکھتا ہو یا زیادہ، اپنی ڈیوٹی سے انحراف کرتا ہے تو اپنے عہدے سے انصاف کیسے کرے گا اور انصاف نہ کرنے والا ظالم کہلاتا ہے۔ اب ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرے گا تو ہی اس کا ازالہ بھی کرے گا۔ کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ دوسروں کی قابلیت صلاحیت کا صدق دل سے اعتراف کیا جائے۔ جو لوگ تنگیٔ نفس سے محفوظ ہیں وہی فلاح پانے والے ہیں۔دوسروں کے راستے تنگ کرنے والے، دوسروں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے اس کا اعتراف نہ کرنے والے حاسد کہلائے جاتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی سے سوال کیا گیا کہ حسد کسے کہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا: "دوسروں میں خیر و خوبی، نعمت ، کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے۔ " اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے چاہے اس کیلئے نفس پہ جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے تو انسان روحانی ترقی کی معراج پا سکتا ہے۔ دوسروں کی نعمتوں پہ خوش ہونا، اپنے رب کی تقسیم پہ راضی رہنا ہے یہی پختگی ٔ ایمان کی نشانی ہے۔ اگر انسان خود کو نعمت ملنے پہ تو رب کی تقسیم پہ راضی ہو مگر دوسرے کو ملنے پہ اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش پہ سوال اٹھائے تو اس ذات کے رب العالمین ہونے کا عدم اعتراف ہے۔اس فانی دنیا کا ابدی قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور’’ ایکم احسن عملا‘‘(ہود7) کی مسابقت اس کی بنیاد بنائی ہے۔
سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے، نہ ہی سب کے مزاج ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ انسانی معاملات ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے انسان کے جسمانی اعضاء مربوط ہیں۔ مزاجوں اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کیلئے باعثِ زحمت بھی ہوجاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت کے تحت لوگوں کے حالات میں الٹ پھیر بھی ہونا زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کہ اچھے حالات کے ساتھ برے حالات کا سامنا کسی وقت اور کبھی بھی ممکن ہے انسان کو متوازن سوچ کا حامل بناتا ہے۔نامساعد حالات میں بالغ نظری کا انتخاب معاملات کو درست سمت میں رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ ناپسندیدہ حالات کے اسباب و علل کا اعتراف کر لیا جائے۔ سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ تکلیف کیسی بھی ہو ذہنی،جذباتی، معاشرتی یا معاشی اس کا سامنا کرنے میں دوسروں کے قصوروں کے ساتھ ساتھ میری اپنی کیا کوتاہیاں شامل ہیں۔اپنی کوتاہیوں کو بے ضرر سمجھنا دوسروں کی غلطیوں کا طومار باندھنا دوسروں پہ بے جا غصہ کرنا، سارا ملبہ اوروں پہ ڈالنا نامناسب رویہ ہے۔
معاملہ2 افراد کا ہو،2 گروہ کا یا2قوموں کا، منفی ردعمل کبھی مثبت نتائج نہیں لا سکتا۔ ہر دو فریق مخاصمت میں ایک دوسرے کی اچھائیوں پہ پردے ڈال کر برائیوں کا کیچڑ اچھا لیں گے تو پھر معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن جائیں گے۔ ’’ اس دنیا میں غم بھی زندگی کا لازمی حصہ ہے‘‘۔جو فرد اس کا ادراک کر لیتا ہے وہ غم اور تکلیف کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے۔ اس کو کبھی نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ ذہنی توازن برقرار رکھتا ہے اور اس سے اپنی شخصیت کی تعمیر کیلئے سبق حاصل کرتا ہے۔ بڑے سے بڑے نقصان دہ امر کا ادراک کر لینا غم و نقصان کا آدھا علاج ہے۔ باقی آدھا علاج تدبیر سے ممکن ہوجاتا ہے۔ اس طرح جب اپنی امیدیں پوری نہ ہوں گی توانسان مایوس نہ ہوگا اورفریاد و ماتم نہیں کریگا اس کا شعوری ایمان اس کا سہارا بن جائے گا۔
اس دنیا میں سب کی امیدیں مختلف ہوتی ہیں اور ایک کی تمنا پورا ہونا بعض اوقات دوسرے کی تمنا کا خون ہوتا ہے۔ اور ’’ تلک الایام نداولھا بین الناس ‘‘کا فارمولہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا خالق وہ خود ہی ہے۔ منزل پہ پہنچ جانے سے پہلے سارا سفر جس نہج پہ طے کیا وہ بھی منزل مقصود پہ پہنچ جانے کا ایک حصہ ہے۔ جنت جیسی منزل تک پہنچنے کا تعین دنیا کے سفر کو طے کرنے کے طریقے پہ منحصر ہے۔ زندگی کے سفر میں سب کو خوشیوں کا انتظار ہوتا ہے۔ان کی تمنا ہوتی ہے، ان کیلئے دعائیں ہوتی ہیں، اچھے نصیب کی التجائیں ہوتی ہیں۔ بیشک انسان دائمی خوشی کی طلب کرتا ہے اس لئے کہ دکھ اورغم اس کی لسٹ میں نہیں ہوتے، کوئی ان کا انتظار نہیں کرتا۔
بے شک سکھ من چاہے ہوتے ہیں مگر غم دکھ تکلیف اَن چاہے، بِن مانگے نصیب ہوتے ہیں اور نصیب سے کوئی لڑ نہیں سکتا، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار ممکن نہیں اور انگلیوں پہ گنے جانے والے چند دکھوں کا ذکر ضرور کیا، وہ بھی اس لئے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب مزید نعمتیں عطا فرمائے اور کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے، کچھ خریدنے کیلئے کچھ ادا کرنا پڑتا ہے اور وہ چند دکھ بھی ہر کسی پہ سب ہی ایک وقت میں نہیں نازل ہوجاتے ۔کسی وقت ایک غم آیا ہے تو بے شمار نعمتیں موجود بھی ہیں۔ ہر نعمت اور کامیابی کسی مشقت کا ثمر ہوتی ہے اور خالق و مالک کسی پہ اس کی استطاعت سے بڑھ کے امتحان نہیں ڈالتا کہ رحمت اس کا شیوہ ہے۔
دراصل انسان اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ یہ امتحان بھی اس رب کی رحمت کا ہی مظہر ہوتے ہیں ،بھلا بغیر امتحان دیے کون سی ڈگری ملتی ہے؟ عدم اعتراف کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حاصل خوشیوں، نعمتوں، راحتوں اور محبتوں کا اعتراف نہ کرے، اَن گنت نعمتوں کا تذکرہ نہ کرے مگر ایک دکھ پہ واویلا کرے۔ غم بھی جب دائمی خوشیاں حاصل کرنے کا جواز بنائے گئے ہیں تو پھر انسان کس قدر نادان ہے ،جو کچھ حاصل ہے اس کا نہ اعتراف کرتا ہے نہ قدر، جو ملنے کے بعد چھن گیا اس کا ماتم کنا ں ہے، جو کچھ موجود اور باقی ہے اس کی فکر نہیں (لئن شکرتم لازیدنکم )(ابراہیم7)۔
زندگی جو گزر گئی اس کا اعتراف کیا جائے کہ زیادہ گزر گئی ہے۔ زیادہ خرچ ہوجانے کا احساس ہوگا تو باقی ماندہ کو سلیقے سے خرچ کرنے کیلئے ہوش حواس بیدار ہوں گے۔ خطاؤں پہ نظر جائے گی تو مغفرت کی طلب بھی ہوگی۔ گناہوں کا عدم اعتراف بھی سزا کی ایک شکل ہے۔ نقصان، غم، گناہ یا خطاء کا ازالہ کرنا ہو تو اس کے موجود ہونے کا اعتراف کرنا لازمی ہے۔ کسی بھی وحشت کا مقابلہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس حقیقت کو اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ بیماری کا علاج تب ہی ممکن ہے جب اس کا ہونا مان لیا جائے۔ دکھ ہو یا سکھ دونوں کے بارے میں عدم اعتراف زندگی سے توازن ختم کر دیتا ہے۔
نعمتوں کا اعتراف شکر کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور دکھ و آزمائش کا اعتراف صبر اور حوصلے کی ردا اوڑھا دیتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ان 2پہلوؤں کے علاوہ کوئی تیسرا پہلو نہیں۔ اس میں شکر کا پہلو زیادہ وزن رکھتا ہے کہ نعمتیں اتنی ہیں کہ شمار ممکن نہیں (وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصو ھا )(ابراہیم34) اورغم کی تعداد اتنی کم کہ 2انگلیوں کے خانے بھی زیادہ ہی ہیں۔ ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والا نفس والثمرات و بشر الصابرین (البقرہ155)۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی میں خوشی وغم کا اعتراف اور سامنا کرنے کیلئے ایمانی شعورعطا فرمائے اور ہمارے گھروں اور دلوں میں سکون نازل فرمائے،آمین۔

شیئر: