Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے شریک سفر نے پیار کیا،بھرپور اعتبار کیا

 
میں جہاں رہوں ،جہاں جاوں اسکے نام کی حرمت میرے نام کےساتھ ہے
زینت شکیل۔جدہ
وہ گھڑ سواری میں اول آئی تھی۔ لڑکیوں نے تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھوں کو سرخ کرلیا تھا۔ گروپ فوٹو بنواتے ہوئے تمام ہم جماعت خوش تھے کہ یونیورسٹی کے پہلے سال کی طالبہ نے فائنل راونڈ جیت لیا تھا۔اسکی ایک کلاس فیلو کہہ رہی تھی کہ تم ہمارے ساتھ رہتی ہو تو ہمیں اپنے گروپ میں کسی باڈی بلڈر کی سی طاقت کا احساس تقویت دیتا ہے۔
وہ جہاں سے گزرتی، لڑکے راستہ چھوڑ کردائیں باتیں ہوجاتے۔ ایک تو اس کا اونچا لمبا قد، پھر اتنی منہ پھٹ کہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ کوئی کسی کو اپنی ”وفا“ کا یقین دلانے کیلئے ڈائیلاگ بولتا اوراسی اثناءمیں ان کے بینچ کے قریب سے محترمہ کا گزر ہوجاتا تویوں سمجھئے کہ بدقسمتی غلط بیانی کرنے والے کے آس پاس منڈلانے لگتی ۔ وہ چیونگم چباتے چباتے زوردار قہقہہ لگاتی اور ایک کان میں لگا ہیڈ فون ہٹاتے ہوئے یاد کراتی کہ ارے بھائی !تم تو فلاں ڈپارٹمنٹ کی فلاں طالبہ کو پچھلے ہفتے اسی جگہ بیٹھے ایسے ہی ڈائیلاگ بول کر اسے یقین دلاتے پائے گئے تھے ۔ یہ سنتے ہی لڑکی وہ لڑکی اس ”ذوفریقی بزم“سے واک آوٹ کرجاتی اور جدیدیت کے متوالے نئی دوستی کیلئے نیا ڈائیلاگ رٹتے نظر آتے۔
وہ گاوں سے جب شہر پہنچی تھی تو ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوئی تھی۔ اکثر لڑکیاں اسکی دوستی سے مستفید ہوئیں ۔ ویک اینڈ پر گھر آنے جانے کی سہولت بھی اسے مل گئی تھی۔ یونیورسٹی میں اسکا ساتھ، پڑھائی کے علاوہ بھی رعب دبدبے والا گروپ بھی سمجھا جانے لگا تھا۔
وہ آخری سمسٹر کا امتحان دے کر اس یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے کو اپنا چکاتھا۔ اکثر مڈبھیڑ کسی جگہ ہوجاتی مگر وہ پہلی دفعہ کے تعارف کے بعد کبھی غیر ضروری بات نہیں کرتا تھا۔وہ سوچتا تھا کہ جب اس کی پڑھائی مکمل ہوجائے گی تو اماں جان کو اسکے گھر بھیج دے گا۔یونیورسٹی میں استاد اور طالب علم کا رشتہ احترام پر مبنی ہوتا ہے اس لئے اس احترام کا لحاظ رکھا جانا چاہئے۔ اسکی انفرادیت اسے ممتاز بناتی تھی۔
وہ چھٹی کا دن بھی پڑھائی اور اسائمنٹ بنانے میں ہی گزارتی تھی۔ اب تک ایک دفعہ بھی گا وں جانا نہیں ہوا تھا۔ وہاں سے سوغات آجاتی، تایا جان اور تائی جان کو فون پر اپنی خیریت بتا دیا کرتی تھی۔ وہ لوگ فون پر مختصرخیر خیریت پوچھ لیتے تھے۔ اسکی روم میٹ کو کہیں جانا ہوتا تو اس کو ہی کہتی بلکہ اور لڑکیاں بھی گھر پر فون پر بتا دیتیں اور ایک ساتھ کہیں شاپنگ ، پکنک یا ایسی جگہوں پر سیر کیلئے جاتیں جہاں پہلے نہ گئی ہوں۔ وہ سب کو باری باری آوٹنگ پر بھی لے جاتی اور واپسی میں جنہوں نے اپنے گھر ویک اینڈ گزارنا ہوتا، انہیں وہاں ڈراپ بھی کردیتی۔ اسکے شاہانہ انداز اور اسپورٹس میں مستقل مزاجی نے اسے مضبوط ذہنی و جسمانی قوت عطا کر دی تھی۔ نماز کی پابندی اس نے بچپن سے ہی اپنی دادی جان سے سیکھی تھی اور اسکو اس میں سکون بھی بہت ملتا تھا۔اس لئے کہیں لڑکیوں کو لانے لے جانے سے پہلے وہ دو رکعت نفل کی ادائیگی بھی کرلیتی تھی۔ 
آج بھی ویک اینڈ کا پروگرام طے تھا۔ اسکی فور وہیل پر اسکے علاوہ 8 لڑکیاں سوار تھیں۔ ایگزیبیشن کے بعد ڈنر کرکے ہر ایک کو اس کے گھر ڈراپ کرنے جانا تھا۔ وہ باری باری راستہ بتاتی جارہی تھیں کہ کس روٹ سے زیادہ جلدی پہنچا جاسکے گا۔ اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی گاڑی سے اتری اور اپنے گھر کے دروازے کی بیل بجاکر انتظار کرنے لگی ۔اتنے میں گیٹ پر موجود چوکیدار کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا لڑکا نموار ہوا۔ غصے سے پوچھنے لگا اس وقت کہاں سے آرہی ہو؟ کس کے ساتھ آئی ہو؟ وہ سراسیمگی کی حالت میں بتانے لگی کہ بھائی! میں اپنی کلاس فیلو کے ساتھ چلی گئی تھی ، کچھ دیر ہوگئی۔ وہ چاروں طرف نظر دوڑاکر معلوم کرنے لگا کہ کس کے ساتھ آئی ہو؟ آخر کار وہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے اتری اور اسکی مشکل حل ہوگئی۔
دوسری لڑکی نے اپنی گلی کے شروع میں ہی گاڑی رکوالی کہ ہمارے محلے میں اتنی رات گئے اتنی بڑی گاڑی چلی گئی تو کوئی یقین ہی نہیں کرے گا کہ اس گاڑی میں کوئی لڑکا نہیں،سب کی سب لڑکیاں ہیں ۔وہاں تو یہی سوال پوچھا جائے گاکہ وہ کون لڑکا ہے تمہارے ساتھ جو گاڑی چلا رہاتھا۔ وہ ہکا بکا گاڑی روکے انتظار کرتی رہی کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ گاڑی آگے بڑھائے۔ تیسری لڑکی نے اپنا گھر آجانے پر خاص طور پر بھابھی کو اپنی دوست سے ملوایا کہ یہ میری سہلی ہے۔ گاڑی اس کی ہی ہے ہم سب ایک ساتھ گئے تھے۔
چوتھی جگہ پہنچنے پر دروازے پر کئی گاڑیاں نظر آئیں ۔وہ زیر لب دعائیں کرنے لگی کہ ہمارے دادا جان اور تایا جان نے مجھے نہ پکارا ہو۔جب انہیں معلوم ہوگا کہ میں آج اتنی دیر سے آئی ہوں تو خوب ہی غصہ کریں گے۔ کہیں میری پڑھائی ہی نہ ختم کرا دیں۔ اس ویک اینڈ وہ لوگ آئیں گے، اسے خبر نہیں تھی۔
پانچویں جگہ اور چھٹی جگہ اس نے پہلے سے بتا دیا کہ تم لوگ گھرفون کرکے بتاو کہ تم پہنچنے والی ہوتا کہ وہ گیٹ پر موجود ہوں۔ دیر نہ لگے، کئی اور علاقوں میں بھی مجھے جانا ہے تو یہ آسانی والی بات ہوجائے گی۔ اس کے کان میں ایک طرف تو میوزک لگا تھا لیکن دوسرے کان میں اسکی دوست کی منمناتی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ، وہ اپنے گھر فون کرکے تفصیل بتا رہی تھی کہ اسکی وجہ سے دیر ہوئی اور اب وہ دراصل اپنی سہیلی کے ساتھ ہی آرہی ہے، بس پہنچنے والی ہے۔ اسکے ساتھ بیٹھی لڑکی نے بھی اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ گیٹ پر آجاو۔ وہ بھی جھنجلاہٹ میں سوال پوچھ رہا تھا کہ آپ اتنی رات میں کیسے آئی ہیں؟
رات زیادہ نہ بیتی تھی لیکن سوالات لوگوں کے ذہن کو بوجھل بنائے دے رہے تھے۔ آخر کار وہ سب کو ا ن کے گھروں تک پہنچا کر ہاسٹل روانہ ہوگئی۔ کسی سے بات کررہی تھی۔ آواز بالکل نارمل اور جب گیٹ پر پہنچی تو اپنے لئے آئی گاوں کی سوغات وصول کی۔ کسی نے بہت محبت سے اسکی ہر پسندیدہ شے اسکے لئے بھجوائی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں آکر اطمینان سے ان سوغات کو دیکھنے کا سلسلہ شروع کرچکی تھی ، اسکی نظروں میں اپنا پورا بچپن گھوم رہا تھا۔
جب وہ چند سال کی تھی تو اپنے والدین کی حادثاتی موت کے بعد دادا، دادی کے پاس آئی تھی ۔ تایا جان نے صاف کہہ دیا تھا کہ ابھی نکاح کا کیا مطلب ہے، جب یہ بڑے ہونگے تو فیصلہ کریں گے۔ دادا جان سے پہلے دادی جان نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ وہ تو چلا گیا لیکن زبان کا اقرار پورا کرنا چاہئے۔ نکاح کے بعد چھوہارے اور میوے کے لڈوو ں کا ذائقہ اسے آج بھی یاد تھا۔ اس سے بارہ سال بڑامڈل کلاس کا طالب علم اسے اپنے ہاتھ سے لڈو کھلا رہا تھا۔ بس کھلکھلا کر ہنس دیئے لیکن وہ بڑی سمجھداری سے مدبرانہ لہجے سے اپنی منکوجہ کو بتا رہا تھا۔ آج سے تو اپنی ہر ضرورت مجھے بتانا ،میں تیری ہر بات پوری کرونگا۔ تیری ہر بات مانوں گا۔ 
وہ حیرت سے جانے انجانے لمحوں میں منہ اٹھائے اسے تکنے لگی ۔وہ یقین دلاتے ہوئے دوبارہ گویا ہوا کہ اگر تجھے کھیت کی سیر کرنی ہو یا بازار سے کوئی چیز منگوانی ہو یا جھولا ڈلوانا ہو یا کوئی کتاب پڑھنی ہو ، تیرا ہر کام میر ا ہی ہوگا۔ میں سب کے سامنے تجھ سے بات کرونگا، تیری ڈھال بنوں گا۔وہ خستہ، تازہ اور مزیدار لڈووں کاذائقہ آج بھی اسی طرح محسوس کررہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ خاص کر اس حلوائی سے بنواکر اس نے اور سب چیزوں کے ہمرا ہ بھجوائے ہیں کہ مجھے اس جگہ کے لڈو پسند ہیں۔ اس نے دوسرا لڈو منہ میں ڈالتے ہوئے سوچا: 
آخری سمسٹر اختتام کو پہنچنے سے پہلے ہی کئی ایک لڑکیوں نے اپنے رشتہ دار یا بھائی کیلئے سوچا کہ وہ گاوں جاکر اس کے رشتہ دار وں سے اسکا رشتہ مانگیں گی۔ وہیں وہ بھی انتظار میں تھا کہ وہ اپنا تھیسس بھی مکمل کرلے گا اور اماں کو اسکے گاوں بھی بھیجے گا تاکہ رشتے کی بات کی جاسکے۔ سب لوگ اسکے کسی رشتہ دار سے واقف نہیں تھے۔ کوئی اس سے ملنے ان چار برسوں میں آیا ہی نہیں تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ نکاح شدہ ہے۔
آج سب کو ہی آگاہی مل گئی تھی۔ جب اسکی ایک کلاس فیلو بتا رہی تھی کہ وہ رزلٹ لینے جمع ہوئی تھیں۔ وہ بتا رہی تھی کہ اسکا نکاح جس ان پڑھ ،جاہل کزن سے ہواتھا ،وہیں اسکی شادی ہوگئی ہے۔ سب حیران تھے لیکن وہ سب کی حیرانی یہ کہہ کر دور کررکھی تھی کہ وہ مجھے بتا رہی تھی کہ تم سب کتنے بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہو لیکن ڈگری تمہیں ایک دوسرے کا اعتماد نہیں دیتی ۔میرا وہ عمزاد صرف آٹھویں جماعت پاس ہے لیکن اس نے ساری برادری میں مجھے سرا اٹھاکر جینے کا سلیقہ سکھا دیا ہے ۔ میری زندگی میں جب بھی کوئی مشکل آئی تووہ اس کے آگے ڈھال بن گیا۔جب خاندان کے ہر فرد نے صرف گاوں میں رہنا اور شہر میں نہ بسنا ہی اپنا اصول بنا لیا اور اس بنا پر وہاں روز ایک مسئلہ کھڑا ہوتا رہاتو اس نے ہمیشہ میری بات کو فوقیت دی ۔ میںنے دیکھا کہ ہر یہاں تو ہر کوئی پیار اور اعتماد کا رشتہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ کسی سے محبت ہوئی تو اعتبار قائم نہ ہوا ۔ بار بار شک و شبہ نے ان کا راستہ روکا۔ سوال وجواب کے ذریعے اپنے خلوص کا اعتبار دلانے کی کوشش کی ۔ ہر ایک کے ساتھ یہی مسئلہ میں نے یونیورسٹی میں دیکھا لیکن میرا مسئلہ یہ تھا ہی نہیں۔ میرے شریک سفر نے پیار کیا تو بھرپور اعتبار کیا۔ پیار اعتبار کا ہی دوسرا نام ہے۔اس نے کبھی میری جاسوسی نہیں کی ۔ وہ جانتا ہے کہ میں جہاں رہوں ،جہاں جاوں اسکے نام کی حرمت میرے نام کے ساتھ ہے۔ وہ جہاں جائے گا، جہاں رہے گا ،میرا ہی رہے گا۔ اس یقین کو کسی کاغذی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ اس لئے میںنے اپنا راہ نما اس کو چنا جس نے میرے راستے کے ہر کانٹے کو مجھ سے دور کیا ۔
شہروں میں لوگ چار دن عشق کے بخار میںمبتلا ہوکر شادی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ ابھی چند سال بھی نہ گزاتے ہوتے ہیں کہ الگ دنیا بسانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے ناپائیدار رسے کتنے مسائل کو جنم دیتے ہیں یہ تو ان کی نسل آئندہ انہیں بتائے گی۔ ابھی تو غیر سمجھداری کا ثبوت پورے شد و مد سے دیا جارہا ہے۔ جاننا چاہیئے کہ گھر ایک اکائی ہے اسکا ٹوٹنا معاشرہ کا بکھرنا ہے۔ 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: