Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس میں بیٹے کی کمائی پر عیاشی اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خاصی دوڑ دھوپ کے بعد اسے سعودی عرب میں سپروائزر کی نوکری مل گئی تو والدین کی آنکھوں میں امید کے دئیے جل اٹھے
ممتاز شیریں۔دوحہ۔قطر
گھر میں ایک دو نہیں ،ایک ساتھ 7 بہنیں ہوں اور سب سے چھوٹی بھی اسکول جانے لگی ہو۔۔۔اور باپ ضعیفی اور دل کے مرض کے سبب بستر کا مستقل مہمان بن چکا ہو تو سارے گھر کی ذمہ داری سب سے بڑے بیٹے پر ہی آ جاتی ہے۔
  احسن کے ساتھ بھی وہی معاملہ تھا جو پاکستان کے چند ایک نہیں کئی لاکھ گھرانوں کا مسئلہ ہے۔
 احسن 3 بڑی بہنوں کے بعد چوتھے نمبر پر تھا اس کے بعد ساری بہنیں ہی بہنیں تھیں۔
 جن کو دیکھ کر ماں ڈر سی جاتی تھی کہ اتنی ساری بیٹیوں کی شادیاں آخر کس طرح ہوں گی۔۔۔؟ اسی ڈر سے ساری بہنیں کبھی اکٹھی نہیں بیٹھتی تھیں۔۔۔3 اِدھر۔۔۔۔3 اْدھر۔۔۔۔ایک چھت پر بنے کمرے میں۔۔۔۔۔
آخر منصوبہ بندی کے تحت 4بہنیں جو سب سے بڑی تھیں اوپر کے کمرے میں مستقل مقیم ہو گئیں۔۔۔۔3 نیچے رہنے لگیں۔
  متوسط طبقے کی گھریلو لڑکیاں اور کہاں جاتیں اور کیا کرتیں۔۔۔۔آپس میں گھر کے کام تقسیم کر رکھے تھے ۔اپنی ڈیوٹیاں خود ہی تبدیل کرتی رہتیں۔ کچھ گھر سنبھالتیں کچھ ضعیف والدین کی خدمت کرتیں۔۔۔آپس میں بات چیت بھی دھیمی آواز میں کرتیں۔۔۔دبے پاؤں چلتیں کہ ماں باپ کو ذہنی اذیت نہ ہو۔۔۔۔۔الغرض گھر کیا تھا دارلآزمائش تھا۔
  احسن کو ان تمام حالات نے عمر سے بڑا سنجیدہ ،محتاط بنا دیا تھا عام نوجوانوں کی طرح ہنسی مذاق اس کی زندگی میں کم ہی آسکا تھا۔کھیل کود سے کبھی دلچسپی تھی لیکن اب گھر کے حالات نے اسے صرف تعلیم کی طرف متوجہ کر دیا تھا شکل و صورت میں سب بہن بھائی ہی اچھے تھے۔
  احسن کے دل میں بھی کچھ آرزوئیں اور خواہشیں تھیں جو اس کی عمر کا فطری تقاضہ تھیں لیکن ایسے کسی بھی خیال کے ساتھ اس کی اپنی 7 بہنیں اس کے تصور میں آ کھڑی ہوتی تھیں۔
باپ کی بیماری کے سبب قبل از وقت ریٹائرمنٹ نے احسن کو باہر جا کر کمانے کی دھن سوار کر دی تھی وہ کم وقت میں زیادہ کما کر اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہونا چاہتا تھا۔
جب خاصی دوڑ دھوپ کے بعد اسے سعودی عرب میں سپروائزر کی نوکری مل گئی تو والدین کی آنکھوں میں امید کے دئیے جل اٹھے۔۔۔۔بہنوں کے رخسار گلاب گلاب ہو گئے۔
باپ نے تمام جمع جتھا ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی ساری رقم ،تھوڑا سا گھر کا خرچا رکھ کر احسن کی روانگی کا انتظام کر دیا۔۔۔
 جس روز احسن کا طیارہ اڑا اس دن کسی کی آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے۔۔
* جدہ کی سمت جاتے احسن نے بہت سے خواب دیکھے تھے اس نے طیارے میں قدم رکھتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پہلے 2 سال وہ کسی صورت وطن واپس نہیں جائے گا ۔
ایک ایک پائی جمع کرے گا اور کم سے کم وقت میں پہلی 3بہنوں کی شادیاں کروائے گا۔۔۔۔۔والدین کا کچھ نہیں تو آدھا بوجھ کم ہو جائے گا تنخواہ چاہے کم ہی کیوں نہ ملے وہ نوکری کسی صورت نہیں چھوڑے گا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پورے مشرق وسطی میں تعمیر و ترقی کا گویا سیلاب آیا ہوا تھا۔ہر طرف دبئی چلو ،سعودیہ چلو ،کویت چلو کا چرچا تھا ہر نوجوان وہیں جانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔
 احسن اپنی سوچوں سے اس وقت باہر آیا جب طیارے نے جدہ لینڈنگ کا اعلان کیا۔۔۔
 2 سال کا عرصہ پر لگا کر اڑ گیا۔
  اس زمانے میں موبائیل فون نہیں ہوا کرتے تھے .احسن نے سب سے پہلے گھر میں فون لگوایا۔۔۔۔۔2سال کی کمائی نے گھر کا رنگ و روپ بدل دیا۔جس گھر میں ہفتے میں 5دن دال سبزی پکتی تھی وہاں مرغی پکنے لگی۔ گھر کے حالات تبدیل ہوئے تو جو لوگ پہلے نظریں چرا کر چلتے تھے وہ بہانے بہانے سے گھر کو آنے لگے۔گھر میں نئے سامان کی چکا چوند نے سبھی کی آنکھیں چندھیا دی تھیں۔
 احسن نے 2سال اتنی محنت سے کام کیا تھا کہ جلد ہی اس کو سب انجینئر بنا دیا گیا۔ اگلے 2 سالوں میں مزید ترقی کے امکانات موجود تھے۔ اس کی آمدنی خاصی اچھی ہو گئی تھی۔
اب وہ چاہتا تو کسی وقت بھی گھر جاسکتا تھا لیکن جو فیصلہ اس نے طیارے میں بیٹھتے وقت کیا تھا ۔اسی پر قائم رہا صرف انتہائی اشد ضرورت کے پیسے اپنے پاس رکھ کر باقی سب وہ گھر بھیج دیتا تھا رقم گھر آنے لگی تو لڑکیوں کے رشتے بھی خود بخود آنے لگے ۔3بڑی بہنوں کے رشتے والدین نے طے کر دیئے تھے گھر پر نہ صرف یہ کہ شادی کی خریداری ہو رہی تھی بلکہ ایک ساتھ3سمدھیانے والوں کی مہمانداری اور تحفے تحائف کا سلسلہ بھی چل نکلا تھا۔
( باقی آئندہ)

شیئر: