Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں سے مشقت کے خلاف سیمینار ، ”چور مچائے شور“

 انسانیت کا رشتہ مضبوط ہوتو نیکیوں کی تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی
اُم مزمل۔جدہ
وہ شور سے جاگ گئی تھی ۔وہ تیزی سے بیرونی دروازے کی جانب لپکا تھا۔اس نے دادی جان کے کمرے کی بتی جلتی دیکھی تو ان کے پاس آکر پوچھنے لگی کیا ہوا،کس وجہ سے اتنے شور کی آواز آ رہی ہے ؟دادی جان نے جواب دیاکہ یہ اہم بات نہیں ہے کہ کیا ہوااصل بات کی طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ ہمیں ابھی کام کیا کرنا چاہئے۔ مجھے بھی وضو کا پانی دو اور خود بھی وضو کرکے نماز پڑھو اور ہر ایک کے لئے عافیت کی دعا مانگو جس پربھی آزمائش آئی ہے، مالک حقیقی اسکی مدد فرمائے۔ کس کے ساتھ کیا مشکل مرحلہ پیش آیا اس کو جان کر ہم
اس کی مشکل آسان نہیں بناسکتے لیکن اسکے لئے دعا مانگیں تو اس سے انکی مشکل آسان ہوجاتی ہے اور ہمیں یہ کام ضرور کرنا چاہئے۔ اس سے پوری قوم میں محبت و اخوت پیدا ہوتی ہے۔ اسی لئے فرمایاگیا ہے کہ آزمائش میں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔
اسی دوران فجر کی اذان کی آواز آنے لگی اور باقی تمام آوازیں مدہم ہوتے ہوتے ختم ہو گئیں۔ حسب معمول گھر کے سب چھوٹے بڑے اٹھ گئے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ناشتے کی تیاری میں گھر میں موجود ہر خاتون ہاتھ بٹاتی تھیں۔اس طرح اس طویل وعریض گھر کے 36افراد کا ناشتہ ہر فرد کے لئے وقت پرتیار ہوجاتا تھا۔ بڑوں اور بچوں سب کی پسند بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتاتھا۔
دادی جان سے پوچھا جا رہا تھا کہ آج مدرز ڈے ہے یعنی آپ کے لئے سال میں ایک مخصوص دن، اس دن آپ جو چاہیں خواہش کا اظہار کریں، ضرور پوری کی جائے گی۔ دادی جان نے کہاکہ اس سے کیا ہوگا؟ انکے پوتے نے جو درجہ چہارم کا طالب علم تھا ،کلاس ٹیچر کا کہا فر فر دہرانا شروع کر دیا کہ اس دن سب مدرز خوش ہوں گی، فخر محسوس کریں گی کہ انکی کتنی اہمیت ہے ۔ان کے بچے ان کو اس خاص دن گلدستہ اورڈھیر ساری مزےدار چاکلیٹس اور انکا پسندیدہ پرفیوم انکے لئے خاص طور پر شاپنگ مال سے بہت خوبصورت پیکنک میں لائیں گے تو آپ کا یہ ایک دن پورے سال کے لئے اہم بن جا ئے گا۔ اس کے بعد فادر ڈزڈے اور اسی طرح سب کا ایک ایک دن مناکر
ایک سال کے بعد پھر آپکا دن آجائے گا اور آپ پھر اپنی مرضی سے آﺅ ٹنگ کا وینیو ڈیسائیڈ کریں گی ۔ڈنر بھی آپکی مرضی کی جگہ پر ہوگا اور سب اس خاص دن صرف آپ کے لئے ہی شاپنگ کریں گے ۔اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ سب آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔سب نے ناشتے کی ٹیبل پر اسکی تمام بات سنی اور وقت دیکھتے ہوئے تیزی سے اپنا اپنا ناشتہ مکمل کیا۔وہ کہنے لگا کہ آج ہم سب اپنی اپنی مام کو”ہیپی مدرزڈے“ کہیں گے اور وہ سب آپ کو کہیں گی اور آج آپکی مرضی سے سارے کام ہونگے جیسا کہ تمام ممالک میں ہوتا ہے۔
ان کی دادی نے مختصر لفظوں میں سوال کیا کہ آپکی مرضی سے روزانہ پوچھ کر آﺅٹنگ کا کسی وقت کے کھانے کے لئے تمہاری فرمائش پوری کی جائے یا پھر ایک سال میں صرف ایک دن آپکی مرضی پوچھی جائے تو آپکو زیادہ کیااچھا لگے گا؟ وہ فوراًبول پڑا میں تو روزانہ میگنٹ سے فریج کے اوپرلگے پیپر پر اپنی فرمائش لکھ کر اسکول جاتا ہوں۔ دادی جان نے کہاکہ تمہاری فرمائش روز نہیں بلکہ ایک سال یعنی 365 دنوں کے بعد ایک دن پوری کی جائے اوراس کے سوا کسی دن آپ کی مرضی نہ پوچھی جائے اور سال میں ایک دن صبح سے شام تک صرف آپکی مرضی سے سارے پروگرام بنیں کہ کون سی چاکلیٹ، کیک، آئسکریم کھائیں گے، کہاں سیر کو جائیں گے ،توکیاآپکو زیادہ مزہ آئے گا؟ اور پھر ہم تمہارے تمام دوستوں کو بھی بتائیں کہ ہمیں تمہارا کتنا خیال ہے بلکہ اپنے دئیے ہوئے کیک چاکلیٹ اور گفٹ کے ساتھ اخبار میں آپ کی تصویربھی چھپوائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ آپ کتنا خوش ہیں۔
وہ غور سے سنتے ہوئے اچانک بول پڑاکہ ایک سال میں ایک دن میری مرضی کا کھانا بنے گا اور ایک سال کے بعدمیں شاپنگ کروں گا تو اس سے مجھے کیسے اچھا لگ سکتا ہے؟ یہ تو بالکل بے مزہ بات ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی دن کو سال بعد منانا کوئی خاص نہیں۔ دادی جان مسنون دعائیں پڑھ رہی تھیں۔ناشتہ کر کے سب اپنے اپنے اسکول کالج روانہ ہوگئے۔ 
اس گھر میں آج کئی خاندان آباد تھے۔ اب تو بچوں کو بھی ایسا ہی محسوس ہوتا کہ سب آپس میں کزن ہیں۔ سب کے اسکول اور دفتر اور اکیڈمی روانہ ہوجانے کے بعد گھر کہ خواتین ناشتے کے بعد دوپہرکے کھانے کی تیاری میں لگ گئیں۔ آپس میں گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا اور زندگی نے جو کروٹ لی تو ایسا لگا کہ جیسے پارک میں لگے جھولے میں بیٹھے لوگ دھڑام سے نیچے آگرے ۔آج لوگوں کی نگاہ میں جو سب سے بڑی بہو تھیں ، وہ کہہ رہی تھیں کہ اماں آپ لوگوں نے ساتھ نہ دیا ہوتا تو نجانے آج ہم کہاں ہوتے۔ ہماری اکیڈمی اچھی خاصی چل رہی تھی کہ انہیں خیال آیا کہ باہر کے ملک میں جاکر رہنا چاہئے ۔بس انسان بھی بہت ناشکرا ہے ۔نعمتوں میں رہ کر بھی خوش نہیں رہتا اور اپنے لئے پریشانی مول لے لیتا ہے۔ ہم میاں بیوی اور ہمارے آٹھ بچے بیرون ملک چار دفعہ گئے ۔یہاں کا کام بھی متاثر ہوا اور پیسہ بھی اتنا آنے جانے میں خرچ ہوگیا ۔اسی لئے مجھے بچوں کے ہمراہ واپس بھیج دیاگیا کہ میں یہاںکچھ کمالوں تو تم لوگوں کو بلا لوں گا۔ پتہ نہیں کیسے اور کس نے اس بزنس کا بتایا اور دھوکہ ایسا دیا کہ خود چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا اور پولیس کو وہ اس بات کی دستاویز فراہم نہ کرسکے کہ اس سامان کو اس آدمی نے بنانے کا کہا تھا۔ جب سامان ٹرک میں لوڈ ہونے لگا تو نجانے کیسے پولیس آگئی اور معلوم ہوا کہ سامان چوری کا ہے۔ اب جیل میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔ دراصل کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ ان کو کسی نے یہ سامان ٹھیک کرانے کے لئے دیا تھااور بعد میں اسکا پتہ تک نہ مل سکا لیکن مالک حقیقی سے پوری امید ہے کہ ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گا اور بے گناہی ثابت ہو جائے گی۔
دادی جان نے کہا کہ یہ تو اچھا ہوا کہ دونوں چھوٹے بھائیوںنے ابھی اپنے اپنے خاندان کو وہاں نہیںبلا یا تھا کہ بڑے بھائی کا سن کر خود ہی ڈرائیو کر کے دوسرے شہر جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئے اور اب وہاں کے اسپتال میں ہیں ۔اگر ایک کی گردن کی ہڈی ایسی بری طرح مجروح نہ ہوئی ہوتی تو سفر کی اجازت مل جاتی۔ اب تودعا یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد ٹھیک ہوکر واپس اپنے ملک آجائیں۔
اسی طرح ڈاکٹر نے سب سے چھوٹے بھائی کے بارے میں اطمینان دلایا ہے کہ ابھی سفر کرنے میں دشواری ہے لیکن آجکل ریڑھ کی ہڈی بھی جڑ جاتی ہے لیکن صبر سے علاج اور احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے اور مایوسی تو ویسے بھی منع ہے آنسوﺅ ں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دل تو ایسے حالات میں خوشی محسوس نہیں کرتے لیکن دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کے بخوبی پوری ہوجانے کی دعا کیا کرو۔ دیکھو تم سے چھوٹی دیورانی پر 7 بچوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ بھی ہمت سے اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔ 
ان سب نے دادی کی باتیں سنیں ۔ سب کے دل میں خیال گزرا کہ وہ کتنی سمجھداری اور حوصلے سے سخت حالات کا مقابلہ کر رہی ہیں اور لوگوں کو کبھی ان سے آکر پوچھنے کی جرا¿ت نہیں ہوئی کہ آپ کا تو صرف ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی جسکے شوہرشہر کے ہنگاموں کی نذرہوگئے۔ اصل میں انکا آخری وقت آگیا تھا۔ وہ اچانک بھگدڑمچ جانے کی وجہ سے زخمی ہوگئے تھے اور جانبر نہ ہوسکے ۔انکی بیٹی 6 بچوں کے ہمراہ والدین کے گھر آگئی ۔ قائم مقام بڑی بہو نے کہا کہ آپ لو گوں کا دل کتنا بڑا ہے کہ ہم تینوں خاندانوں کو اس طرح اپنایا کہ لوگ ایک ہی خاندان سمجھتے ہیں ۔دادی جان نے کہا اچھائی کی شروعات مشکل لگتی ہے مگر ایک مرتبہ یہ شروع ہوجائے توسلسلہ قائم ہو جاتا ہے جیسا کہ اس دن اکیڈمی کے سربراہ نے گاڑی دھونے والے ایک بچے کو دیکھ کر اس سے چند باتیں کی تھیں اور کہا تھا کہ تم جیسے ذہین بچے کو اسکول جانا چاہئے اور اپنے ساتھ لے جا کر اکیڈمی میں داخلہ دے دیاتھا۔وہ اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ جب اکیڈمی کے سابق سربراہ کے 8بچوں
اور ان کے چھوٹے بھائی کے 4 بچوں اور انکے سب سے چھوٹے بھائی کے 7 بچوں کو دادی جان کو کو دادی جان کہتے ہوئے دیکھتی تو سوچتی کہ وقت کتنا بڑا مرہم ہے کہ اسکے شوہرنے اپنی زندگی پر احسان کرنے والے خاندان کو سچ مچ اپنا لیا تھا ۔ ایک گھرمیں سب لوگ بالکل ایک خاندان بن کر رہتے ہیںجبکہ اکیڈمی کے بعد بیرون ملک جانے کے لئے ان لوگوں نے اپنا گھر بھی فروخت کر دیا تھا۔
سچ ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی سے دینا چاہئے۔ دادی جان نے صبح کی بات دہرائی کہ کیسے چور خود چور چور کا شور مچا کر تیز رفتاری سے بھاگ گیا ۔اسی طرح جولوگ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، رشتہ داروں کو اور والدین کو اولڈ ہاﺅسز میں بھیج دیتے ہیں اورپھرشور مچاتے ہیں کہ ہم اپنے والدین کو کتنا چاہتے ہیں یا بچوں سے مشقت کے کس حد تک خلاف ہیں کہ ایک سال میں ایک دن ان کے لئے مختص کرتے ہیں، سیمینار ہوتے ہیں، تقاریر کی جاتی ہیں۔جس معاشرے میں واقعی اپنے اعزہ اور انسانیت کا رشتہ مضبوط ہو، انہیںشور مچا کر اپنی نیکیوں کی تشہیر کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
جاننا چاہئے کہ جو لوگوں پر رحم کرتے ہیں ،مالک حقیقی ان پر رحم فرماتا ہے ۔
 

شیئر: