Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حصول علم میں علمائے کرام کی محنتیں

عبدالمالک مجاہد۔ریاض
گزشتہ سے پیوستہ
امام احمد بن حنبلؒسے کسی نے پوچھا تھا: 
یہ جو آپ علم حاصل کرنے کے لئے اتنے لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، مسلسل پڑھتے اور لکھتے رہتے ہیں،غریب الوطنی اختیار کرتے ہیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ اب تو آپ امام اہل سنت وجماعت ہیں۔ پورے عرب میں آپ کے علم و تقویٰ کا ڈنکا بجتا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا: میرے یہ قلم و دوات قبر تک میرے ساتھ جائیں گے۔
یہاں یہ عرض کر دوں کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو علامہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں اب مطالعہ کی ضرورت نہیں، بہت بڑی غلطی پر ہیں۔
علم سیکھنے میں بہت لذت ہے۔ استاذ کے حلقے میں بیٹھنا،ان سے سیکھنا بہت بڑی نعمت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے کوئی 30,25 سال پہلے ریاض میں محترم ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کا حلقۂ درس حدیث ہوتا تھا۔ مسجد سلویٰ میں وہ ہمیں صحیح بخاری پڑھایا کرتے تھے۔ ہر جمعرات کو مغرب سے عشاء کے درمیان یہ حلقہ سال ہا سال چلتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب خوب تیاری کر کے آتے۔ میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اور میری اہلیہ نے شاید ہی کبھی درس کا ناغہ کیا ہو۔ اگر ہم نے عمرہ کے لئے یا مدینہ شریف جانا ہوتا تو ان دنوں جاتے جب ڈاکٹر صاحب عمرہ کے لئے یا چھٹی کے لئے جا چکے ہوتے۔
بخاری شریف پڑھنے کا اتنا مزا آتا تھا کہ درس کا وقت چٹکیوں میں گزر جاتا تھا ۔ ہم درس کی لذت سے اس قدر سرشار ہوتے تھے کہ پتہ ہی نہ چلتا اور عشاء کی نماز کا وقت آ جاتا۔ استاذ کے سامنے حدیث کی عبارت پڑھنے کے لئے ہم2 آدمی تھے۔ ایک ڈاکٹر امیر بخش چنّہ صاحب اور دوسرا راقم الحروف تھا۔ ڈاکٹر فضل الٰہی کے مسند سنبھالتے ہی ہم دونوں ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے تھے کہ حدیث پڑھنے کے لئے استاذ محترم کی جانب سے کسے اشارہ ہوتا ہے۔ عبدالمالک صاحب! پڑھیے،ڈاکٹر چنہ صاحب! پڑھیے۔ کبھی مجھے اور کبھی چنہ صاحب کو حکم ہوتااور ہم حدیث کا متن پڑھنا شروع کر دیتے۔ کیا مزا اور سرور آتاتھا!!
اگر کبھی متن پڑھتے ہوئے زیریا زبر کی غلطی ہو جاتی تو فرماتے : بھئی! مطالعہ کر کے آیا کریں۔
میں نے متعدد علمائے کرام کی سوانح عمریاں پڑھی ہیں۔ بڑا مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے بے شمار سفر کیے وہ راتوں کو جاگ کر پڑھتے رہے۔
 «  ریاض الصالحین کے مؤلف ابو زکریا امام نووی ہر روز 12دروس میں شرکت کرتے تھے۔
«  ایک مرتبہ امام ابن حجر عسقلانی نے ظہر اور عصر کے درمیان 1500احادیث پڑھیں۔
«   المغنی فقہ حنبلی کی کافی بڑی اور معتبر کتاب ہے ۔ عبداللہ بن محمد نے اسے 23مرتبہ پڑھا۔
«  نعیم المجمر سیدنا ابو ہریرہؓکے پاس 20سال تک پڑھتے رہے۔
m  قارئین کرام! آپ نے عطاء بن ابی رباح کا نام سنا ہو گا۔ یہ کالے رنگ کے تھے ،آنکھیں نیلی،چھوٹا سا قد، منحنی سا جسم،نہ دولت نہ کنبہ، قبیلہ یا بڑا خاندان مگر علم کی وجہ سے ان کی شان یہ تھی کہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک حج کرنے کے لئے گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا: مکہ کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟انہوں نے بتایا: عطاء بن ابی رباح۔
سب سے بڑا مفسر،محدث،مفتی مکہ کون ہے؟ سارے سوالوں کے جواب میں ایک ہی نام سامنے آیا: عطاء بن ابی رباح۔
سلیمان کے دل میں آیا کہ اتنے بڑے عالم سے ملنا چاہیے۔ کہنے لگا: چلو! مجھے عطاء کے پاس لے چلو۔ اس نے اپنے وزراء ،امراء اور حاشیہ کو ساتھ لیا اور عطاء سے ملنے حرم شریف میں داخل ہوا۔ ان کی چارپائی حرم کے ایک کونے میں رکھی ہے۔ لوگ ان سے سوال و جواب کر رہے ہیں۔ خلیفہ آگے بڑھا۔ دیکھا ایک کالے رنگ کا شخص،سر کے بال اڑے ہوئے،نیلی آنکھیں،جسم پر معمولی کپڑے،درہم و دینار کا مالک بھی نہیں  مگر اس کی شہرت پورے جزیرہ عرب میں پھیلی ہوئی ہے۔
خلیفہ آگے بڑھ کر سلام کرتا ہے اور تعجب سے پوچھتا ہے : ارے ! تم ہی وہ عطاء ہو جس کی دور دور تک شہرت ہے۔ ہر جگہ لوگ تمہارا ذکرِ خیر کرتے ہیں۔
عطاء نے بہت تواضع سے جواب دیا: جی ہاں لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔
خلیفہ کو معلوم ہے کہ اس عزت و شہرت کی وجہ صرف اور صرف علم ہے کہ اس علم کی بدولت اللہ تعالیٰ معمولی درجے کے لوگوں کو بلند ترین مقام عطا فرما دیتا ہے۔ پوچھا: تم نے اتنا زیادہ علم کیسے حاصل کیا؟انہوں نے جواب دیا: 
بِتَرْکِ فِرَاشِي فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ثَلَا ثِینَ سَنَۃً ۔
’’میں نے مسجد حرام میں30سال تک اپنا بستر لگائے رکھا، اس دوران مَیں کبھی مکہ سے باہر نہیں گیا،علمائے کرام سے مسلسل علم حاصل کرتا رہا۔‘‘
سلیمان بن عبدالملک نے اپنے وزیروں مشیروں سے کہا: جاؤ حجاج میں اعلان کر دو کہ مناسک حج کے بارے میں اگر کوئی فتویٰ دے گا تو وہ صرف عطاء بن ابی رباح ہوں گے۔
قارئین کرام! علم سے محبت،علم حاصل کرنے کا جنون انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے؟! مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے سلف صالحین کو حدیث سے کس طرح محبت تھی۔ 
 ابو حاتم الرازی کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے پیدل سفر کرتے تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلب حدیث کے لئے ایک ہزار فرسخ پیدل طے کیے۔ ایک فرسخ 5کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ گویا انہوں نے 5 ہزار کلومیٹر سفر پیدل کیا۔ یہ سفر سیر و سیاحت کے لئے نہیںبلکہ علم حدیث سیکھنے کے لئے تھا۔ فرماتے ہیں: پھر میں نے گنتی چھوڑ دی۔ جی ہاں! وہ بحرین سے مصر گئے۔ مصر سے رملہ گئے۔ رملہ سے پیدل طرسوس گئے۔ بصرہ میں قیام کے دوران ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے تو اپنے فالتو کپڑے فروخت کر دیے۔ 2دن بھوکے رہے۔ان کے ایک دوست کو علم ہوا تو اس نے ان کی مدد کی۔ 
 ابو العلاء الہمدانی کہتے ہیں: میں علم کے حصول کے لئے بغداد گیا۔ پیسے پاس نہ تھے۔میں رات کو مسجد میں سو جاتا اور مکئی کے دانوں پر گزارا کرتا تھا۔
 عمر بن عبدالکریم الرواسی کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے 3 ہزار 600سے زائد مشائخ سے ملاقات کی۔ ان میں ہر ایک عالم سے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھایا سیکھا۔ ایک سفر کے دوران شدید سردی کی وجہ سے ان کی بعض انگلیاں جھڑ گئیں۔ اتنے پیسے پاس نہ تھے کہ جسم کو گرم کرنے کے لئے وہ لکڑیاں یا کوئلے خرید سکتے۔
امام بخاری ؒکے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ چاروں اطراف بسنے والے محدثین اور علماء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے خراسان اور اسکے پہاڑوں کے بارے میں لکھا۔ عراق کے تمام شہروں،حجاز ،شام،مصر،بغداد کے سفر کیے اور وہاں کے حالات قلم بند کیے۔
ان علمائے کرام کی جہود کا نتیجہ ہے کہ آج فرامین رسول کریم اپنی اصل حالت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام علمائے کرام کو امت محمدیہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
 

شیئر: