Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس کا نام اوروردی بدلتی ہے، کام اور کارکردگی نہیں

تسنیم امجد ۔ر یا ض
ڈولفن اور وھیل کے بارے میں اکثر معلومات حا صل کر نے کے شوق میں کبھی گو گل اور کبھی میگز ینز سے را بطہ کیا۔اس طرح ان مچھلیو ں کے بارے میں معلومات کاحصول کسی حد تک ممکن ہو گیا ۔آ ج کے دھنک کے صفحے میں انہی کے نام سے ما خوذ پنجاب کی پو لیس فورس کے بارے میں پڑھ کر تجسس ہوا ۔اس مرتبہ گو گل کی بجائے شہرِ لاہور میںمختلف لو گو ں سے رابطہ کیا تا کہ حا لاتِ حا ضرہ کا صحیح اندا زہ ہو سکے ۔کیا کہنے ہماری سوچ کے ، نقالی میں تو ہمارا جواب نہیں ۔ہمارے و زیرِ اعلیٰ صاحب ترکی کے دورے کے موقع پر وہاں کی ڈولفن پولیس فورس سے اس قدر متا ثر ہوئے کہ وطن آ کر اس کی بنیاد رکھنے کی ٹھان لی اور یہ پروابھی نہیں کی کہ ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔25 پو لیس افسران کو فوری طور پر ٹریننگ کے حصول کے لئے ترکی بھیج دیا گیا ۔انہو ں نے  660سی سی کی بی ایم ڈبلیوگاڑیوں پر ٹریننگ مکمل کی ۔اس پر ایک اندازے کے مطابق  50ملین کے اخراجات آئے۔ انہو ں نے وطن آ نے کے بعد 22ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام شروع کر دیا۔اب وہ مزید1000کے اضافے کے منتظر ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ۔
’’ڈولفن تربیت ‘‘کے لئے نوجوانوں کا انتخاب کیاگیا۔اس مقصدکے لئے وقتِ مقررہ پرانٹر پاس ہزا روں نو جوان صبح 6بجے آ کر کھلے میدان میںبیٹھ گئے۔کچھ کا کہنا ہے کہ بھو ک و پیاس سے ہمارا برا حال تھا ۔انہیں ایک ایک مقررہ فا صلے پرخاص وقت میں بھاگ کر پہنچنا تھا ۔د ن چڑ ھے ، دھوپ میںدوڑ شروع ہو ئی۔نتائج کے مطا بق دھا ندلی ہو ئی اور کچھ اپنوں کو گا ڑ یو ں میں بٹھا کر لا یا گیا اور مقا بلے میں شامل کر دیا گیا ۔یہ ترو تا زہ تھے اس لئے انہوں نے بہتر کا ر کر دگی دکھائی ۔اس طرح یہا ں بھی ایما نداری سے کام نہ لیا گیا۔اس پو لیس فورس کی تشکیل کے بارے میں ایک عمومی اور خود محکمہ پولیس کی رائے  یہ ہے کہ اس سے قبل محا فظ فورس بھی بنا ئی گئی۔اس پر ایک خطیر رقم خرچ  ہو ئی اب اس کی تشکیل غیر ضروری ہے ۔خود محکمہ پو لیس بے یا رو مدد گار ہے ۔ایک اسٹیشن پہ ایک یا دو گا ڑیا ں ہیں جبکہ ضرورت زیادہ کی ہے ۔پو لیس افسروں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ ہما ری ضرو ریات کا خیال کیا جاتا ،اس فورس کے لئے  1.5 ملین کی 500 سی سی موٹر بائیکس خریدی گئیں۔ایک وردی پر پچاس ہزار کی لاگت آ ئی ۔اس طر ح ایک ہی وردی کی تقسیم ہو ئی ۔جس کا کپڑا پیرا شوٹ کی قسم کا ہے ۔جو ترکی کے مو سم کے لئے منا سب ہے مگر پاکستان کے شدید مو سم کے لئے نامنا سب ہے ۔لا ہور کی گرمی کی شدت میں یہ کپڑا جسم کو کاٹتا ہے ۔8گھنٹے اس لباس میں ملبوس رہ کر ڈیوٹی دینے والے کا کیا حشر ہوگا، یہ وہی جان سکے گا جس پر گزرے گی۔یہ وردی چونکہ ایک ہی ہے، اس لئے سارے ہفتے یہی پہننا ناگزیر ہے ۔ اسکا روزانہ دھونا بھی مشکل ہے تاہم اب حکومت نے دلاسہ دیا ہے کہ مزیدیو نیفارم سیالکوٹ میں بن رہا ہے ۔ان کے علاوہ دیگر مسائل بھی سامنے آ چکے ہیں ۔فنڈز کی کمی کی وجہ سے اب 125 سی سی موٹرسائیکلیں تقسیم ہوئی ہیں جبکہ ٹرینر ز کا کہنا ہے کہ اس فورس کے لئے ہیوی با ئیکس چا ہئیں مگر ہیوی بائیکس میں پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے جبکہ منظوری صرف 1.5لٹر کی ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے ان اخرا جات کا تخمینہ پہلے کیو ں نہیں لگا یا گیا ۔اس کے علاوہ دیگر بیشمار شکا یات کے تناظر میں یہ سوال ، جواب کا طالب ہے کہ ڈولفن کے قیام کافیصلہ کیو ں کیا گیا ؟جمہوری حکومت کاکام تو عوام کی بہبودکا خیال رکھنا ہے پھر ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟زمینی حقائق یہ ہیںکہ ایک جانب تو غربت کے مارے لا تعداد عوام ایک وقت کی رو ٹی کو ترس رہے ہیں اور دوسری جا نب ڈولفن جیسی شاہ خرچیاں؟ 6 ماہ کی تر بیت پر آ نے والے ہوشربا ا خراجات کے علاوہ شا ہا نہ انداز میں کی جانے والی پا سنگ آ ئو ٹ پریڈکیا صرف تا لیا ں بجوانے، نعرے لگوانے اور واہ واہ کے ڈونگرے برسوانے کے لئے تھی ؟’’سو  ہنی دھرتی اللہ رکھے ، قدم قدم آباد‘‘جیسے معروف ملی نغمے کی گونج میںمو ٹر سا ئیکلوں پر سوارکر تب دکھاتی ڈولفن فورس نہایت بھلی نظر آرہی تھی ۔لوگ اس جدت سے متا ثرہو رہے تھے ۔یہ بھی سنا ہے کہ شاید اس ڈولفن فورس کو وی آئی پیزکے لئے ہی منظم کیا گیا ہے لیکن وزیرِ اعلیٰ کاکہنا تھا کہ ڈولفن کوا سٹریٹ کرا ئمز کے انسداد کے لئے تر قائم کیا گیا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ محکمہ پو لیس ایک ذہنیت کا نام ہے جو ایک نظام کی عکاس ہے ۔وطنِ عز یز میں اسے ہر فرد خوفزدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے کیونکہ انہوں نے یہی دیکھا ہے کہ پولیس فورس کا نام بدلتا ہے ،وردی بدلتی ہے مگر نہ کام بدلتا ہے نہ کارکردگی بدلتی ہے۔اس محکمے کے کچھ لو گو ںسے اس سلسلے میں بات ہو ئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شعبے پر کبھی کسی نے تو جہ نہیں دی ۔آ زادی کے بعد  80سال پرانا نظام ہمارے سپرد کر دیا گیا جس کا مقصد صرف ڈنڈا دکھا نا تھا ۔مار پیٹ ہمیں ورثے میں ملی ہے ۔ہم نے کو شش ہی نہ کی کہ اسے اپنی روایات کے مطابق ڈ ھال کر انفرادیت پیدا کریں ۔سول انتظامیہ کے تا بع رہ کر ہمیں ان کے احکام بجا لانے کا حکم ہے ۔ہم ایک کشمکش کا شکار ہیں۔مسلمان ہوتے ہوئے ہمارے بھی ضمیر ہیں۔ہم اپنی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کا حکم مانتے ہیں ۔تا بع رہنا ہماری مجبوری بنا دیا گیا ہے ۔ہمارے درست کام کو بھی شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ہم سے یہ امید کی ہی نہیں جا تی کہ ہم ایمانداری سے کام کریں گے۔ ہمارے معیارِ زندگی پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔سوال یہ ہے کہ نئی نئی ا ختراعات پر عمل کرنے کے لئے بجٹ مو جود ہے تو پھر ہمارے لئے پیسہ کیو ں نہیں ؟جب ہمارے بچے کی فیس سر پر ہے اور اسے سکول سے نکالے جانے کا انتباہ بھی کیا جا چکا ہے تو پھر ہم کیو ںغلط راہ اختیار کرنے پر مجبور کیوں نہیں ہوںگے ۔اولاد کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی ۔مجرم ہماری مجبو ر یو ں کو جانتے ہیں ۔
پو لیس کے کردار پر کیچڑ اچھا لنے سے پہلے ان حقائق کو دیکھنا ضروری ہے ۔انہی وجو ہ کی بنا پر عام شہری پو لیس اسٹیشن آ کر رپورٹ لکھوانامناسب نہیں سمجھتا ۔کاش ہمارے کرتا دھر تااس محکمے کی طرف بھر پور تو جہ دیں ۔جب ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا تو ممکن ہے کہ  
انتظامیہ کی مدا خلت بھی کم ہو جائے ۔افسوس تو یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں پو لیس کی درجہ بندی بھی کر دی گئی ہے ۔ڈولفن فورس پر عمومی تبصرہ
یہ بھی ہے کہ یہ جلد ہی اپنی ساکھ کھو دے گی ۔کاش کسی بھی نئی ا سکیم کو شروع کرنے سے پہلے معاشی محققین کی رائے کو محترم جانتے ہوئے ان کی ایک میٹنگ بلا لی جائے ۔
دینِ اسلام میں مشورے کی کتنی اہمیت ہے ۔اس کا اندازہ ہو نا ضروری ہے ۔اجتماعی مفاد کو مدِ نظر رکھنا اہم ہے۔ اس محکمے کو کار آ مد بنانے کے لئے ان کی خواندگی کی شر ح بڑ ھا نے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔اکثر سفار شی بھی بھر تی کر لئے جاتے ہیں۔ان کے کردار اور بیک گرائو نڈ کی چھان بین نہیں ہوتی ۔مجرم بھی اپنے جان پہچان والوں کو بھرتی کرا دیتے ہیں۔ٹریننگ کے دوران ان سے فرائض کی بجا آوری کا حلف لیا جاتا ہے ۔کاش یہ حلف پر ہی عمل کرنا اپنا شعار بنا لیں ۔
ڈولفن نامی اس نئی فورس میں اب تک 2014 افرادبھرتی ہو چکے ہیں ۔اس کی گر تی ہو ئی حالت کا اندازہ یہا ں سے لگائیں کہ حال ہی میں ایک اہلکار نے 90ہزار کی رشوت لی ہے ۔اس کے خلاف کارروائی کی گئی تو فیصلہ یہی ہوا ہے کہ اسے بر طرف کر دیا جائے گا تاکہ دوسرو ں کو سبق ملے ۔سوال ہے کہ یہ نو بت کیوںآئی ؟
آج انٹر نٹ کا دور ہے ۔دنیا سمٹ کر ایک گا ئو ں کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ہماری پولیس اس حقیقت سے با خبر ہے ۔اسے چاہئے کہ دوسرے ممالک کی پو لیس کے کردار کا مطالعہ کرے اور ان کی اچھی خو بیا ں اپنائے ۔وہاں پولیس کس طرح پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام ان سے ڈرتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ پیسہ ہی دماغو ں کے ڈھیلے پیچ کسے،احساسِ ذمہ داری کی بھی ایک 
حقیقت ہے ۔ایمانداری ،خلوص اور بے غرضی سے فرا ئض کی ادائیگی  کی جائے توکسی ڈولفن، وھیل ، رھو یا ٹرائوٹ کی ضرورت نہیں رہے گی، سادہ لباس اہلکار بھی مسائل سے بآسانی نمٹنے کے قابل ہو جائیںگے بس دیانت شرط ہے۔
 

شیئر: