Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قبل از وقت انتخابات کرانے کی کوشش

سید شکیل احمد 
پاکستان نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی تاریخ کے ایک اہم مو ڑ پر آجا ئے گا۔ وہ اس طر ح کہ پاکستان کی تیسری منتخب قومی اسمبلی کو  اپنی مد ت پو ری کرنے کی مہلت دی گئی کیونکہ چند ما ہ کی با ت رہ جا ئے گی مگر اس 6 ما ہ کی مد ت میں بھی پا کستان کے بعض سیاست دان بے چین اور بے کل ہو ئے نظر آرہے ہیں او رنہیں چاہتے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی جمہو ریت کی ہیٹ ٹرک پو ری کر لے۔ اس میں سب سے زیا دہ اضطراری کیفیت تحریک انصاف کے چیئر مین عمر ان خان پر طاری ہے۔ سمجھ میںنہیں آرہا  کہ ایک طر ف پو ری قوم یہ چاہتی ہے کہ ملک میں جمہو ری عمل جا ری رہے اور اسمبلیا ں اپنی مد ت پوری کر یں مگر دوسری طر ف بعض سیا سی جماعتیں اس عمل کو سبوتا ژ کر نے میں کر دا ر ادا کر رہی ہیں۔ ایسا محسو س ہو تا ہے کہ ان کی پشت بانی کوئی طا قت کر رہی ہے ۔اگر عمر ان خان وقت سے پہلے انتخابات چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ صوبہ خبیر پختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کر دیں ۔حکومت کوزچ کر نے میں آصف زرداری بھی انہی کے نقش قدم کی اتباع کر رہے ہیں ۔وہ بھی سند ھ اسمبلی کو رخصت کر دیں جس سے ایک سیا سی بھونچال آسکتا ہے اور پھرمسلم لیگ ن بھی مجبو ر ہو جا ئیگی کہ وہ بھی وقت سے  پہلے اسمبلی کی تحلیل کا فائد ہ اٹھا ئے اور عام انتخا بات کا اعلان کر دے مگر ایسا محسو س کیا جا رہا ہے کہ جلد یا وقت پر انتخا بات مقصود نہیں بلکہ کچھ اور ہی مقصود ہے ۔کیا مقصود ہے یہ اللہ ہی جا نتا ہے یا پھر اس کھیل کے کھلا ڑی جو حکومت کو اس حد تک زچ کر نے میں مصر وف ہیں کہ وہ جا م ہو کر رہ جائے اور مطلوب کو حاصل کر لیاجا ئے ۔حلیم طبع ایا ز صادق نے گو اپنی طر ف سے نشاند ہی کر دی ہے مگر ابھی گتھیاں پوری طر ح کھلی نہیں  ۔
       قومی اسمبلی کے اسپیکر ایا ز صادق نے ایک نجی ٹی وی کو دئیے گئے انٹر ویو میں اس امر کی جانب نشاند ہی کی ہے کہ خطر ے کی گھنٹی بج رہی ہے جبکہ رضا  ربانی چیئر مین سینیٹ نے بھی کہا ہے کہ پا رلیمنٹ پر کئی طر ف سے حملے ہو رہے ہیں ۔جب ملک کی ایسی 2اہم شخصیا ت ایسے خطر ات کا اظہا ر کر یں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ضرور ورنہ یو نہی ایسے خدشا ت کو ذکر نہیںکیا جا تا ۔عمر ان خان تو یو ں ساڑھے4سال سے نئے انتخابات کا پیٹاو ا ڈالے ہوئے ہیں مگر اب جبکہ6 ما ہ رہے گئے ہیں تو ان کا اضطراب سمجھ میں نہیں آرہا۔ علا وہ ازیں دوسری جانب ایک مخصوص مسلک سے وابستہ تنظیمو ں کی جا نب سے دھر نو ں کا جو سلسلہ شروع ہو ا ، اس کا پس منظر پنجا ب کے وزیر رانا ثنا ء اللہ نے بڑے تیکھے اند از میں پیش کیاہے۔ پنجا ب میں ڈاکٹر وں کی ہڑ تا ل پر وزیر مو صوف نے کہا ہے کہ وہ دھر نا ضرو ر دیں ان کا مسئلہ حل کر نے کی بذات خود کو شش کر یں گے، اگر نہیں ہو ا تو کسی اور کے ذریعے حل کر الیں گے ۔بہر حال یہ با ت کھل رہی ہے کہ دھر نے بھی حکومت کو مفلو ج کر نے کی مساعی کا حصہ ہے اور مذہب کے نا م پر سیا سی دھرنے ہورہے ہیں۔حیر ت کی با ت یہ ہے کہ پی پی جس کی جمہو ریت کے لیے بیش بہا قر بانیا ں ہیں وہ بھی سبو تا ژ کے اس عمل میں نظر آرہی ہے۔ حلقہ بندیو ں کے معا ملے میں پی پی نے جو کر د ار اداکیا ہے اس سے اندا زہ یہی ہو تا ہے کہ پی پی بھی وقت پر انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی  اور وہ اپنے طر ز عمل سے نہ نظر آنے والی قوت کو اپنے رویے سے توانا ئی فراہم کر رہی ہے ۔ آصف زرداری یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی پا رٹی کو 3 مر تبہ اقتدار منتقل ہو ا مگرکس انداز میں ہو ا؟   ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بھی اسمبلی نے مد ت پوری نہیں کی تھی اور ان کو بھی وقت سے پہلے انتخابات کرانے پڑے تھے مگر اس وقت سے پہلے کی گھڑی کی کیا نحوست آئی کہ ان کا دوسرا دور آئی جے آئی کے ہنگا مو ں کی نذر ہو گیا ۔بے نظیر کی حکو مت کی کر سی2مر تبہ کھسکا لی گئی جس کا کیا نتیجہ نکلا وہ بھی سامنے ہے ۔2مر تبہ نو از شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ ان تما م عوامل کے نتیجے میں ملک ہی غیر مستحکم ہو ا ہے۔
         پاکستان میںجب بھی غیر آئینی حکومتیں قائم ہو ئی ہیں، انھو ں نے ملک کی خدمت کم ہی کی تاہم بیر ونی عنا صر کا آلہ کا ر ی کو خوب خوب نبھایا ہے ۔بلا و ل بھٹو ہی نہیں دیگر جما عتیںبھی سانحہ ماڈل ٹائون میں جا ن بحق ہو نے والو ں کا حساب ما نگ رہے ہیں۔سانحہ ما ڈل ٹائون کے ذمہ دارو ںکا ضرور احتساب ہو نا چاہیے۔ سیا سی جما عتو ں کو چاہیے کہ وہ یہ مطالبہ جا ری رکھیں۔ پی پی کا بھی حق ہے کہ وہ اس سانحہ کے بار ے مطالبہ کر ے مگر ان کو چاہیے کہ بے نظیر کے پہلے دور میں اسلا م آبا د میں مدرسے کے  طلباء پر فائر نگ کر کے جن بچو ں کو ہلا ک کر دیا گیا تھا  ، اس کا بھی حساب کتا ب کا مطالبہ کر یں اور قوم کو بتا ئیں کہ5سال رہ کر بھی پی پی ایک قومی لیڈر اور پا رٹی کی چیئر پر سن کے قتل کاسراغ کیو ں نہ لگا سکی جبکہ اس نے اقوام متحد ہ سے بھی اس واقعہ کی تفتیش و تحقیقات کر ائی تو ایسی کیا مجبوری رہی کہ بینظیر کے قاتلو ں کو بے نقاب نہیںکیا جا سکا حالا نکہ آصف زرداری نے کئی مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ وہ قا تلوں کو جا نتے ہیں ،پھر اپنے دور اقتدار میں بے نظیر کے قتل کے مقد مے سے غفلت کیو ں بر تی گئی ؟اب وہ سانحہ ما ڈل ٹائون کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دراصل یہ عنا صر چاہے طاہر القادری ہو ں یا   بلا و ل زرداری ہو ں ان میں سے کوئی بھی ماڈل ٹا ئون کے متا ثرہ خاندانو ں سے مخلص نہیں بلکہ سیاست کا وہ کھیل کھیل رہے ہیں جس کے بارے میں خدشات اوراندیشے گردش کررہے ہیں ۔
ایاز صادق نے جس امر کی طر ف نشاند ہی کی ہے اس سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سیا سی وفا داریا ں تبدیلی کر انے پر عمل کیا جا رہا ہے اور اس طر ح مسلم لیگ ن کو بکھر نے کی سعی کی جا رہی ہے۔ ماضی میں بعض قوتیں یہ کھیل کھیل چکی ہیں اور ری پبلیکن پارٹی ، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ کنونیشن کا وجو د قائم کیا گیا مگراس کا نتیجہ کیا نکلا اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ۔ آج کی نئی نسل بھی اس بارے میںجا نتی ہے۔ ملک کے حالات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں ۔ سیا سی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی مفاد میں اس کھیل کا حصہ نہ بنیں جس کی وجہ پاکستان میں ایک مر تبہ پھر جمہو ریت کا بستر گول ہو جا ئے ، ورنہ تاریخ ان کو معاف نہیں کر ے گی ۔
 

شیئر: