Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی خطیب کاکارنامہ

 خلیل احمد نینی تال والا
چند سال قبل راقم کو امریکہ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع ملا تھا۔میرے میزبان نے بتایا کہ جمعہ پڑھنے کا مزہ دارالعلوم اسلامی کی جامع مسجد فلوریڈا میں آئے گاجو ہمارے دوست کے گھر سے تقریباً 20کلومیٹردور تھا چنانچہ ہم وہاں گئے۔ خطبہ ایک بجے شروع ہوا۔ مولوی صاحب کا تعلق شام(Syria)سے تھا۔نوجوان خطیب نے عربی میں خطبہ پڑھا پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک گھنٹہ تک وہ انگریزی میں مسلمانوں کو جن میں عربی ،پاکستانی ،ہندوستانی ،امریکن اور افریقن شامل تھے ،اسلام اور دنیا کے بارے میں بڑے بڑے دلائل سے سمجھاتے رہے ۔میں نے اپنی تمام زندگی میں اتنا پُر مغز خطبہ نہیں سُنا ۔بہت بڑے بڑے عالموں کے واعظوں سے محظوظ ہوتا رہاہوں مگر اتنا مختصر اور جامع الفاظ کا ذخیرہ اس نوجوان سے سُن کر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھی ۔تمام مسجد مصلیوں سے بھری ہوئی تھی ۔اتنی خاموشی اور لگن سے تمام حاضرین ہمہ گوش خطیب صاحب کو سُن رہے تھے ۔معلوم ہوتا تھا کہ مسجد میں جیسے کوئی بھی نہیں ۔وہ فرمارہے تھے کہ اللہ کے رسول سے کسی صحابی نے سوال کیا کہ حضور !میں ایک چیز پر عمل کرسکتاہوں ۔مجھے صرف ایک عمل بتائیے۔آپ نے فرمایا کہ سچ بولو کیونکہ میرے بعد اگر کسی کا درجہ ہوگا تو صادقین کا ہوگا ،یعنی میرے ساتھ جنت میں سب سے نزدیک سچے لوگ ہوں گے حتیٰ کہ شہدا ء کا درجہ بھی صادقین یعنی سچ بولنے والوں سے بعد میں ہوگا ،گویا کہ اسلام کی بنیاد سچ پر ہے۔
آج اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں نے سچ کو ترک کرکے جھوٹ کو اپنالیا ہے اور ان غیر مسلموں نے ہمارے اصول اپنالئے ہیں۔ آج ہم پر کوئی اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔ خود اپنے مسلمان ایک دوسرے سے کھل کر جھوٹ بولتے ہیں اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتے۔ہمارا آپس کا اعتبار اُٹھ چکا ہے ۔غیر مسلم کیسے اعتبار کرے گا ۔وہ مسلمانوں کو جھوٹا ،فریبی ،مطلب پرست سمجھتے ہیںجبکہ آپس میں غیر مسلم ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہیں ۔جو بات کرتے ہیں سچ کرتے ہیں اور سچ کی بدولت وہ آج کاروبار میں دنیا میں چھا چکے ہیں اور ہم پستی کی طرف چلے جارہے ہیں۔ہمارا اعتبار (Credit)ختم ہوچکا ہے۔ کاروبار میں دکھاتے کچھ اورہیں بھیج کچھ اور دیتے ہیں ۔اگر خراب مال کی نشاندہی بھی کی جائے تو وہ نہیں مانتے اور خراب مال تبدیل نہیں کرتے۔
دوسرا خاص نکتہ اُس نوجوان خطیب نے مسلمانوں کو سمجھایا، وہ یہ کہ امریکہ میں رہتے ہوئے ان کا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکی شہری ہونے کے ناطے الیکشن کیلئے رجسٹرکروائیں اور گلی کوچے کے انتخابات سے لے کر نائب صدارت تک کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں کیونکہ امریکن قانون کے تحت صدارت کیلئے صرف کرسچن ہی امیدوار ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں یہودی صرف چند لاکھ ہیں جو گلی کے الیکشن سے لے کر ججوں ،پولیس ،اسکولوں ،کالجوں ،ایم پی،پارلیمنٹ اور سینیٹ تک جاپہنچے ہیں اور اب کے تو ان یہودیوں کی لابی اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ امریکن پارلیمنٹ میں یہودیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہیں اور تمام پالیسیاں وہی مرتب کررہے ہیں جبکہ امریکہ میں ڈھائی ،3 کروڑ مسلمان آباد ہیں اور آج تک کسی بھی معمولی عہدہ پر بھی ایک مسلمان منتخب نہیں ہوسکا حتی ٰ کہ وہ ووٹر لسٹ میںبھی نام نہیں لکھواتے اور الیکشن والے دن اپنے گھر ہی بیٹھے رہتے ہیں لہذا امریکہ کی تمام مسلم تنظیموں نے مل کر متحدہ مسلمانوں کا دن منانے کا اعلان کیا ہے اور تمام مساجد ،مدرسوں ،تنظیموں نے متحدہ الیکشن کی مہم (Campaign)چلانے کا اعلان کیا ہے اور تمام مسلمانوں سے تمام اختلافات ختم کرکے صرف اور صرف اپنے آپ کو ووٹرلسٹوں اور الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے تیار کرنا شروع کردیا ہے اور جمعہ15دسمبر سے یہ آغاز کیا ہے کہ تمام لوگ نماز سے فارغ ہوکر مسجد کے باہر رضاکار موجود ہیں ان سے لے کر آپ تمام لوگ فارم پڑھیں ،یہ بقایا رجسٹریشن کاکام ہماری تنظیمیں کریں گی تاکہ مسلمان بھی امریکہ میں اپنے حقوق استعمال کرکے اپنا مقام بناسکیں اور پھر جب جمعہ کی نماز ختم ہوئی تو دیکھا کہ مسجد کے باہر واقعی رضاکار بڑی تعداد میں مسلمانوں کے فارم بھرنے کیلئے تیار کھڑے تھے اور اکثر لوگ اب ان سے فارم لے کر بھر رہے تھے گویا کہ کم از کم یہ پہلا مرحلہ تو شروع ہوا ۔
بعد میں میرے معلوم کرنے پر میرے دوست نے، جو گزشتہ20سال سے امریکہ میں مقیم ہیں بتایا کہ یہ مسجد اور اسکول انہی عالم دین کی کوششوں سے صرف 2سال میں تیار ہوا ہے ۔اس میں کسی عرب نے بغیر سود کے ادھار روپیہ دیا ہے جس سے یہ اتنی جلدی تیار ہوا  اور اب یہاں کے مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہ ادھار اتار رہے ہیں اور کافی قرض اتر بھی چکا ہے۔ انہی عالم دین کی رہنمائی میں2 مزید اسکول اور مساجد بھی تیار ہورہی ہیں ۔یہ اخبارات میں بھی امریکیوں کیلئے کالم لکھتے ہیں جس میں اسلام کی تبلیغ ہوتی ہے اور اب تو ان کو یہودی عبادت گاہوں میں بھی وعظ کیلئے بلایا جاتاہے جو کبھی بھی نہیں ہوتا تھا۔ ان کا ٹی وی پر بھی کئی مرتبہ خطاب نشر ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر ہفتے کئی امریکن مرد اور عورتیں نوجوان ان کے خطاب سے متاثر ہوکر مسلمان ہورہے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔ دن رات مسلمانوں کی ترقی ،یکجہتی اور اسلام کی تبلیغ کیلئے یہ اب دوسرے ممالک میں بھی دورے کرتے ہیں اور اسلام کے سنہرے اصولوں کا پرچار کرتے ہیں ۔یہ چندہ خود نہیں لیتے ،کسی عربی شخصیت کے اکائونٹ میں ڈالر جمع کرواتے ہیں ۔ان کا ایک بینک ہے جو نفع نقصان کی بنیاد پر امریکہ میں کام کر تا ہے۔اس بینک نے نفع لئے بغیر قرضہ فراہم کیا تھا جس کا فیض آج امریکہ کے تمام مسلمان اٹھارہے ہیں ۔
نماز کے بعد مولوی صاحب کو لوگوں نے گھیر لیا اور وہ سب سے ہاتھ ملارہے تھے ۔انکے مسائل بھی سن رہے تھے اور اس کا حل بھی بتا رہے تھے مگر ہمارے ملک پاکستان میں کبھی ڈاکٹرطاہر القادری حکومت کیخلاف دھرنا دیتے ہیں، پھر سودے بازی کرکے کینیڈا چلے جاتے ہے اور کبھی کوئی دوسرے مولوی صاحب حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسا کہ ان دنوں میں تحریک لبیک والوں نے دھرنوں کی ایک نئی بنیاد ڈال دی ہے جو پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے ۔کاش ہمارے ملک کے یہی عالم دین بھی اُس امریکی نوجوان خطیب کی پیروی کریںتاکہ پاکستان میں گروہی اختلافات ختم کرکے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنادیں اور تمام مسلمان آپس کے گروہی اختلافات بھلاکر اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک ہوکر اسلام کا قلعہ بنادیں ۔آمین۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں