Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان کےساتھ معاملہ ویسا ہی ہوتا ہے ، جیسا یقین ہو

اُم مزمل۔ جدہ 
وہ شکر ادا کر رہی تھی، وہ گھرکا کھٹکا کھٹکھٹا رہا تھا۔ وہ آواز سن کر تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف گئی۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا، پوچھ بیٹھی ” کتنے لوگ تھے ؟“ وہ متبسم لہجے میں اسکی تصحیح کرتے ہو ئے کہنے لگا ”آپ کو پوچھنا چاہئے کہ کتنی صفیں تھیں؟ 
” ہا ں ہاں“مجھے یہی پوچھناتھا ۔ وہ جلدی سے کہنے لگی وہ جوشیلے لہجے میں بتانے لگاکہ پوری مسجد تہجد کے وقت سے ہی عوام الناس سے بھر گئی تھی۔ مسجد کی انتظامیہ نے بروقت درست فیصلہ کیا اور مسجد سے ملحقہ عیدگاہ میں عید کے روز کی طرح یہاں سے وہاں تک قالین بچھانے اور قنات لگانے کا کام نمازیوں نے فجر سے پہلے مکمل کرلیا۔ کچھ لوگوں نے اپنے اپنے گھروں سے پنکھوں کا زائد انتظام بھی کر لیا۔ اندازہ ہے کہ محلے کا کوئی فرد گھر پر رکا نہیںہوگا بجز ان کے کہ جن کی صحت اتنی مخدوش ہوگی کہ مسجد تک آنے میں مانع ہو گی۔
وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ ایک دن اور ایک رات ،فجر پڑھنے جمع ہوئے تو پانچوں وقت کی نماز کی ادائیگی کے بعد دوسرے دن کی فجر کی نماز اور سورج نکلنے کے بعد اشراق کی نماز پڑھ کر آپ نے گھر کا رخ کیا۔ کھانے وغیرہ کا کیا انتظام تھا ؟
وہ بتانے لگا مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ جو مخیر حضرات ثواب کی نیت سے اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر کہ کہیں اس سے دل میں تکبر نہ آجائے، ایسے نیک کاموں میں پیش پیش ہوتے ہیں ،انہی کی طرف سے انتظام کیا گیا تھا۔
وہ مزید بتانے لگا کہ پہلے زمانے میںبڑے بڑے امام اپنے طلباءکے طعام کے لئے روزانہ بکرے ذبح کراتے تھے۔ انکی سوچ تھی کہ طلباءاتنی ذہنی کاوش میں لگے رہتے ہیں تو انہیں مقوی غذا ملنی چاہئے۔ 
وہ پوچھنے لگی کہ اس کا مطلب ہے آپ لوگوں کے لئے بھی لنچ کا انتطام کیا گیا۔اس نے کہا کہ چونکہ مسجد میں آنے والوں کی اکثریت پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتی ہے توسب کے لئے افطار کا انتظام کیا گیا تھا ۔
وہ خوشی میں بتانے لگی کہ میں نے شیرینی بنائی ہے۔ آپ کی طرح اور لوگوں کو بھی اپنی دعاﺅں کی قبولیت پر یقین ہے ،اسی لئے مٹھائی والوں کو آرڈر دے دئیے گئے تھے۔ وہ اس واقعے کے یاد آجانے پر کہنے لگی ،ویسے ہی جیسا کہ بارش کی دعا مانگنے لوگ جمع ہوئے تو ایک شخص دھوپ میں اس لئے اپنے ساتھ چھتری لیکر آیا کہ جب ہم بستی والے اپنے معبود برحق سے نماز استسقاءمیں دعاکریں گے تو ہم پرباران رحمت برسے گی اور ہم بھیگ جائیں گے چنانچہ بھیگنے سے بچنے کے لئے چھتری ساتھ لے جانی چاہئے۔ ایسا ہی یقین ہمیں آج بھی رکھنا چاہئے کیونکہ انسان جیسا یقین رکھتا ہے، قدرت اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتی ہے۔ 
ہمیں بتادیا گیا ہے کہ جو ہلاک کردیئے گئے وہ اس جگہ نہیں لوٹتے۔ ہر انسان اپنے آپ کو انفرادی طور پر درست راستے پر چلنے والا بنا لے اور مالک حقیقی کی مدد مانگتا رہے توبلا شبہ وہ بہترین راستے پر گامزن ہو گیا۔اس بات کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں پکے ہوتے ہیں، انکی  ایمانداری انکے عمل سے ظاہر ہوجاتی ہے اور جو لوگ لاپروائی برتتے ہیں انکے بنائے ہوئے درودیوار ایسےہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں  
رزق صرف روپے پیسے کو نہیں کہتے بلکہ رزق کے معنی بہت وسیع ہیں۔ ہر انسان کو رزق سے نوازا گیا ہے۔
 

شیئر: