Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

درندگی

محمد مبشر انوار
بابا بلھے شاہ کی دھرتی قصور سے پے در پے لرزہ خیز واقعات کی خبریں آ رہی ہیں مگر حکومت اور انتظامیہ سب اچھا ہے کی رٹ میں مصروف ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کس کا نوحہ یا مرثیہ لکھوں؟پھول جیسی زینب کا؟بد مستیوں میں ڈوبے ان جنسی درندوں کایا ان کے جرائم پر پردہ پوشی کرنے والوں کا؟ان حرام کاروں کاجو انہیں پالتے ہیں؟اس مال حرام کاجس نے خوف خدا بھلا رکھا ہے؟کس کا نوحہ لکھوں؟ اس بے حس قوم کا ،جس کے 145نو نہالوں کو دن دیہاڑے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کے حکمران اس قوم کو پھر بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ؟کیا یہ وہی قوم ہے جس نے اغیار کی بیٹیوں کی پکار پر لشکر کشی کی،جس کی ایک بیٹی کی پکار پر حجاج بن یوسف سندھ میںقہر بن کر ٹوٹا؟کس کا مرثیہ لکھوں؟میڈیا پر چلنے والے فحش ،لچر پروگرامز کا؟بیہودہ فلموں کا؟کس کا مرثیہ لکھوں،دو وقت کی روٹی کمانے والوںکی مصروفیات کا،جو دن رات ایک کرکے اپنے بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں رہتے ہیںاور ان کے بچے اس معاشرے میں بسنے والوں خونخواروں کے رحم و کرم پر ،جو اپنی حیوانگی کی تسکین کے لئے کچھ بھی کر گذرنے کے لئے تیار۔ اللہ کی پناہ ایک سال کے اندر یہ12واں واقعہ ہے،یعنی اوسطاً ہر ماہ ایک ایسا ہی واقعہ قصور کی دھرتی پر وقوع پذیر ہوتا آ رہا ہے مگر انتظامیہ سوئی رہی،کسی میں نہ اتنی اہلیت ہے اور نہ ہی اتنا حوصلہ کہ مجرم،مجرمان کو گرفتار ہی کر پائیں۔ بفرض محال اگر پہلے واقعات میں گرفتار کر ہی لیا ،جو اس واقعہ سے پہلے تک نہیں ہوا،وگرنہ یہ وقوعہ نہ ہوتاکیونکہ ڈی این کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ مجرم ایک ہی ہے،تو کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچا؟
یہی قصور تھا جہاں 2015میں 300بچوں کے ساتھ بد فعلی کی گندی فلمیں منظر عام پر آئی تھی مگر آج تک اس کے مجرمان کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کو قرار واقعی سزا دی جا سکی،جب قانون ایسے جرائم پیشہ افراد کے گھر کی لونڈی ہو گا،تو کیسے معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی ہو سکے گی،کیسے معاشرے میں امن و امان قائم ہو سکے گا،کیسے عوام خوشحال ہو سکیں گے اور کیسے عوام سکون کی نیند سو سکیں گے؟ایسی اشرافیہ کی موجودگی میں پرامن معاشرے کا خواب آنے والی صدیوں تک بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ ہزارپا کی طرح اس ملک کے وسائل پر قابض یہ گھٹیا ترین اشرافیہ اور ان کے طبلچیوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اس معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکیں گے،ممکن ہی نہیں ۔ ایک ایسی پارلیمنٹ جس کا بنیادی کام ہی یہی ہے کہ وہ عوامی تحفظ و بہبود کے نہ صرف قوانین بنائے بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے،وہ پارلیمنٹ اوراس کے اراکین جب قوانین بنانے بیٹھتے ہیں تو کسی ایک مخصوص ’’فرد‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یا پھر پارلیمنٹ میں بیٹھے اپنے ہی ساتھیوں یا اپنے ان آلہ کاروں کے لئے قوانین بناتے ہیں،جو ریاستی وسائل کو لوٹنے میں یا عوام میں ان کے دبدبہ کو قائم رکھنے میں معاون ہوںتو یہ کیونکر ممکن ہے کہ پاکستانی ایک پر امن اور خوشحال معاشرے کا خواب بھی دیکھ سکیں۔ جنسی جرائم سے متعلق قوانین موجود ہونے کے باوجود ،جب کوئی وزیر اعظم /وزیراعلی یا وزیر اپنے حمائیتیوں پر دست شفقت رکھنا نہیں بھولتا،پولیس کے اہلکاروں پر سیاسی دباؤ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا،تفتیش کو صحیح راستے پر چلنے نہیں دیتا،ایف آئی آر میں رکاوٹیں ڈالنے سے باز نہیں آتا،مقدمے کی کارروائی کے دوران لواحقین کو ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں آتا،سرکاری وسائل/حیثیت میں متاثرہ خاندان کو تحریص و ترغیب و لالچ پر آمادہ کرنے سے باز نہیں آتا،تو کیسے ممکن ہے کہ اس میں ملوث ان کی اولاد یا ان کے کارندوں کی دیدہ دلیری کو لگام ڈالی جا سکے ؟جب ایسے واقعات میں ملوث افراد یہ جانتے ہیں کہ ان کے بڑے اپنے اثرورسوخ سے انہیں ننگ انسانیت جرائم سے بھی صاف بچا لیں گے تو کون سا خوف انہیں جرائم سے باز رکھ سکتا ہے؟کیسے عوامی نمائندے ہیں کہ فقط دوام اقتدار کی خاطر ،اپنے ہی ووٹروں پر ایسے درندوں کو کھلا چھوڑے ہوئے ہیںٔشرم و حیا نام کی کوئی چیز ان میں موجود ہی نہیں،کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ ایسے ہوس پرستوں کے شکم پری میں لقمہ حرام روز اول سے ہی شامل ہے؟مجھے تو شرم آتی ہے کہ کس طرح ان عظیم ہستیوں کی مثال ان بے غیرتوں کے سامنے رکھوں کہ جن ؐکا فرمان ہے کہ اگر محمدکی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ؐاس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا،کس طرح ان بے حسوں کے سامنے یہ بیان کروں کہ تم سے پہلے قومیں اس لئے برباد ہوئیں کہ وہ اپنے طاقتوروں کو سزائیں نہیں دیتی تھی،کن الفاظ میں عمربن خطابؓکا یہ ارشاد دہراؤں کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمرؓ سے جواب طلب کیا جائے گا۔ 
افزائش نسل کیلئے قدرت نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور اگر حیوانوں میں دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وقت سے پہلے کسی نر حیوان نے مادہ کے ساتھ ملاپ کرنے کی کوشش بھی کی ہو جبکہ دوسری طرف حضرت انسان ،جسے اللہ رب العزت نے عقل سلیم سے سرفراز کرکے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا،جسے اپنا نائب/خلیفہ بنا کر اس کرہ ارض پر بھیجا،جسے رشتوں کی پہچان کروا دی گئی،اچھائی برائی کا سبق ازبر کروا دیا گیا، حلال و حرام کی تمیز بتا دی گئی،جائز و ناجائز کا فرق بتا دیا گیا،ایک کامل ترین ہستیؐ کو نمونہ بنا کر اس کرہ ارض پر قیامت تک مثال بنا کر بھیجا گیااور ساتھ ہی یہ ارشادبھی فرما دیا گیا کہ ’’میرے بندے‘‘ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اپنے نفس کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے(مفہوم)کہ اس دنیا میں یہی امتحان ہے اوراس نا فرمانی کرنے والے کی سزا تک بتا دی گئی لیکن محمدکے پیروکاروں میں خود غرض انسانوں نے اس دنیا کی کوئی برائی نہیں چھوڑی۔ قبل ازاسلام کی وہ تمام برائیاں جو آمد اسلام کے بعد منع فرما دی گئی ،پھر اپنا لی گئی ہیں،آج یہ نا فرمان آخرت بھی بھول چکے ہیں اور کئی ایک تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آخرت کس نے دیکھی ہے(استغفر اللہ) کہ اس کے بغیر ایک کلمہ گو کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا،اللہ کریم انہیں ہدایت دے۔ حالانکہ بڑے واضح اور کھلے الفاظ میں اللہ کریم نے اپنی آخری کتاب میں ان سر پھرے نافرمانوں کی سزاؤں کا اظہار کیا ہے کہ کیسے کیسے عذاب اللہ نے منکرین پر نازل کئے،جو اپنے تئیں بہت فرعون بنے پھرتے تھے،کس طرح مختلف جرائم /گناہوںپر انہیں سزائیں دی جاتی تھی جو واضح نظر آتی تھی ۔اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور ان سزاؤںمیں انسانی دھڑ پر کسی جانور کی شکل نظر آتی جو اس بدکردار کے جرم کا تعین کرتی۔ سرکار دوعالم ؐ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ اللہ رب العزت سے رو رو کر اپنی امت کے لئے ایسی سزاؤں کو رکوا دیا وگرنہ آج ہمارے معاشرے میں خال ہی چند افراد ایسے ملتے جو اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہوتے۔ زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم پر اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہے بلکہ لغت بھی اس ظلم کو بیان کرنے سے قاصر ہے کہ درندوں کی موجودگی میں درندگی نہیں تو اور کیا ہوگا!
 

شیئر:

متعلقہ خبریں