Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسپتال مریض سے زیادہ بیمار ہے

وسعت اللہ خان 
کوئی دن جاتا ہے جب کسی اخبار ، چینل یا سوشل میڈیا پر ایسی خبر نہ آتی ہو کہ فلاں بچے کو ایک پیچیدہ بیماری ہے جس کا علاج صرف بیرونِ ملک ممکن ہے مگر یہ علاج والدین کی استطاعت سے باہر ہے لہذا خدا کے نام پر کوئی 20 لاکھ روپے کا انتظام کردے۔
جب بھی کہیں دہشتگردی کی واردات میں لوگ مرتے ہیں تو متعلقہ وزیرِ اعلیٰ واردات کی رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہدایات دینا بھی نہیں بھولتا کہ زخمیوں کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔
حالانکہ متعدد سرکاری اسپتالوں میں نہایت قابل ڈاکٹر اور سرجن او پی ڈی بھی کرتے ہیں ، آپریشنز بھی ہوتے ہیں،اس کے باوجود سرکاری اسکول ہو کہ سرکاری اسپتال، پہلا خیال بھیڑ بھاڑ ، خستہ حالی ، عدم توجہی اور وسائل کی کمی کا آتا ہے مگر محرومی اس قدر زیادہ ہے کہ یہ ادھ موئے سرکاری اسپتال بھی مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
مثلاً کوئٹہ کا سرکاری اسپتال جہاں قندھار اور سیکڑوں میل پرے پنجگور تک سے مریض آتے ہیں کیونکہ اتنے بڑے جغرافیائی دائرے میں یہی ایک ڈھنگ کی بڑی طبی سہولت میسر ہے۔اسی طرح رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں 200کلومیٹر پرے کشمور ، دریا پار راجن پور حتیٰ کہ بلوچستان کے علاقے سبی تک سے مریض لائے جاتے ہیں۔
اس ملک میں ایسے خدا ترس مخیر حضرات بھی ہیں جنہوں نے اپنے بل بوتے پر یا اپنے جیسے لوگوں کے تعاون سے بہترین فلاحی اسپتال بنائے تاکہ تھوڑی بہت تنگی اور خرچے سے اپنا اور بال بچوں کا علاج کرانے کے قابل ہو سکیں۔
کراچی کی حد تک میں ڈاکٹر ادیب الحسن کے قائم کردہ زندہ طبی معجزے ’’سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی‘‘ سے واقف ہوں جہاں کوئی وی آئی پی کلچر نہیں۔آپ کون ہیں ،کہاں سے آئے ہیں کوئی نہیں پوچھتا۔بس نمبر اور باری کی اہمیت ہے۔اسی طرح کورنگی میں انڈس اسپتال میں کم آمدنی والے لوگوں کے لئے معیاری علاج کی سہولت کی خبر سنی ہے۔امراضِ قلب کیلئے فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں ٹبا اسپتال کی شہرت ہے۔لاہور میں شوکت خانم کینسر اسپتال کے بارے میں بھی ایسا ہی گمان ہے۔
مگر صحت کے شعبے کی ضرورت اس قدر وسیع ہے کہ تمام مخیرمل کے بھی یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے حالانکہ حکومت کی دلی خواہش تو یہی ہے کہ اپنے سر سے جتنا بوجھ اتار سکے،بہتر ہے۔کچھ مقامات پر یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ باگ کسی نیک فلاحی مقصد کیلئے پیسے خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔
جیسے چند برس پہلے ضلع بہاولپور کے ایک زرعی قصبے خیرپور ٹامبے والی جانا ہوا۔یہ دیکھ کے حیرانی ہوئی کہ تقریباً ہر گلی میں ایک مسجد بنی ہوئی تھی جبکہ شہر کے بیچوں بیچ بڑی سی جامع مسجد اور اتنا ہی بڑا مدرسہ بھی موجود ہے۔میری امام صاحب سے ملاقات ہوئی جو مدرسے کے مہتمم بھی تھے۔میں نے جاننا چاہا کہ یہ قصبہ کہ جس کی آبادی زیادہ سے زیادہ 50 ہزار ہوگی۔ ہر گلی میں مسجد کیوں ؟ حالانکہ اتنی بڑی جامع مسجد بھی تو ہے۔فرمایاکہ یہاں سے لوگ بڑی تعداد میں محنت مزدوری کیلئے خلیجی ممالک جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ زیادہ پیسے کما لیتے ہیں تو جب بھی چھٹیاں گزارنے گھر لوٹتے ہیں تو مجھے کسی نئی مسجد کی تعمیر کا فریضہ اور چندہ سونپ دیتے ہیں۔ اللہ کا گھر بنانے سے بہتر ان پیسوں کا بھلا کیا مصرف ہوسکتا ہے۔
میں نے ہمت کر کے مہتمم صاحب سے پوچھا کہ کبھی انہوں نے کسی کو مشورہ دیا کہ تم اب اس پیسے سے ایک اچھی سی لائبریری یا فلاحی شفا خانہ بنا دوتاکہ خلقِ خدا کو آرام اور تمہیں ثوابِ جاریہ ملتا رہے۔مہتمم صاحب نے فرمایا کہ بات تو آپ کی مناسب ہے مگر لوگ اپنا پیسہ مسجد کی تعمیر میں لگانا بہتر سمجھتے ہیں۔ویسے بھی اسپتال یا لائبریری وغیرہ بنانا تو حکومت کا کام ہے۔
میں نے مہتمم صاحب سے پوچھا کہ آپ کے مدرسے سے ماشاللہ ہر سال کتنے سند یافتہ طلبا فارغ ہوتے ہیں۔فرمایا کہ لگ بھگ 50کے قریب طلبا تعلیم مکمل کرتے ہیں۔آپ کو جان کے خوشی ہوگی کہ اس وقت قصبے میں جتنی بھی مساجد ہیں ان میں سے 80  فیصد میں میرے مدرسے کے فارغ التحصیل طلبا ہی امامت کے فرائص انجام دے رہے ہیں۔میں نے سبحان اللہ کہا اور معانقہ کر کے باہر نکل آیا۔
ایک تو صحت کا قومی بجٹ ہی 2 ،ڈھائی فیصد ہے جس کا بیشتر حصہ تنخواہوں اور مراعات میں چلاجاتا ہے۔اسکے باوجود پاکستانیوں کو اگر سرکاری طبی شعبے میں تھوڑی بہت سہولتیں میسر ہیں بھی تو زیادہ تر بڑے شہروں اور قصبوں کی حد تک۔
مثلاً میں ایسے کئی دور دَراز علاقوں سے واقف ہوں جہاں کے بنیادی صحت مراکز میں ایکسرے مشین تو ہے مگر نہ جانے کب سے بند پڑی ہے۔سبب یہ ہے کہ کوئی پرزہ کہ جس کی قیمت چند سو یا چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں،دستیاب نہیں۔اگر دستیاب ہے تو اسے خریدنے کیلئے بجٹ نہیں۔اگر بجٹ میسر بھی آجائے اور ایکسرے مشین پھر سے کارآمد بھی ہوجائے تو پھر بھی اسلئے ساکت رہتی ہے کہ ٹیکنیشین صاحب کا تقرر نہیں ہو سکا یا پرانے ٹیکنیشین نے اپنا تبادلہ کہیں اور کرا لیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی محروم قصبے میں بالکل سامنے کے بازار میں کوئی گائنا کالوجسٹ ، بہت سے جنرل پریکٹیشنرز اور 3,2 لیڈی ڈاکٹروں کے کلینک بھی نظر آجائیں گے اور ان میں نہ ختم ہونے والا رش بھی۔
ایسے دگرگوں طبی حالات کے ہوتے اگر ہمارے وزیر ، ارکانِ پارلیمان ، بیوروکریٹس اور جرنیل بہ امرمجبوری اپنے علاج معالجے اور طبی معائنے کیلئے دبئی ، لندن یا نیویارک وغیرہ چلے بھی جاتے ہیں تو آخر سرکاری خزانے پر کتنا بوجھ پڑ جاتا ہوگا ؟ یہی بے چاری اشرافیہ اگر کسی سرکاری اسپتال میں علاج کروانے آ جائے تو آپ ہی لوگ آسمان سر پر اٹھا لیں گے کہ یہاں تو ہم عوام کو ڈاکٹر ، دوا دَارو اور بستر  کے لالے پڑے ہیں اوپر سے وزیرِ اعظم صاحب بھی ان وسائل پر بوجھ بننے آ گئے۔
کیا آپ کو کسی کل چَین ہے بھی یا ہمیشہ اشرافیہ کی نیت پر شبہہ ہی کرتے رہیں گے ؟ 
 
 

شیئر: