Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ کیا شبنم کا قطرہ کہہ گیا ہے ::سمندر تلملا کر رہ گیا ہے

ریاض میںسفارتخانہ¿ ہند کے زیر انصرام جشن جمہوریہ کے سلسلے کا یادگار مشاعرہ
ڈاکٹر شفیق ندوی۔ریاض
مشاعروں کا صرف اردو زبان کی ترویج ہی میں نہیں بلکہ شعرو ادب کی تشکیل میںبھی اہم کردار رہاہے۔ مشاعرے کب اور کیسے شروع ہوئے اسکی تاریخ اور پس پردہ محرکات کاکماحقہ احاطہ خاصا مشکل کام ہے لیکن اس امر واقعہ کے تسلیم کرنے میں شاید ہی کسی ادب دوست کو کوئی تامل ہو کہ مشاعروں نے مغل سلطنت کے آخری دورمیں ادبی درسگاہوں کی حیثیت حاصل کرلی تھی ۔ خوش مزاج اور خوشحال ،باذوق، مالدار گھرانوںنیز رئیس زادوں اور صاحبزادگان کے دیوان عام شعر وادب کی ترویج کے معتبر مراکز تھے جہاںپرزبان کی تشکیل ہواکرتی تھی اور ان کے منتظمین کو ادبی مسائل میں بڑی حدتک مرجعیت حاصل تھی۔ مشاعروں کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا گیا اور اس تعلق سے راحت اندوری کاپی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ خاصہ کی چیز ہے ۔ساتھ ہی خواتین کے مشاعروں پر ایک پرمغز تحریر زاہدہ حناکا تحریرکردہ مضمون بھی تاریخی حوالہ جات کے دائرے میں آتاہے اور جس کو انہوں نے سلیم جعفری کے مشاعرہ شاعرات کے زیر عنوان لکھا بھی تھا اور سنایابھی۔ منجملہ اور سامعین کے میں نے بھی اسے خاص دلجمعی سے سنا تھااور سنتابھی کیسے نہیں ،ایک تو زاہدہ حناکی آواز اور اس پر طرفہ تماشا ان کے پڑھنے کا ساحرانہ انداز۔ یوں کہئے کہ غالب کا شعر عکس بندی کے ساتھ سامنے ہولیکن: 
مشاعروں میں عوامی شمولیت نیز منتظمین مشاعرہ کی مصلحت کوشی نے بڑی حدتک اس تاریخی مرجعیت کاستیا ناس کردیااور رہی سہی کسر ترقی پسند تحریک کے نظریاتی نمائندوں کی زبان و بیان کے تئےں مصلحت آمیز رحجان نے پور کردی اور دھیرے دھیرے مشاعرے ادبی مرجعیت کی بجائے عوامی تفریح کامہذب نیز شگفتہ ذریعہ بن گئے۔ بات یہ قابل قبول تھی اگر بعد کے دنوں میں تو یہی مشاعرے تہذیبی اظہار سے ڈھلک کر عوامی تفریحات کا وسیلہ نہ بن جاتے اور پارلیمانی نیز اسمبلی انتخابی مہم کی ناگزیر ضرورت نہ ہوجاتے جن میں وہ شعراءاور شاعرات بلائے جاتے ہیںجوعوامی ربط کے ہر معیار کو پورا توکرتے ہیں لیکن شاید باید ہی انکی شاعری سے اردو زبان و ادب کو کسی نوعیت کا فائدہ ہوتاہے ۔
انڈین انٹرنیشنل اسکول کے آڈیٹوریم میںایک عالی شان مشاعرہ منعقد کیاگیا۔ گوکہ مشاعرہ گاہ انڈین انٹرنیشل اسکول کا ثقافتی ہال تھی مگر اسے ہندوستانی سفارتخانے نے برپا کیا تھا۔ یہ مشاعرہ بنیادی طور پر بیرون ہند اردو بستیوں میں جشن جمہوریہ کی ایک کڑی تھا۔ یہ مشاعرہ اس حوالہ سے بھی ایک تاریخی حیثیت کا حامل تھا کہ اس میں وہ شعراءمدعو کئے گئے تھے جنہیں سننے والے بالعموم عوامی مشاعروں میںنہیں ہوتے۔ اسی لئے اس مرتبہ بھی بعض مننتظمین اور حاضرین کو یہ خدشہ اور اندیشہ دامن گیر ررہا کہ کہیں یہ مشاعرہ بھی عام سامعین کی بے اعتنائی شکار نہ ہوجائے لیکن داد دینی پڑے گی منتظمین مشاعرہ اور بڑی حد تک باذوق سامعین کوکہ جن کے تعاون اور پذیرائی سے یہ مشاعرہ غیر شعوری طور پر اپنی خشت اولیں ہی سے کامیابی کی بلندیوں کی طرف گامزن ہوگیا۔زیادتی ہوگی اگر ناظم مشاعرہ ابرار کاشف کی دانشورانہ نظامت کو داد نہ دی جائے جنہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد کاخلاقانہ استعمال کرتے ہوئے شاعروں کی فہرست کچھ اس طرح مرتب کی کہ شعراءمرحلہ وار ازخود سامعین کے گلے کا خوبصورت ہار بنتے چلے گئے اور وقت کے ساتھ ایسا لگنے لگا کہ جو شاعر جہاں ہے ،وہی اسکی فطری جگہ ہے ۔یہاں موقع کی مناسبت سے اس حقیقت کا اعادہ ضروری ہے کہ اس بزم ریختہ کی باگ ڈور سفارتخانہ¿ ہند میں بر سرعہدہ مامور سفارتکار فرسٹ سیکرےٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن کے تجربہ کار ہاتھوں میں تھی یا مشرقی اترپردیش کے روزمرہ کے مطابق یہ کہئے کہ محترم اس مشاعرہ کے تن تنہا سروے سروا تھے اور متعین وقت پر سفیر ہندکے مشاعرہ گاہ پہنچتے ہی اسٹیج پرپہنچ گئے اور خوبصورت انداز سے جلد ہی سامعین کو مشاعرہ گاہ سے اس طرح باندھ دیا کہ دیکھتے دیکھتے ساری کرسیوں پر وہ سامعین جلوہ افروز ہوگئے جن کی آمدکا مشاعرہ گا ہ کو انتظار تھا۔ حفظ الرحمن نے ابتدائی ،واجبی تعارفی کلمات سے شعراءکو شہ نشیں پر مدعو کیا جو اس بار روایتی انداز تکیہ، گاو¿تکیہ کی بجائے کرسیوں سے آراستہ و پیراستہ تھی۔
اسٹیج پر شعراءکی آمد کس ترتیب سے تھی کچھ یاد نہیں لیکن جو شعراءشہ نشیں کی زینت بنے اور جن کا منتظمین ، حاضرین نیز سامعین نے بھر پور تالیوں سے استقبال کیااور جنہوں نے اپنے اپنے مقام پر مشاعرے کے ادبی معیار میں اضافہ اور سامعین کے ذوق سماعت کی آبیاری کی، ان میں مظفر حنفی، وسیم بریلوی، فیاض فاروقی، لیاقت جعفری، اقبال اشہر ، سردار سلیم، ندیم شاد ، نعیم فراز ،ابرار کاشف اور ایک خاتون شاعرہ علینا عترت شامل تھیں۔ اس فہرست پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو بلاتکلف کہاجاسکتاہے کہ ان دس شعراءمیں 6 عدد شعراءتو وہی ہیںجو تواتر کے ساتھ خلیج نیز اردوبستیوں کے مشاعروں کے سکہ بند ناموں میں شامل ہیں ۔رہے باقی 4نام لیاقت جعفری، نعیم شاد، نعیم فراز اور ابرار کا شف، یہ گوکہ سامعین کے لئے نئے تھے مگرہر اعتبار سے منجھے ہوئے تھے اور اپنے کلام کی پختگی نیز اظہار سے انہوں نے یہ حقیقت ثابت بھی کی کہ مشاعروں کے ادبی حوالے سے انہیں سستے میں نہیں لیا جاسکتا۔
مشاعرے کی نظامت کا قرعہ فال اس بار ابرار کاشف کے نام رہا۔ میں ذاتی طور پر پہلی بار ان کی نظامت سے متعارف ہوا۔ نظامت کیلئے ان کی آواز مناسب ہے ۔گوکہ موقع بہ موقع یہ احساس ہوتا رہا کہ موصوف کا نظامتی تجربہ نیا ہے نیز ابھی تک ان کا اپنا کوئی انداز نہیں ہے۔ کہیں وہ ثقلین حید ر لگتے تو کہیں ایسا لگتا کہ غیبی جونپوری نیا ویزا لے کر ریاض آدھمکے ہیں اور کبھی کبھی تو انکے انداز پر مجلسی خطابت کا رنگ چڑھا نظر آتا ۔ انہوں نے ابتداءمیں حمدیہ نیز نعتیہ اشعار کے توسط سے ہال کی فضا کو مشاعرے کے ماحول کیلئے ہموار کیا اور ندیم شاد کو دعوت سخن دی۔ انہوں نے نعت طیبہ سے مشاعرے کی ابتداءکی اور سامعین مشاعرہ کو خوبصورتی کے ساتھ شہ نشیں سے اس طرح جوڑ دیا کہ ناظم مشاعرہ کا کام بڑی حدتک آسان ہوگیا۔ ہندوستانی ناظمین مشاعرہ کی ایک عام ”بہو چرچت “عادت یہ ہے کہ وہ بیچ بیچ میں اس قبیل کے اشعار سناتے رہتے ہیں جس سے شاعر اور سامعین کے ما بین حائل خلیج فطری طور پر بھر تی جائے اور شہ نشیں سے ان کا تعلق استوار بھی رہے۔ کچھ اسی کوشش میں ابرار کاشف کے درج ذیل اشعار کا ذکر کیا جاسکتاہے :
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی بار اس کو بلایا کہ گلا بیٹھ گیا
بطور پیش بندی ناظم مشاعرہ نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے کسی مصلحت کے زیر اثر اقبال اشہر کو مائیک پر آنے کی دعوت دی اوران سے درخواست گزار ہوئے کہ وہ اپنی مشہور زمانہ نظم” اردو ہے میرا نام“ سے سامعین کے ذوق سماعت کی ضیافت کریں۔ انہوں نے بطور تمہید جوش ملیح آباد ی کی غیر مطبوعہ نظم”اردو“ کے درج ذیل بندسامعین کی نذر کئے:
ندی کا موڑ چشمہ شیریں کا زیرو بم
چادر شب نجوم کی شبنم کا رقص نم
 موتی کی آب گل کی مہک ، ماہ نو کاخم
 ان سب کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے تو
 کتنے حسیں افق سے ہویدا ہوئی ہے تو 
لہجہ ملیح ہے کہ نمک خوار ہوں تیرا
 صحت زبان میں ہے ،میں بیمار ہوں تیرا 
 آزاد شہر ہوں کہ گرفتار ہوں تیرا
تیرے کرم سے شعرو سخن کا امام ہوں 
لوگوں پہ خندہ زن ہوں کہ تیرا غلام ہوں 
اور موقع کی مناسبت سے عوامی دلداری کے لئے راحت کے درج ذیل شعر سے سامعین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی : 
ایسی سردی ہے کہ سورج بھی دہائی مانگے 
جو ہو پردیس میں وہ کس سے رضائی مانگے
اقبال اشہر کے بعد ناظم مشاعرہ نے نعیم فراز کو دعوت سخن دی جنہوں نے کچھ متفرق اشعار کے بعد ایک مکمل غزل سامعین کے گوش گزار کی جس کے کچھ اشعار یہ ہیں:
یاد ماضی میں کھوگئی ہو کیا 
تم بھی مجھ جیسی ہوگئی ہو کیا
آج مس کال تک نہیں آئی 
منتظر ہوں میں! سوگئی ہو کیا
اس غزل کو سنتے وقت نہ جانے کیوں غیر شعوری طورپر جون ایلیا کا لہجہ پس منظر میں محسوس ہونے لگا۔ نعیم فراز کو سامعین کی خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ خاص طور پر اس شعر پر تو ہال تالیوں کی گونج میں ڈوب گیا: 
تم کو حق بات جو کہنے کی بہت عادت ہے
تختہ دار پر جانے کا ارادہ ہے کیا
نعیم فراز کے بعد باری تھی سردار سلیم کی جن کو ناظم مشاعرہ نے حسب عادت دعوت سخن دی۔ سردارسلیم کی شاعرانہ حیثیت مستحکم ہے اور وہ شعری اظہار کے حوالہ سے معاصر شعراءمیں سر فہرست ہیں۔ ان کے یہاں روایت کاپاس و لحاظ تو رہتا ہی ہے۔ ساتھ میں عصری آگہی اوراظہار کی تازگی نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ انہوں نے جستہ جستہ کئی غزلیں سنائیں جن کو سامعین مشاعرہ نے بھرپور داد سے نوازا۔ شعر ملاحظہ ہوں: 
یہ کیا شبنم کا قطرہ کہہ گیا ہے 
سمندر تلملا کر رہ گیا ہے 
پتہ شہر وفا کا پوچھتے ہو 
یہ اسٹیشن تو پیچھے رہ گیا ہے
٭٭٭
 نہ خنجر سے ، نہ پتھر سے، نہ گالی سے یہ زخمی ہے
ہمارا دل کسی کے ہونٹ کی لالی سے زخمی ہے 
٭٭٭
 مجھے معلوم تھا یہ جرم کرجائیں گے ہم دونوں
کہ اپنے اپنے وعدوں سے مکر جائیںگے ہم دونوں
اگر چلتے چلے جائیں گے یوں ہی چاند کے پیچھے
تو پھر یہ رات گزرے گی، نہ گھرجائیںگے ہم دونوں
سردار کی یہ ریاض میں دوسری آمد تھی ۔ پچھلے مشاعرے میں بھی انہیں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ یوں بھی ان کاشمار اندرون ملک معتبر شعراءمیں ہوتاہے۔ سنا ہے کہ آج کل اتحاد مسلمین کے ترجمان روزنامے سے منسلک ہیں اور اس کے ادبی صفحے کے نگراں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
سردار کے بعد باری تھی ندیم شاد ۔ان کے نعتیہ اشعار سے مشاعرے کا آغاز ہوا تھا۔ انہوں نے غزلوں سے سامعین کی بھرپور ضیافت کی، ان کے جن اشعار پر سامعین کا رد عمل قابل توجہ تھا، انہیں ملاحظہ کر کے آپ بھی لطف اٹھایئے: 
ہواعادی نہیں ہے مشوروں کی 
چراغوں کو ہی سمجھانا پڑے گا 
زباں سے تو سمجھتا ہی نہیں ہے 
تجھے ہاتھوں سے سمجھانا پڑے گا 
یہ اشعار بھی سامعین کی سماعتوں پر کھرے اترے۔ آپ سامعین بھی دیکھیں: 
ہو بے گناہ تو ہونے سے کچھ نہیں ہوگا
ُµثبوت دیجیے رونے سے کچھ نہیں ہوگا 
دیا دیے سے جلاﺅتو روشنی ہوگی 
دیا زمین میں بونے سے کچھ نہیں ہوگا
اس مشاعرے میں ایک نام لیاقت جعفری کا بھی تھا۔ محترم لہجے کی تازگی کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ دہلی ، ہریانہ، پنجاب کے مشاعروں میں وہ کامیاب دیکھے گئے ہیں۔ ریختہ گروپ والے بھی ان کی شاعری کی تازہ کاری سے متاثر ہیں ۔ناظمین مشاعرہ ان کے لہجے کی تازگی ، عصری حسیت اور کلاسیکیت کے حوالوں سے ان کا تعارف کراتے ہیں۔ ناظم مشاعرہ کے تعارفی کلمات کے بعدوہ مائیک پر حاضر ہوئے، بطور نمونہ چند اشعار پیش ہیں: 
ہواﺅں میں بکھرجانے سے پہلے 
دھواں زندہ تھا مرجانے سے پہلے 
وطن لوٹا تو قبرستان پہنچا 
مہاجر اپنے گھر جانے سے پہلے 
کشمیر کے رہنے والے ہیں۔ اس لئے وہی آﺅ بھاﺅ ان کے برتاﺅ میں غیر شعوری طور پر محسوس کیا جاسکتاہے ان کی جو غزل سامعین کی توجہ کا مرکز رہی اس کے کچھ اشعار : 
کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا
ایک ہی شخص سے دوبار محبت کرنا 
جس کو تم چاہو! کوئی اور نہ چاہے اس کو
اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا 
حالات اور موقعے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے فیاض فاروقی کی شاعری سے کما حقہ استفادہ کی دانشمندانہ کوشش کی اور روایتی انداز سے مختصر تعارف کے بعد مائیک ان کے حوالہ کردیا اور خود ناظم مشاعرہ کی نشست پر واپس کھسک گئے۔ ان کی اس شائستگی نیز شگفتہ اور مہذب انداز کے پیچھے شاید یہ محرک رہا ہوگا کہ فاروقی آئی پی ایس افسر ہیں۔ ہریانہ، پنجاپ کے علاقوں میں آئی جی کے عہدے پر فائز تو ہیں ہی، انکاو¿نٹر ایکسپرٹ بھی ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ پولیس والوں کے سامنے جتنا کم بولا جائے ،اتناہی بہتر ہے ۔ فاروقی پہلے بھی ریاض آچکے ہیں اور کامیاب رہے ہیں۔ الٰہ آباد کے رہنے والے ہیں۔ فارسی میں ایم اے ہیں اس لئے معیاری، کلاسیکی اور عصری شاعرانہ معقول تلازمات سے سجی ہوئی شاعری کرتے ہیں جوسب کے لئے قابل فہم اورقابل قبول ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار سے نہ صرف یہ کہ مشاعرے کی ادبی اہمیت میں اضافہ کیا بلکہ اس شاعرانہ رحجان جس کو بروقت ہندوستان میں غزل کا نیوکلاسیک رحجان کہا جاتاہے، مزید تقویت اور استحکام فراہم کیا اور جب تک پوڈیم پر رہے ،سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔آپ بھی ان کے چنندہ اشعار سے لطف اٹھایئے: 
 ہر ایک کہانی کا بدل لے کے کھڑے ہیں
ہم جرم کی دنیا میں غزل لے کے کھڑے ہیں
٭٭٭
 اس کو سورج کا، ستاروں کا پیام آتاہے
خود اُجالے کو اُجالوں کا سلام آتا ہے
عشق سے مجھ کو نہ روکو ابھی دنیا والو
مجھ کو لے دے یہی ایک تو کام آتا ہے
٭٭٭
 سمت منزل کبھی جاتے کبھی اڑجاتے ہیں 
راستے یوں بھی مسافر سے بگڑ جاتے ہیں
شہر امید بساتا ہے یہ آکر سورج
شام ہوتی ہے توسب خیمے اکھڑجاتے ہیں 
زندہ ہونے کا پتہ دیتی ہے نرمی ورنہ
بعد مرنے کے تو سب جسم اکڑجاتے ہیں
علینا عترت اس مشاعرے کی یکا و تنہا شاعرہ تھیں ۔ ان کاتعارف ناظم مشاعرہ نے انتہائی خلوص سے کرایا اورپروین شاکر کے اس شعر کے ساتھ انہیں دعوت سخن دی: 
بادبان کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا 
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنار دیکھنا
علینا مشرقیت سراپا بن کر مائیک پر آئیں
 
 اوراسی تہذیبی رواداری ، رکھ رکھاو¿ کے ساتھ اپنی نشست پر واپس جابیٹھیں۔آپ اشعار پڑھئے اور فیصلہ کیجئے کہ اگر آپ سامعین کی صفوں میں ہوتے توکس بردباری کا مظاہرہ کرتے: 
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی جائے 
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپالی جائے
جب زمیں ریت کی مانند سرکتی دیکھو
آسماں تھام لو، اور جان بچالی جائے 
کیوں نہ سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو
نرم چھاو¿ں میں کڑی دھوپ ملالی جائے 
ان کے بعد ناظم مشاعرہ نے بطور شاعرخود سامعین کی سماعتوں کی ضیافت کرنے کی ٹھانی او ر پتہ چلا کہ موصوف خاصے کامیاب رہے، چونکہ میں ذاتی طور کسی منصبی ذمہ داری کے زیر اثر مشاعرہ گاہ سے باہر تھا ،اس لئے ان کے وہ اشعار قلم بند نہ کرسکا جس پر سامعین نے مشاعرہ گاہ اپنے سروں پر اٹھالی تھی اور اس کا اندازہ اس ماحول کو دیکھ کر ہوا جو مشاعرہ گاہ میں ابرار کاشف کے جانے کے بعد قائم رہا جو میںنے واپس آنے بعد دیکھا جس کو یقینا مجموعی طور پر کامیابی کا استعارہ کہا جاسکتاہے۔ 
مشاعرہ اختتام کی منزلوں کی طرف تیزی سے محو سفر تھا۔ رات کا کوئی ایک بجنے والا تھااور باری تھی مشاعروں کے دوبڑے نام یعنی وسیم بریلوی اور مظفر حنفی کی۔ وسیم بریلوی مائیک پر تشریف لائے لیکن انہوں نے اس بار وہ اشعار نہیں سنائے جس سے انکے آشاوادی ہونے کا ثبوت ملتا اورجو انکے شعروں کا امتیاز ہے ۔ آپ قارئین کو معلوم ہے کہ وسیم بریلوی یوپی اسمبلی کے ایوان بالا کے ممبر ہیں اور ہم میں سے بہتیر ے اس تلخ سیاسی حقیقت سے واقف ہیں کہ ایوان بالا کی کتنی عوام دشمن قراردادیں ایسی ہوتی ہیں جن کی بھنک عوام کو برسوں نہیں ہوتی لیکن حلفیہ اقرار ناموں کے دباﺅ میں ان پر نہ تو کھلا تبصرہ کیا جاسکتا ہے اور نہ عوام کو ان سے آگاہ کیا سکتاہے ۔وسیم بریلوی کے اشعار میں اس ناامیدی کو صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے:
 تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے 
ہم تو وہ ہیں کہ جو چہروں سے دکھائی دیں گے
ہم کو محسوس کیا جاتاہے خوشبو کی طرح 
ہم کوئی شور نہیں ہیں کہ سنائی دیں گے
پچھلی صف ہی میں سہی ، ہیں تو اسی محفل میں
آپ دیکھیں گے تو ہم خود ہی دکھائی دیکھیں گے
فیصلہ لکھا ہوا رکھا تھا پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں دکھائی دیں گے 
اس آخری شعر کا مضمون بازار معیشت سے پہلے شعراءکا پسندیدہ موضوع تھا :
اسی کا شہر ، وہی محتسب ، وہی قاتل 
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
٭٭٭
سلوک اہل وطن سے میں خوش نہیں لیکن 
سلوک اہل وطن حوصلہ شکن بھی نہیں 
اب کہاں ڈھونڈنے جائےں گے ہمارے قاتل 
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
ہندوستان کے موجودہ سیاسی نیز آر ایس ایس کی مسلم مخالف سیاست کے تناظر میں اگر مذکور بالا اشعار پر سرسری نظر ڈالی جائے تو بآسانی اس بات کا اندازہ لگا یا سکتا ہے کہ بھاچپا حکومت کے صرف 3سال میں مسلمان دانشوروں اور ادیبوں کی صفوں میں سیاسی مایوسی کس حد تک سرایت کر چکی ہے اوریہ اشعار تو گویا اس صورت حال پر تاریخی شناخت اورقانونی مہر ہیں: 
بے بسی کا جشن تو کھل کر منانے دیجئے
میری ان آنکھوں تلک آنسو تو آنے دیجئے 
٭٭٭
پیار سیکھا تھا، وفاداری کی مجبوری نہ تھی
میں اگر روٹھوں تو اس کو بھی منانا چاہئے
وسیم بریلوی کے بعد مشاعرے کے استاد شاعر مظفر حنفی کی باری تھی۔مظفر حنفی غزل میں ایک خاص لہجے اور آہنگ کے نمائند شاعرہ ہیں اور وہ اسی حوالے سے شعری حلقوں میں جانے جاتے اور بلائے جاتے ہیں۔ اس مشاعرے میں بھی لوگوں نے توجہ سے انہیں سنا اور ان کے اشعار پر پسندیدگی کا اظہار بھی کیا حالانکہ رات پورے طور پر بھیگ چکی تھی اور لوگوں کو نماز فجر نیز جمعہ کا خیال بھی دامن گیر تھا لیکن ان کے معیاری اشعار نیز دلکش پیرایہ¿ اظہار اور منفرد لفظیات نے سامعین کو مشاعرہ گا ہ سے باندھے رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ حنفی صاحب بطور کامیاب شاعر شہ نشیںسے عوامی قدردانی اور پذیرائی کے ساتھ رخصت ہوئے حالانکہ جس افتاد کی شاعری وہ کرتے ہیں وہ عوامی مشاعروں میں کم ہی پذیرائی پاتی ہے اور شاید اسی لئے وہ جذبات سے مغلوب ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ مختلف افتاد کے معیاری شعراءکا یہ مشاعرہ جس قدر کامیاب ہوا اس کی مثال مشاعروں کی بھیڑ میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ چونکہ وہ صدر مشاعرہ تھے اس لئے ہم قارئین کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی ان کے اشعار کو اسی پذیرائی سے سرفراز کریں جس کا پرخلوص مظاہر ہ سامعین مشاعرہ نے مشاعرہ گا ہ میں ان کے اشعار کے تئیں کیا اور بھر پور تالیوں اور داد سے ان کو نوازا ۔ اشعار پیش خدمت:
ہمارے خواب اپنے ہیں نہ غم کی ڈور اپنی ہے
لکیریں تو سنہری ہیں مگر کمزور ہاتھوں میں
ہمیں تقدیر نے موج تلاطم میںدھکیلاہے 
ہمارا آب و دانہ لکھ دیا ہے چور ہاتھوں میں
  اور اس طرح ایک مشاعرہ خدشات و اندیشوں کے جھکولے سے ابھر کر سرخروئی کے ساتھ کامیابی کے پرسکوں ساحل پرجا پہنچا جس کے لئے سفارت خانہ ہندکے منتظمین اور بطور خاص فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن یقینا بجا طور پرستائش کے مستحق ہیں ۔ 
 

شیئر: