Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنا استادی سیاست کا کیا مزہ !

***وسعت اللہ خان ***
  ایک شکاری سے ایک ساحلی بستی کے لڑ کے نے پوچھا: استاد جی! میں چھوٹے موٹے پرندے تو زندہ پکڑ لیتا ہوں مگر بگلہ آج تک نہیں پکڑ سکا۔شکاری نے کہا: یہ تو بہت آسان ہے۔جب بھی تم کسی چٹان پر بگلہ بیٹھے دیکھو تو دبے پاؤں اسکے پیچھے جاؤ ، سر پر موم بتی رکھ کر جلا دو۔ موم کے پگھلتے قطرے بگلے کی آنکھوں میں پڑنے سے وہ نابینا ہو جائیگا۔اسکے بعد آرام سے گردن سے پکڑو اور تھیلے میں ڈال لو۔                                
لڑکے نے پوچھا :استاد جی ایک بات تو بتاؤ۔جب میں بگلے کے اتنا نزدیک پہنچ جاؤں تو پھر سر پر موم بتی رکھنے کی کیا ضرورت۔ ڈائریکٹ گردن کیوں نہ دبوچ لوں ؟ شکاری نے کہا کہ بات تو تیری ٹھیک ہے بچے پر اس طرح بگلہ پکڑنا کوئی فن کاری تو نہ ہوئی۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں جب بھی کوئی مالی و اخلاقی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو عام طور سے ملکی ادارے ہی اس کی تحقیقات کرتے ہیں۔جیسے امریکہ میں ایف بی آئی ، اسرائیل میں پولیس بیورو ، برطانیہ میںاسکاٹ لینڈ یارڈ ، ہندمیں سی بی آئی۔بھلے کوئی کلنٹن ہو ، ایریل شیرون ہو ، ٹونی بلییر یا راجیو گاندھی۔
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ نواز شریف وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے پانامہ لیکس کی چھان بین کا کیس خود ہی بالکل شروع میں ہی نیب کے حوالے کر دیتے۔آخر نیب برسوں سے سیاستدانوں ، سابق جرنیلوں ، بیوروکریٹس ، تاجروں اور صنعت کاروں کے معاملات کی چھان بین کر ہی رہی ہے۔ کئی مقدمات کو منطقی انجام تک بھی پہنچا چکی ہے۔
پانامہ لیکس سامنے آنے سے چند ہفتے پہلے میاں صاحب نے نیب کو سخت سست سناتے ہوئے یہ تک کہا تھا کہ نیب جس طرح تاجر طبقے کو حراساں کر رہی ہے اس کے بعد ملکی و غیر ملکی پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں اور افسر ضروری فائلوں پر دستخط سے گھبرا رہے ہیں۔اپنے تحفظات کے باوجود اگر وزیرِ اعظم پانامہ کیس کی چھان بین کا کام نیب کے حوالے کر دیتے تو حزبِ اختلاف بھی ایک خود مختار آئینی ادارے کے ہاتھوں اس کیس کی چھان بین کی بہت زیادہ مخالفت نہ کر پاتی۔
مگر میاں صاحب نے کسی وجہ سے نیب کا راستہ نہیں اپنایا۔انہوں نے پہلے خود ہی قوم سے بعجلت خطاب میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے پانامہ لیکس کی گیند کو کسی ریٹائرڈ جج کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔ جب سپریم کورٹ کے ججوں نے یکے بعد دیگرے پانامہ لیکس کا گرم آلو پکڑنے سے انکار کردیا تو پھرا سکینڈل کا فٹ بال کھلے میدان میں چھوڑ دیا گیا۔یوں بھانت بھانت کی فرمائشی ککیں اس فٹ بال پر پڑنا شروع ہوگئیں۔عمران خان ، اسفند یار ولی اور سراج الحق وغیرہ کی ضد تھی کہ تحقیقاتی کمیشن سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس اور دیگر برادر ججوں پر مشتمل ہوجبکہ چیف جسٹس نے بھی اشارہ دیا کہ عدالت کا کام مقدمہ سننا ہے۔چھان بین انتظامی اداروں کا کام ہے۔
حکومت نے معاملے کی سنجیدگی کی شدت اپنے تئیں کم رکھنے کیلئے کم ازکم 2 قیمتی ہفتے گیند کو کھیلنے کے بجائے اسے الزامی آسٹرو ٹرف پر ڈفلیکٹ کرنے یا ادھر ادھر باؤنڈری لائن سے باہر پھینکنے میں ضائع کر دئیے اور پھر چار و ناچار عدالتِ عظمیٰ سے دوبارہ مدد لینے کا فیصلہ ایسے کیا جیسے بھولے کو اس کا باپ ٹیکہ لگوانے کیلئے کھینچتا  ہوا کمپاؤنڈر تک لے جائے۔
اس دوران تجاویزاتی میچ میں غیر سیاسی فریق بھی اپنا حصہ ڈالنے لگے جیسے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے صدارتی آرڈیننس کے تحت نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بدعنوانی کے تحت جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا کر بیرونی دنیا سے شواہد جمع کر سکے۔
پیپلز پارٹی سے وابستہ کئی نام بھی چونکہ پانامہ لیکس کا حصہ تھے لہذا حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے برعکس پیپلز پارٹی کھل کے نہ تو کوئی آزادانہ موقف اپنا سکتی تھی اور نہ خاموش رہنے کی پوزیشن میں تھی چنانچہ اس نے درمیانی راستہ چنا۔وہ ایک پارلیمانی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی جسے مالیاتی امور کے فورنزک ماہرین کا تعاون حاصل ہو۔
مگر مسلم لیگ ن کی جانب سے معاملے کو الزامیہ و جوابی الزامیہ دھول میں چھپاتے ہوئے شاید یہ بھی خیال ہواہو کہ حزبِ اختلاف کا کنفیوژن ایک طرح سے اسکے حق میں جائیگا۔نہ اپوزیشن کسی ایک طریقے پر متفق ہو گی نہ تحقیقات کی رادھا ناچے گی۔دوسری جانب اپوزیشن بھی اس سارے مسئلے کو مالیاتی تکنیکی انداز سے دیکھنے کے بجائے نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کے ایک سنہری موقع کی طرح استعمال کر رہی تھی۔
سیدھی سیدھی بات ہے کہ نواز شریف کو خاندان پر آنے والے حرف کی رضاکارانہ چھان بین کا خیال وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے آ جاتا تو شاید انہیں آج یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’مجھے کیوں نکالا ’’۔مگر وہ میاں صاحب ہی کیا جو ایک سادہ سی سامنے کی بات کو بھی جلیبی نہ بنا سکیںبالکل اس میزبان کی طرح جس نے مہمان سے پوچھا: چائے پیجئے گا ؟ مہمان نہ کہا جی پی لیں گے۔میزبان نے کہا کپ میں یا گلاس میں۔مہمان نے کہا کپ میں۔میزبان نے کہا کپ پلاسٹک کا بھی ہے اور چائنا کلے کا بھی۔مہمان نے کہا چائنا کلے ٹھیک رہے گا۔میزبان نے کہا میڈ ان پاکستان ٹی کپ میں یا برٹش میڈ ؟ ۔مہمان نے کہا برٹش چل جائے گا۔ میزبان نے کہا برٹش ٹی سیٹ بھی میرے پاس دو طرح کے ہیں، سادہ بھی اور پھولدار بھی۔میزبان نے کہا پھولدار اچھا لگے گا۔میزبان نے کہا بس جیسے ہی باورچی آتا ہے میں چائے بنواتا ہوں۔مہمان نے کہا مجھے بھی کوئی جلدی نہیں۔
شاید مسلم لیگ ن بھی حزبِ اختلاف اور عدلیہ کو پانامہ کپ میں ایسی ہی چائے پیش کرنا چاہ رہی تھی۔
  میں نے منیر نیازی کے بڑے بڑے عاشق دیکھے مگر پچھلے35 برس میں نواز شریف جیسا نہیں دیکھا۔
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو 
اسے آواز دینی ہو ، اسے واپس بلانا ہو 
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو 
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو 
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں 
 

شیئر: