Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ دور یادگار رہا جب تدریس سے وابستہ تھی، زینت النسا

 گھر کو نظر اندازکرکے معاشرے کی بہتری کا بیڑا اٹھانادرست نہیں،ہوا کے دوش پر گفتگو
 زینت شکیل۔جدہ 
کائنات کی ہر چیز اپنے خالق کی تسبیح کرتی ہے۔ جن و انس کو معبود برحق نے فہم عطافرمایا ہے اور انتخاب کا حق عنایت فرمایا ہے۔ فہم انتخاب کا حق رکھتی ہے اور انتخاب معیار کی گواہی دیتا ہے ۔ذہانت سے انسان سمت اختیار کرتا ہے اور سمت منزل کا تعین کرتی ہے۔علم زندگی کا شعور عطا کرتا ہے، انسان کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی طرف متوجہ کرتاہے۔اس دنیا میں آنے کے مقصد کو اپنی زندگی کا مرکز
اور محور بنانے کی طرف راغب کرتاہے ۔اسی سلسلے میں ”ہوا کے دوش پر“ ہماری گفتگو محترمہ زینت النساءغنی سے ہوئی۔ انکا کہنا تھاکہ انسان علم کی وجہ سے ہی معزز ماناگیا ہے اور علم ہی سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ ہم باہم متحد ہو کر ہر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ اس سے قوم کے اتحاد و اتفاق کا اجتماعی تصور ذہن میں ابھرتا ہے ۔ افراد کا اتحاد ریاست کی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ 
تھر کے علاقہ ڈیپلو سے تعلق رکھنے والی زینت غنی صاحبہ نے اپنے بچپن کو ایسے یاد کیا جیسا کہ کوئی روح کو جلادینے والے حَسیں دبستان کا ذکر ہو۔اپنے نصف صدی کے تجربات کو انہوں نے نصف گھنٹے میں بیان کر دیا۔ علاقے کی پسماندگی اور دگر گوںحالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ساتویں جماعت تک لڑکوں کے ا سکول میں امتحان دیا کیونکہ اس زمانے میں وہاں لڑکیوں کا اسکول تک نہیں تھااور وہ اسکول ساتویں تک ہی تھا۔ 
ڈیپلو کے تمام طلباءو طالبات بورڈ کا امتحان دینے حیدر آباد جاتے تھے۔ اپنی ہم جماعت رحمت کاظم کے ساتھ ملکر ہم نے ڈیپلو میں اسکول کھولا تاکہ وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ قائم ہوجائے۔ والد کے انتقال کے بعد چاچا احمد علی نے بہت خیال رکھا ۔ماموں اسکول کے پرنسپل تھے ۔
1971ءمیں ہندوستان سے جنگ ہوئی اور ہمارا آدھا ملک ”مشرقی پاکستان“ ہمارے ہاتھ سے چلا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگ ٹھٹھہ آگئے وہاں بھی علاقے میں اسکول کھلوانے کا کا م کیا۔ اس میں بورڈ آفس کے ڈائریکٹر ایجوکیشن نے ہماری بہت مدد کی۔ وہاں کی پہلی ہیڈ مسٹریس بنیں۔مسلم ہسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی اسکول میں ہی پڑھاتی رہیں۔
محترم ڈاکٹر غنی میمن سے شادی کے بعد انکے کورس کے سلسلے میں جب ڈاکٹر صاحب کو اسکالر شپ کی پیش کش ہوئی توانہیں فیملی ویزا ملا۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس سال بھر کے کورس کے دوران ” یونیورسٹی آف بیروت ”میں جہاں انہیں تعلیمی ماحول سے آگاہی ملی وہیںانہیں بہترین معاشرتی نظام سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اپنے ملک کی ثقافت سے دنیا کو آگاہ کرنے کا خیال بھی دل میں جاگزیں ہوا اور مقامی رسالے میں متواتر مضامین لکھے۔ اس رسالے کے نام کا اردو میں مطلب تھا کہ ”پڑھو“۔انہوں نے اپنے مضامین کے ذریعے قارئین کو سندھی میمن ثقافت کے بارے میں آگہی دی۔اپنے مقامی رسم و رواج سے محبت کرنے والی شخصیت نے آج بھی اپنے لباس کے ذریعہ سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کا سلسلہ موقوف نہیں کیا۔
مزید پڑھئے:حق کی حقانیت جاننے کے لئے ایمان ضروری ہے، فرحین سعد
انہوں نے اپنی والدہ کا بہت محبت سے ذکر کیا کہ انہوں نے ہم لوگوں کو یہی سکھایا کہ پہلے اپنے گھر کی ذمہ داری پوری کرو،پھر معاشرے کی ذمہ داری اٹھاﺅ لیکن آج کی اکثریت اپنے گھر کو نظر اندازکرکے معاشرے کی بہتری کا بیڑا اٹھانے کی فکر کرتی ہے ، یہ کسی طور درست نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ پہلے وہ کام کریں جوہماری ذمہ داری ہیں اورہمارے فرائض میں شامل ہیں۔ ان کاموں کے بعدہی اپنی سہولت کے مطابق ملکی ترقی میں حصہ لیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ انکی بیگم نہایت سلجھی ہوئی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے احباب میں منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ بچوں کی تربیت میں انکی کاوش بہت زیادہ رہی۔3 بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔
زینت النساءصاحبہ کا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں کی جہاں ذمہ داری ہے کہ طلباءو طالبات کی تعلیم و تربیت پر بھرپو ر توجہ دی جائے وہیں انہیںان کے وطن ، اس کی محبت اور ثقافت سے روشناس کرانا بھی ازبس ضروری ہے۔ انہوں نے اس دور کو بہت ولولہ انگیز انداز میں یادکیا جب وہ یہاں کے اسکول میں معلمہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دور یادگار رہا جب میں تدریس سے وابستہ تھی،بچوں کو درس دینا میری ذمہ داری تھی اوروہ تمام قومی دنوں پرحب الوطنی کے بھرپور جذبے کے ساتھ طالبات کے لئے پروگرام ترتیب دیا کرتی تھیں ۔ 
محترمہ زینت النساءکی صاحبزادی فائمہ شادی کے بعد کینیڈا جا چکی ہیں ۔ دوسری بیٹی عاصمہ نے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد تعلیمی شعبے کو اپنے لئے منتخب کیا ۔ وہ اپنے بچوں کو یہی بتاتی ہیں کہ تم لوگ نانا جان اور نانی جان سے اچھی اچھی باتیں سیکھو ۔یہ باتیں اور پرانے واقعات کتابوں میں نہیں ملتے۔ یہ سب انکے زندگی بھر کے تجربات ہیںجن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔ ان کے تجربات یہی درس دیتے ہیں کہ جب انسان کوشش کرتا ہے تو چند افراد کی کوشش بھی بار آور ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر گاﺅں دیہات کے لوگوں کواپنے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔کسی بھی جگہ کی ترقی، تعلیم کی ترقی میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔
تیسری صاحبزادی وسیمہ میمن نے اعلیٰ تعلیم کے بعد جاب کرنا شروع کی اورایک وقت تک گھراور جاب دونوں کومینج کرتی رہیں پھر انہوں نے بچوں کی خاطر جاب کو خیر باد کہہ دیا۔ جب بھی موقع ملتا ہے ، ان کے بچے اپنے ناناجان اور نانی جان کے یہاں وقت گزارتے ہیں۔سب سے چھوٹی بیٹی بھی والدین کی بہترین تربیت کا نمونہ پیش کرتی ہیں جبکہ زینت النساءکے صاحب زادے فوادبھی اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں ۔وہ اپنے ذاتی کاروبار کی ترقی کے حوالے سے اپنے والدین کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہیں۔
زینت النساءمیمن ، اپنے شریک حیات ڈاکٹر عبدالغنی میمن کی بہترین الفاظ میں مدح سرائی کرتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ دنیا میں 
بے شمار تعلیمی شعبہ جات ہیں اور اسی حساب سے مختلف مضامین مثلاًاقتصادی،تعلیمی،معاشرتی،تمدنی ،ثقافتی،فنی،تاریخی،سائنسی وغیرہ ہیں لیکن میڈیسن کا شعبہ ایسا ہے کہ آپ اس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کی تکلیف ختم یا کم کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اوربلا شبہ یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت شمار ہوتی ہے۔
یقینی بات ہے کہ جہاں لوگوں کی عمومی صحت اچھی ہو گی وہاں مسائل بھی کم ہونگے اور ملک ترقی کا سفر تیزی سے طے کرے گا۔ انسان کاتدبر اسے عمل کی قوت دیتاہے ۔کوئی بھی تعلیمی شعبہ ہو، اگر اس میں شوق اور لگن سے کام کیا جائے تو ترقی یقینی ہے۔ 
ادب کے حوالے سے بات ہوئی تومحترمہ زینت النساءکو کئی نام ازبر تھے لیکن ان میں پروفیسر عبدالغفور شہباز کی غزل انہوں نے خصوصی طور پر پسندیدہ قرار دی جوپیش خدمت ہے:
ہوئی جبکہ اس سے ملاقات گہری
 تو ہونے لگی شوق کی بات گہری
جواہر پہ اپنے اپھڑتا نہیں ہے 
سمندر کی بے شبہ ہے ذات گہری
گھٹا سے کہو اپنا دامن سنبھالے 
مچائی ہے آنکھوں نے برسات گہری
جو آگے کو شہباز چاہو ابھرنا 
کرو اب تلافی مافات گہری
 منتخب غزل
خورشید کے خم میںمئے سرجوش ہوئی دھوپ
پھر عقل ہو ئی ہوش ہوئی گوش ہوئی دھوپ
آئی تھی کہ سورج کی کرے اپنے بڑائی 
کیا جانئے کیا دیکھ کے خاموش ہوئی دھوپ
بالوں کی سیاہی پہ سفیدی لگی چڑھنے
دن ڈھل گیا سائے سے ہم آغوش ہو ئی دھوپ 
 غفلت میں جو سوتے تھے پڑے ان کو جگایا
 سرمایہ¿ عقل وخرد و ہوش ہوئی دھوپ
 سمجھو کہ شفق منہ پہ مسرت کی ہے سرخی
 دن بھر کے فرائض سے سبکدوش ہوئی دھوپ
چمکائے ہیں خورشید نے داغ دل شہباز 
مثل پر طاﺅ س زری پوش ہوئی دھوپ 
ڈاکٹر صاحب اور انکی اہلیہ اس حوالے سے بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی شادی کو50برس سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے ۔
 

شیئر: