Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرد معاشرہ

***محمد مبشر انوار***
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ...اماں حوا کو بابا آدم کی پسلی سے پیدا فرما کر اللہ نے حضرت انسان کا نہ صرف جو ڑا پیدا فرمایا بلکہ اسی لمحے مرد کو تا قیامت عورت کا کفیل اور اس سے برتر بھی کر دیا۔ عورت کا وجود ،مرد کیلئے تسکین کا باعث ٹھہرا،تو مرد کیلئے بھی یہ لازم قر ار دیدیا گیا کہ عورت پر نہ تو ظلم و ستم کرے اور نہ ہی اسکا کسی بھی حوالے سے استحصال کرے۔ عورت ہر رشتے میں مرد کیلئے قا بل تکر یم و تحسین ٹھہری تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیاکہ مرد کی پیروی اور تعمیلِ حکم عورت کو بھی لازم ہے۔نیک عورت کا ساتھ دنیا میں جنت ملنے کے برابر قرار دیا گیاکہ ایسی عورت جو اپنے مرد کی غیر موجودگی میں اسکے بستر کی حفاظت کرتی ہے،کو جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ مرد کی مر د ا نگی یہ ہے کہ وہ کسی بھی رشتے میںزیر کفالت عورت کی ہر جائز ضرورت کو پورا کرے اور فرمانِ نبی ہے کہ جس نے 2بچیوں کی پرور ش کی ،اس کیلئے جنت لازم ہے لیکن کیا زیر کفالت بچی،لڑکی یا عورت کی ضروریات فقط جنت کے حصول میں پوری کی جانی چاہئیں یا یہ مرد کی اخلاقی ذ مہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت خواتین کی ضروریات کو پورا کرے؟فی زمانہ جب آسائشیں بنیادی ضروریات کا درجہ اختیار کر چکی ہوں او ر وسائل دن بدن سکڑتے جا رہے ہوں،اس پس منظر میں بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک کنبے میں فقط کمانیوالا ایک ہاتھ ان ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے،تب ایک نوجوان لڑکی /خاتون کو میدانِ عمل میں نکلنا پڑتا ہے تا کہ وہ اپنے کنبے کی ضروریات پوری کرنے میں اپنا کردار نبھائے،یاکوئی ناگہانی صورتحال کسی عورت کو ذریعہ معاش کی ذمہ داری اٹھانے کی خاطر میدانِ کارِزار میں قدم رکھنے پر مجبور کرتی ہے کہ گھر کا اکلوتا کمانے والا دنیا میں نہ رہا ہو اور دوسرا مرد ابھی اس قابل نہ ہو  یا گھر میں کوئی دوسرا مرد ہی موجود نہ ہو،تب ایک گھریلو خاتون کو مردوں کی اس منڈی میں باہر نکلنا پڑتا ہے۔ بنیادی طور پر ایک فلاحی معاشرے میں (زیادہ بہتر الفاظ میں ایک اسلامی فلا حی معاشریٍ میں)یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے خاندانوں کی کفالت کرے مگر افسوس ایسی کسی بھی اسلامی فلاحی ریاست کا وجود فی الوقت کرۂ ارض پر موجود نہیںلہذا کئی ایسی خواتین کو بہ امر مجبوری ـپیٹ کا ایندھن بھرنے کی خاطر گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھنا پڑتا ہے ۔
گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہی بیمار ذہن معاشرے کے ’’بیمارمرد‘‘ اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیںاور حیلے بہانے،چرب زبانی،سبزباغ دکھاتے ہوئے اس کھلونے سے کھیلنے کی کوششوں میں جت جاتے ہیں۔ ان بیمار ذہنوں میں ایسے بھی ہیںجو دیکھتے ہیں ،کچھ ذومعنی فقرے چست کرتے ہیں،کچھ براہ راست مطلب کی بات پر آتے ہیں۔ گھٹن زدہ معاشرے کے گھٹن زدہ باسیوں کی طرح اپنی مالی حیثیت سے کسی مجبور و بے کس کا استحصال کرتے ہیں ۔انکے نزدیک مغربی سرمایہ دارانہ معاشرے کی طرز پر ’’کوئی بھی کھانا مفت نہیں ملتا‘‘اور قیمت کے عوض ایک مجبور عورت کو جنس بازار بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ مغرب زدہ یہ سرمایہ کار بھول جاتے ہیں کہ مغرب میں قانون کس طرح بروئے کار آتا ہے۔ وہاں بھی دیسی سرمایہ کار کسی خاتون کا اس طرح استحصال کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ وہاں کے قوانین ان کو نانی یاد کروا دیتے ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی دفتری امر میں کوئی بھی سرمایہ کار اپنی کسی خاتون ساتھی کو ہراساں کر سکے ،کہ ثابت ہونے پر لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف مشرقی معاشرے کی دم توڑتی ،مگر ابھی بھی کسی قدرموجود روایات، کسی عورت کو سرِ بازار لٹ جانے کے باوجود دہائی دینے سے روکتی ہیں۔قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے سے منع کرتی ہیں کہ ایسا کرنے سے ایک اور اذیت ناک دور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بہتری اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ خاموش رہا جائے۔ در حقیقت خاموشی کے پیچھے ،حالات اور معاشرے کا جبر پنہاں ہیں کہ اس تعفن زدہ اور سنی سنائی پر یقین کرنے والے معاشرے میںیکطرفہ طور پر فیصلہ سنانے والے یہی فیصلہ سناتے نظر آتے ہیں کہ سارا قصور ہی عورت کا ہے۔ایک خاتون کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لٹنے کے باوجود خود کو بے قصور ثابت کرسکے۔قوانین کے مطابق اپنے مقدمے میں ایسے ایسے سوالات کا سامنا کر سکے ،جو اس کی رہی سہی ’’عزت نفس ‘‘ کا جنازہ بھرے بازار نکال دیں۔
حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب عورتوں کے حقوق کی نمائندگان کے ساتھ بھی ایسی گھٹیا حرکات ہوتی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ مسلم ممالک اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کے بارے میں کیسے کیسے نازیبا کلمات ان کے مخالفین کہا کرتے تھے۔نجی محفلیں ہوتیں یا عوامی اجتماع،پارلیمنٹ کا ایوان ہوتا یا پریس کانفرنسیں، ایسے رکیک جملے کسے جاتے کہ الامان الحفیظ۔نامور خواتین کیساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔ انہیں قانون کے سامنے کس طرح رگیدا گیا(میں کسی کا نام بھی یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا کہ ایسے مقدمات ’’بیمار ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں‘‘)،کس ملزم کو سزا ہوئی؟البتہ یہ ضرور ہوا کہ اپنے وقت کی نامور خواتین اس ملک کو ہی چھوڑ گئیں۔ آج بھی جبرو دھونس کی مکمل آزادی نظر آتی ہے کہ ایک فنکارہ اگر پرفارم کرنے سے انکار کردے تو اس کو گھر میں گھس کر قتل کر دو،کون پوچھنے والا ہے؟پارلیمنٹ میں آج بھی خواتین اراکین کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے ،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔مخالفت میں کسی بھی حد تک گزر جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ انتہائی نا مناسب الفاظ پارلیمنٹ کے فلور پرخواتین ممبرز کے متعلق کہے جاتے ہیں۔انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ مردانگی کی دلیل رعب و دبدبہ میں ڈھونڈی جاتی ہے۔
یہاں ایک قصہ/کہاوت برمحل ہے جو مردانگی کا مطلب سمجھانے کی خاطر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک شخص کسی حکیم کے پاس اپنے علاج کی خاطر گیا اور بیان کیا کہ میری بیوی مجھے اکثر ’’نامرد‘‘ کہتی ہے براہ کرم میرا علاج کریں۔ حکیم نے اسے چند پڑیاں استعمال کرنے کیلئے دیں۔چند ہفتوں بعد وہی شخص دوبارہ حکیم کے پاس آیا اور اپنی شکایت دہرائی،حکیم نے اسے دوبارہ چند پڑیاں استعمال کرنے کیلئے دیں مگر چند دنوں بعد وہ شخص پھر ’’علاج‘‘ کی خاطر حکیم کے پاس حاضر ہو گیا۔ حکیم خود صورتحال سے پریشان ہو گیا اور اپنے مریض سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لائے،اگلی مرتبہ دونوں میاں بیوی حکیم کے پاس حاضر ہوئے تو حکیم کے پوچھنے پر خاتون نے نہ صرف اپنے خاوند بلکہ حکیم کو بھی اچھی خاصی سنا دیں ۔ خاتون کا استدلال تھا کہ اپنے میکے میں اس نے کبھی بھی اپنے والد یا بھائیوں کے منہ سے خواتین کو گندی گالیاں دیتے نہیں سنا تھا جبکہ اس کا خاوند اسے بچوں کے سامنے انتہائی نازیبا الفاظ میں پکارتا ہے۔ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ اسکے خاوند کا سر شرم سے جھک گیا اور حکیم اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
حقیقت یہی ہے کہ عورت جس کی زیر کفالت ہے ،اس سے تعظیم و تکریم چاہتی ہے،عورت کے نزدیک مرد کی ’’مردانگی‘‘ یہی ہے کہ اسکے ساتھ کسی بھی رشتے میں موجود مرد اس کی عزت کرے،اس کو اس کا صحیح مقام دے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں