Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گزارش

***جاوید اقبال***
ایک دوست نے واٹس ایپ پر اپنے موبائل فون کے کیمرے سے پشاور کی دکان میں بنائی گئی تقریباً ایک منٹ لمبی فلم مجھے ارسال کی ہے۔ ناقابل یقین اور انتہائی اذیت ناک منظر ہے  لیکن نہیں ! میں بات کہیں اور سے شروع کرتا ہوں۔ پشاور میں بنی اس فلم کا قصہ آخر میں ہوگا۔ گراں خواب چینی سنبھل چکے ہیں۔ ان کے علم میں یہ حقیقت آچکی ہے کہ  زندہ رہنے کیلئے انہیں اپنی سرحدوں سے باہر آنا اور سمندروں میں اپنے لئے نئی راہیں یقینی بنانا ہوں گی۔ کرہ ارض پر مستقبل قریب میں رواں ہونے والے ان کے سفینوں کو  سستانے کیلئے ساحلوں پر اپنے ہی مستقر تراشنے ہوں گے۔  سری لنکا کی   ہمبا نٹوٹابندرگاہ  بحر ہند میں عالمی آبی گزرگاہ کے  سر پر کھڑی ہے۔ جنوبی چینی سمندروں کے راستے چینی بحریہ پر تنگ  ہوتے جارہے تھے۔  تب بیجنگ نے  سری لنکا کی  طرف  دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کولمبو  ضرورتمند تھا چنانچہ اس نے اپنی بندرگاہ کی  وسعت و تعمیر کے لئے 1.3 ارب ڈالر کا قرضہ چین سے حاصل کیا اور منصوبہ تکمیل کو  پہنچا  لیکن ایک  مسئلہ تھا7 برس قبل مکمل کی گئی بندرگاہ مسلسل  خسارے میں جارہی تھی۔ بیجنگ کو  قرض کی واپسی ناممکن ہوگئی تھی۔  تب چین نے سری لنکا حکومت کے سامنے تجویز رکھی کہ  بندرگاہ 99 سالہ لیز پر اسے  دیدی جائے۔ مفلس اور مقروض کیا اعتراض اٹھاتا؟  سارا منصوبہ چینی حکومت کے حو الے کردیا گیا۔ ملک میں  حزب اختلاف نے شور مچادیا۔  انہوں نے اس 99 سالہ لیز کے سودے کو اس سمجھوتے سے تشبیہ دے دی جو  ہانگ کانگ کے سلسلے میں  برطانیہ اور چین کے  درمیان طے پایا تھا۔ پوری ایک  صدی   وہ چینی جزیرہ مملکت متحدہ برطانیہ کے زیر انتظام رہا تھا۔ اس ننھے سے جزیرے کا   سودوزیاں  برطانوی سودوزیاں تھا۔ حزب  اختلاف کے مظاہروں کے بعد گزشتہ جولائی میں  چین اور سری لنکا کے درمیان  دوبارہ  مذاکرات ہوئے۔ اس گفت  و شنید کا نتیجہ یہ نکلا کہ  بندرگاہ کے 70 فیصد حصص چینی پورٹس  اتھارٹی کے حوالے کئے گئے  اور 30 فیصد کا مالک  سری لنکا کا حکومتی ادارہ  سری لنکا پورٹس اتھارٹی بن گیا۔   وزیراعظم انیل وکرما سنگھے نے اپنی بندرگاہ  چینیوں کے حوالے کرتے ہوئے اظہار مسرت کیا اور کہا کہ اس نئے  معاہدے سے قرض کی ادائیگی کا آغاز ہوجائے گا۔ اب  ہمبانٹوٹا بحر ہند کی ایک  بڑی بندرگاہ  بن کر ابھرے گی۔ اس خطے میں ایک  اقتصادی  زون قائم کیا جائے گا اور  صنعت کاری اور  سیاحت کے شعبوں کو  فروغ حاصل ہوگا  تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ  نیا معاہدہ  سری لنکا میں حکومت کے مخالفین کو مطمئن نہیں کرسکا۔ بیجنگ کیلئے  ہمبانٹوٹا بندرگاہ کا حصول  اس کے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘  منصوبے کی تکمیل کی  طرف ایک  اہم قدم ہے۔ چین ، ایشیا  ،  مشرق  وسطیٰ ، افریقہ اور یورپ کے 60ممالک کو  مربوط کرتے تجارتی رستوں کا  نیا سلک روٹ تعمیر کررہا ہے۔ کرہ ارض پر بندگاہوں کا ایک  ایسا جال تعمیر کیا جائے گا جو امریکہ کی ایک  بحری سپر پاور  ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے گا۔  اسی منصوبے میں پاکستان کی  بندرگاہ گوادر بھی شامل ہے جس میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے  تاہم چین کے اس  روز افزوں  اثر پر تنقید بھی  ہورہی ہے۔ کارینگی انسٹی ٹیوٹ کے ایک  ماہر سیاسیات کانسٹینو زیویر نے کہاہے ’’ یہی  چین کا طریقہ کار ہے۔ ایک  حاجتمند  مقامی شراکت دار  تلاش کرتا ہے  اور اس کے سامنے  سرمایہ کاری کے منصوبے  رکھ  دیتا ہے۔ ضرورت  اسے چین کی گود میں لا پھینکتی ہے۔ یہ  مجوزہ منصوبے  ایسے ہوتے ہیں جو ملک کے لئے  طویل المدتی نقصان کا باعث بنتے ہیں پھر چین اپنے ’’عطا کردہ ‘‘ قرض کا  دباؤ استعمال کرتا ہے  اور منصوبے پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے  یا ملک میں  سیاسی   مداخلت کا   رستہ صاف کرتا ہے۔  اس کی ایک مثال  مالدیپ کی ہے۔ بحرہندمیں  واقع اس ننھے ملک کی  تزویراتی اہمیت  حالیہ برسوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔  مرکزی جزیرے مالے اور اس سے تقریباً   2 کلومیٹر دور سمندر میں  ہی واقع ہل ہمالے کے جزیرے پر ہوائی اڈہ   واقع ہے۔  ان  دونوں مقامات کے  درمیان سفر ایک مسئلہ ہوتا تھا۔ ایسے ہی جیسے  مملکت  اور بحرین کے  درمیان  جسر الخلیج کی  تعمیر سے قبل تھا۔ چین آگے بڑھا۔ ستمبر 2014ء میں چینی  صدر ژی جن پنگ نے مالدیپ کا  دورہ کیا اور انہیں  حاجتمند سمجھ کر آسان  اقساط پر قرض کی پیشکش کردی۔ 21 کروڑ کے کل  اخراجات اٹھنے تھے،  پل کی تعمیر پر جن میں سے 12 کروڑ 60  لاکھ  چین نے ادا کئے۔ تعمیراتی کمپنی بھی چینی ہی تھی۔  اب جولائی 2018ء میںاس منصوبے کی تکمیل ہوگی اور  چینی رہنماؤں کی  موجودگی میں  اس کا افتتاح کردیا جائے گا۔  اس پل کو  چین مالدیپ دوستی پل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وقت  مالدیپ کی 20 فیصد آبادی  نواحات کے 188 چھوٹے جزائر میں  رہائش پذیر ہے۔  پل کے  افتتاح کے  بعد اسے ہل ہمالے جزیرے پر منتقل کردیا جائے گا۔  وہاں کاروباری  سرگرمیوں کو  فروغ ہوگا اور سیاحوں کیلئے ایک قابل دید مقام بن جائے گا۔ 1.39 کلومیٹر طویل اور 20 میٹر چوڑا یہ پل  مالدیپ جیسے کمزور اقتصاد کے  حامل ننھے سے ملک کے لئے چین کی طرف سے دی گئی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے اوراس عنایت کے عوض مالدیپ نے اپنے محسن کو اپنی  سرزمین پر ایک چینی فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ بحرہند کے عمیق نیلگوں پانیوں کو کھنگالنے اور اس فضاؤں  میںاڑتے پرندوں کے پر گننے کے لئے۔ تو گراں خواب عوامی جمہوریہ چین 2030ء تک کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور بننے کے لئے  آغاز لے چکا ہے ....... ہمبانٹوٹا ....... گوادر ........ ہل ہمالے ۔
کرہ ارض کے 4 براعظموں کے 60 ممالک کو بیجنگ کے قلب سے  اقتصادی  لہو فراہم کرنے کے خواب دیکھنے  والے ہمارے اس عظیم ہمسائے کو خالق کائنات اس کے اداروں میں  سرخرو کرے کہ بقول شاعر حالات  حاضرہ کو کئی  روز ہوگئے۔ تبدیلی انتہائی ضروری ہے۔ لیکن  ..... لیکن؟
اب  میرے واٹس ایپ پر ایک  دوست کی طرف سے بھیجی گئی فلم! انتہائی اذیت ناک منظر ہے۔ ایک دکان کے اندر پاکستانی دکاندار  پر ایک چینی خاتون تھپڑوں کی بارش کررہی ہے  اور  وہ بے چارا اپناچہرہ دائیں بائیں کرکے ضربوں سے بچنے کی کوشش کررہا  ہے۔ ایک اور چینی خاتون پاس کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے۔  اسی  دوران ایک آدمی باہر سے دکان میں آکر دکاندار کو  بچانے کی کوشش کرتا ہے تو حملہ کرنے والی خاتون  اس پر بھی جھپٹ پڑتی ہے۔ پشاور کے  دکاندار پر مہمان چینی خاتون کا حملہ! چینی زبان میں کوسنے  اور گالیاں ! اور ہم میزبان بے بس! فلم ختم ہوجاتی ہے۔
لیکن ہماری دعا ہے کہ بحر و بر پر قبضے کی جو فلم ہمارے عزیز ترین  دوست نے دنیا کو  دکھانا شروع کی ہے  اس کا کبھی  اختتام نہ ہو۔ بس ایک دست بستہ گزارش!  میزبان آپ سے صرف احترام کا خواستگار ہے۔بس ایک گزارش ! ہمالیہ سے  بلند تر اور سمندروں سے گہری دوستی کی بنیاد باہمی احترام کی خشت اول پر سے اٹھتی ہے۔  
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں