Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ہمارے بچے ہیں، مرغیاں نہیں

***تحریر۔وسعت اللہ خان ***
اب ایسی خبریں زندگی کا معمول بنتی جا رہی ہیں کہ کم سن بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش پھینک دی گئی یا شادی سے انکار پر کوہاٹ کی طالبہ اسما رانی کو کسی مجاہد آفریدی نامی نے گولی مار دی یا پھر جرگے نے کسی گاؤں میں کسی عورت کی اجتماعی زیادتی  کا حکم دے دیا اور پھر حکومت اور عدلیہ نے اس کا نوٹس لے لیا۔
ہر ایسی واردات کا مطلب ہے کہ وارداتی نے بچوں اور عورتوں سے سلوک کی بابت اللہ تعالیٰ کے احکامات و اسلامی روایات ، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر ، آئینِ پاکستان اور ریاستی رٹ  کو نذرِ آتش کیا ہے۔لیکن ریاست یہ کھلا بلاد کار سہنے کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ منٹو کے افسانے ’’ کھول دو ’’ کا مرکزی  کردار لگنے لگی ہے۔ مگر ریاست کسی خلائی مخلوق کا نام تو نہیں۔یہ تین بنیادی ستونوں میں کھڑی عمارت ہے یعنی مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ۔
کہنے کو ووٹرز لسٹ میں جتنے بھی نام درج  ہیں ان میں سے نصف خواتین کے ہیں۔چند علاقوں کو چھوڑ کے خواتین ہر انتخاب میں جوش و خروش سے حصہ بھی لیتی ہیںمگر ان ووٹوں کے بل پر منتخب ہونے والی مقننہ ( پارلیمنٹ )  کا حال یہ ہے کہ عورتوں کے تحفظ کا جو بھی قانون بنانے کی کوشش ہوتی ہے اس پر پہلا حملہ پارلیمانی اکثریت یعنی مردوں کی طرف سے ہوتا ہے۔بادلِ نخواستہ عورتوں کے حق میں قانون سازی کرنا بھی پڑ جائے تو بل یا ایکٹ کے دودھ میں اتنی مینگنیاں ڈال دی جاتی ہیں کہ قانون سازی کا مقصد ہی پانی ہوجاتا ہے۔
مثلاً 2005ء میں پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کی گئی کہ قاتل کو مقتول کے ورثا عدالت میں مقدمہ دائر ہونے کے بعد ازخود معاف نہیں کرسکتے کیونکہ اس معافی کے پیچھے لالچ اور خوف بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔تاہم اس بابت حتمی فیصلہ جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ ورثا کے درمیان ’’ تصفئیے ’’ کو تسلیم کرتا ہے کہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے کی طرح آج بھی طاقتور پارٹی ’’ تصفئیے ’’ کی سہولت اپنے حق میں استعمال کرتی ہے۔
سندھ اسمبلی نے مارچ 2013ء میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کا قانون منظور کیا۔تاہم اس پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کے لئے کوئی قابلِ عمل ڈھانچہ بشمول بائی لاز آج تک سامنے نہیں آ سکا۔گلگت بلتستان اسمبلی نے سیکرٹری قانون کی جانب سے پیش کردہ کم عمری میں شادیوں پر پابندی کا بل مسترد کر دیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی ارکانِ پارلیمان جب اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں سیمیناروں سے خطاب کرتے ہیں تو ان سے بڑا عورتوں کے حقوق کا چیمپئین کوئی نہیں ہوتا۔جب یہ سرکاری ٹکٹ پر بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ان سے زیادہ روشن تجاویز کوئی نہیں پیش کرتا۔مگر جب اپنے گاؤں میں ہوتے ہیں تو ان کی زیرِ صدارت جرگے عورتوں کی قسمت اور زندگی موت کا فیصلہ کرتے ہیں اور جب اسمبلیوں میں ووٹنگ کا وقت آتا ہے تو یہ چوڑیاں پہن لیتے ہیں۔ 
جہاں تک عدلیہ کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کئی برس پہلے جرگے کی روایت اور جرگے کے فیصلوں کے نتیجے میں ونی ، سورا اور سنگ چٹی کی روایات کو کالعدم اور غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔لیکن آج بھی جرگے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو دھڑلے سے روند رہے ہیں۔
جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل کا معاملہ ہے تو  2برس پہلے اس نے رائے دی کہ زیادتی  کیسز میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں مانا جاسکتا ( حالانکہ کئی مسلمان ممالک ڈی این اے رپورٹ کی اہمیت مان رہے ہیں )۔ہو سکتا ہے کہ زینب قتل کیس کے مجرم کی ڈی این اے پروفائلنگ کی مدد سے گرفتاری کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے نئے ارکان کونسل کی سابقہ رولنگ کا ازسرِ نو جائزہ لینے پر غور فرمائیں۔ 
ایک مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں بیک وقت اینگلو سیکسن عدالتیں ، شرعی عدالتیں اور جرگہ راج چل رہا ہے۔ان حالات میں جب عورتوں کے قتل ، غیرت ، عزت یا پسند کی شادی وغیرہ کا معاملہ آتا ہے تو حقوق کی پامالی کرنے والے کو خودبخود  سہولت مل جاتی ہے کہ اگر طاقتور ہے تو جرگے کے نام پر خود ہی قانون بن جائے یا پھر گھر کی چار دیواری کے اندر ہی گلا گھونٹ کیدفن کردے۔ چاہے تو ایس ایچ او کے مشورے سے اینگلو سیکسن عدالت کے روبرو چالان میں کمزور قانونی دفعات ڈلوا دے۔جب تک متوازی قوانین نافذ رہیں گے نا انصافی اور ظلم کا تدارک ممکن نہیں۔
بیشتر پاکستان میں انتظامیہ کا مطلب پولیس اور تھانہ ہے۔ صرف انہی کیسز پر انتظامیہ حرکت میں آتی ہے جن پر میڈیا شور مچائے اور بالا حکام خود پر سے توجہ  ہٹانے کے لئے تحقیقات کا حکم دے دیتے ہیں۔ جیسے ہی شور کم ہوتا ہے مظلوم خاندان کو چاروں طرف سے دھونس ، دھمکی اور لالچ کے ناگ گھیر لیتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جسے ہم مظلوم خاندان سمجھتے ہیں وہ بھی بعض اوقات مظلوم نہیں ہوتا۔اکثر ایسی وارداتوں میں ماں ، باپ ، بھائی ملوث ہوتے ہیں اور اپنے ہی خون کا خون کرکے ایک دوسرے کے گلے مل کے رو لیتے ہیں۔
اگر غیرت کے نام پر قتل کی سماجی روایت درست ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جو لوگ اس کے حق میں خاندانی و سماجی رواج کی دلیل لاتے ہیں اگر انہیں اپنے فعل کی صداقت پر یقین ہے تو خم ٹھونک کے کیوں نہیں کہتے کہ ہاں ہم نے قتل کیا ہے۔ ایک جانب تو تم  قتل کرو ، گلا گھونٹ دو ، لاش جلا ڈالو اور پھر اسے تسلیم کرنے کے بجائے جھوٹ بولو کہ یہ کوئی حادثہ تھا اور یہ کام ہم نے نہیں کیا۔کچھ غیرت خود کے لئے بھی تو کھاؤ۔
بات یہ ہے کہ ہم سب اندر سے شائد یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے لڑکے دیسی مرغوں کی طرح آزاد ہوں اور ہماری لڑکیاں برائلر چکن کی طرح شیڈ میں پیدا ہوں ، پنجروں میں دانہ دنکا چگتے بڑی ہوں اور پھر خاموشی سے چھری تلے آ جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اتنا مضمون باندھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔
 

شیئر: