Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

البانیا میں ایمان کی بہار آتی ہے

 البانیا میں علماء ، اسلام اور مسلمانوں پر کڑا وقت آیا،روزے رکھنے پر پابندی تھی ،مسلمانوں نے اُس دور میں بڑی قربانیاں دیں ، کمیونسٹوں نے چن چن کر مسلمانوں کو ختم کیا

* * * *

* * * *عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض* * * *
 البانیا ایک چھوٹا سا ملک ہے جو یونان سے شمال کی طرف واقع ہے۔ یہاں  سے ترکی بہت زیادہ دور نہیں۔600,500  سال پہلے کی بات ہے، اس ملک میں عثمانیوں کی بدولت اسلام کی روشنی پہنچتی ہے۔ عثمانیوں سے پہلے یہاں کے لوگوں کا مذہب کیتھولک عیسائی تھا۔ شروع شروع میں انھوں نے اسلام کی خوب مخالفت کی مگر حق کو کون روک سکتا ہے! لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔  وقت کے ساتھ ساتھ اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جاتی ہے۔ ہرطرف مساجد، مدارس بن گئے۔ علمائے کرام کے ہاتھوں میں حکومت تھی۔ پھر وہ دن بھی آتا ہے جب یہ ملک بہت سارے دیگر ملکوں کی طرح اسلامی ملک قرار پاتا ہے۔
    پہلی جنگ عظیم کے بعدجب عثمانی خلافت ختم ہوئی تو اس ملک پر اٹلی نے قبضہ کر لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنوں نے اپنا تسلط جمالیا۔ اس کے بعد یہ سویت یونین کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ ملک پر کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہو جاتی ہے، پھر اس ملک پر 60 سال ایسے گزرے ہیں کہ یہاں اسلام کی بات کرنا، سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے۔
    قارئین کرام کیلئے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا نام نیا نہیں۔ اس عظیم شخصیت نے عصر حاضر میں حدیث کی ایسی خدمت کی کہ انھیں اس دور کا مجدد شمار کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے انھیں فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا۔ یہ البانیا کے ہی رہنے والے تھے ۔جب زیادہ مظالم ہوئے تو یہ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ جان بچا کر دمشق، ہجرت کرکے آجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں اور لوگ بھی تھے جو کمیونسٹوں کے ظلم و تشدد، قتل و غارتگری سے بچنے کیلئے پڑوسی ملکوں میں پناہ لیتے ہیں۔ آج بھی دمشق میں خاصی بڑی تعداد میں البانیا کے لوگ بستے ہیں۔ ان کو مقامی شہریت مل چکی ہے۔
     البانیا جہاں کسی وقت علماء اور دین کے طالب علم رہتے اور بستے تھے ،ہاں انور خواجہ نامی حاکم مسلط ہوتا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کا شدید دشمن تھا۔ اس بدبخت نے قوت اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی شعائرکو ختم کر کے رکھ دیا۔ ایک ہزار مساجد مسمار کر دی جاتی ہیں۔ بیشتر مساجد کو یا تو گرا دیاگیا یا ان کو اسلحہ ڈپو میں تبدیل کر دیاگیا۔ بعض کو سرکاری دفاتر بنا دیا گیا۔ الغرض البانیا میں مساجد کو ملیامیٹ کر دیاگیا۔ جس نے مزاحمت کی اس کا حشر جیل یا قتل تھا۔30 مساجد کو شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
    قارئین کرام! ذرا غور کیجیے کہ وہ مقام جہاں مسلمان اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے، وہاں اب شراب پی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس قرآن پاک ہوتا تو اسے قتل یا جیل میں ڈال دیا جاتا۔ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اس درجہ تھی کہ اگر کسی کے گھر میں لوٹا پایا جاتا تو اس گھر کو مسمار کر دیا جاتا کہ اس ظالم انور خواجہ کے نزدیک لوٹا اسلام کے شعارات میں سے تھا۔ چونکہ مسلمان لوٹے سے وضو کرتے ہیں، اس لئے لوٹے کو جبراً گھروں سے نکال دیا گیا۔ عورتوں کو زبردستی پردہ سے روک دیا گیا۔ اسکول کی کتابیں اب کمیونزم کا درس دیتی تھیں۔جب مساجد نہ رہیں تو پھر شہروں اور بستیوں میں اذان کی آواز کہاں سنائی دیتی۔ البانیا میں علماء و صلحاء یا تو ہجرت کر گئے یا ان کو شہید کر دیا گیا۔ بلاشبہ اُس دور میں اسلام اور مسلمانوں پر کڑا وقت آیا تھا۔البانیا کے مسلمانوں نے اُس دور میں بڑی قربانیاں دیں۔ رمضان المبارک میں روزے رکھنے پر پابندی تھی۔جس پر شک گزرتا اسے زبردستی پانی پلا دیا جاتاتھا۔
    قارئین کرام! یہ صرف ایک البانیا کی بات نہیں بلکہ کمیونسٹوں نے جہاںجہاں حکومت کی وہاں چن چن کر مسلمانوں کو ختم کیاگیا حتیٰ کہ خاکم بدھن یہاں تک کہا گیا کہ ہم نے (معاذ اللہ) اللہ کو روسی ریاستوں سے باہر نکال دیا ہے۔
     ایمان کی قوت ایسی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہ تو ختم کر سکتی ہے نہ ہی دلوں سے نکال سکتی ہے۔ ظلم و استبداد کو 60 سال گزر چکے تھے۔ سرکاری طور پر اعلان ہوتا ہے کہ البانیا ایسا ملک ہے جس میں اب ایک بھی مسلمان نہیں۔ قوانین اس حد تک سخت بنائے گئے کہ پورے ملک میں قرآن پاک کے نسخوں کو ختم کر دیا گیا۔ کسی کو نماز پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ لوگوں کو نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بھولتا جا رہا ہے۔  60 سال اس ملک پر ایسے گزرتے ہیں کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
     وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں بتدیلی آتی ہے۔ کمیونزم اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ روس کے کئی ٹکڑے ہوئے ۔اب یہاں پر بھی جمہوریت کیلئے جلسے جلوس نکلتے ہیں۔ جب ظلم و ستم میں کمی واقع ہوئی تو متحدہ عرب امارات کے ایک عالم، جن کا نام محمد بن حمدان آل نہیان تھا ۔وہ اپنے3 ساتھیوں سمیت اس ملک کا دورہ کرتے تھے۔ وہاں جس قسم کے حالات پیش آئے اور جس حکمت کیساتھ انھوں نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا، وہ نہایت دلچسپ بھی ہے،سبق آموز اور اسکے ساتھ نہایت ایمان افروز بھی ہے۔
    متحدہ عرب امارات جسے ہم یو اے ای کے نام سے جانتے ہیں، وہاں پر جو خاندان حکومت کر رہا ہے وہ آل نہیان ہے۔ اللہ تعالیٰ جس سے اپنے دین کا کام لینا چاہے اُسے وہ اپنے دین کی خدمت کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔ محمد بن حمدان آل نہیان کے علم میں تھاکہ البانیا میں مسلمانوں پر کس قدر ظلم ہوئے ہیں۔
    یہ 1981 کی بات ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ظلم اور استبداد کا پنجہ اب کمزور ہو چکا تھا۔ سویت یونین پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ البانیا جیسے ممالک میں بڑی حکمت کیساتھ دین کو پہنچایا جائے۔ البانیا کی حکومت سے چیمبر آف کامرس کی معرفت رابطہ کیا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے ایک تجارتی وفد آپ کے ملک میں آنا چاہتا ہے تاکہ وہ دونوں ملکوں میں تجارت کو فروغ دینے اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے غور و فکر کر سکے۔ چیمبر آف کامرس دبئی کے اس خط کا بڑا مثبت جواب دیا جاتا ہے۔ انہیں البانیا آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور وہ دن بھی آتا ہے کہ امارتی وفد کا یوگو سلاویہ کی سرحد پر بڑی گرم جوشی سے استقبال ہوتا ہے۔ گاڑیوں کا بیڑا موجود ہے۔ پور ے پروٹوکول کیساتھ ان کو امیگریشن کے مراحل سے فارغ کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ5 منٹ کے اندر وفد کے ارکان کو ویزا لگاکر ان کے ہاتھ میں پاسپورٹ تھما دئیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کی اہمیت اپنی جگہ مگر آپ کے ہمراہ سامان کی چیکنگ آپ کو کروانا ہو گی۔
     کسٹم آفیسر مسافروں کا سامان بڑی دقت سے چیک کرتے ہیں۔ مسافروں کی غیر معمولی چیکنگ ہوتی ہے۔ ایک ایک چیز دیکھی جاتی ہے۔ شیخ محمد اس روز 2بیگ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ایک بیگ میں روز مرہ کی اشیاء اور پہننے کے کپڑے تھے۔ دوسرے بیگ میں قرآن پاک کے مترجم نسخے تھے۔شیخ محمد کو سامان سمیت علیحدہ کمرے میں بلوایا جاتا ہے۔ اب اس کمرے میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ آئیے یہ تمام باتیں شیخ محمد بن حمدان آل نہیان کی زبانی سنتے ہیں۔
    میں اپنے دونوں بیگ لے کر متعلقہ آفیسر کے سامنے پیش ہوا۔ اس نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ پہلا بیگ کھولنے کا حکم دیا۔ میں نے اسے کھولا، اس میں روز مرہ کی اشیاء اور کپڑے تھے۔ آفیسر کے پہلو میں پستول جھول رہا تھا۔ اس نے کپڑوں کو سرسری نگاہ سے دیکھا۔ اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا کہ کوئی ممنوع چیز تو نہیں۔ اشارہ کیا کہ اسے اٹھا لو اب دوسرا بیگ کھولو۔ اس بیگ میں قرآن پاک کے نسخے تھے۔ میں نے بیگ کی زپ کھولی۔ اندر قرآن پاک کے نسخے نظر آ رہے تھے۔ آفیسر نے قہر بھری نظروں سے مجھے دیکھا۔
     یہ کیا ہے؟ وہ غصے سے دھاڑا۔میں نے جواب دیا کہ یہ رب کا کلام ہے۔ اس افسر کا میرے ساتھ سلوک ایسا تھا کہ گویا میں نے نہایت ممنوعہ چیز اس کے سامنے رکھ دی ہو۔ اس کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ وہ چیخ رہا تھا۔ تمھیں معلوم نہیں ہمارے ملک میں قرآن پاک ممنوع ہے۔ ہمارے دستور میں سب سے بڑا جرم کسی شخص کے پاس قرآن پاک کا نسخہ پایا جانا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ کے ملک میں کسی شخص کے پاس قرآن کا پایا جانا اتنا بڑا جرم ہے۔ کہنے لگے کہ ذرا ٹھہرو! میرا انتظار کرو۔ اس کے پاس پستول تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ابھی وہ پستول چلا کر مجھے ختم کر دے گا کیونکہ ان کے ہاں سب سے بڑا جرم کسی شخص کے پاس قرآن کا پایا جانا ہے اور میںاکبر مجرم اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ ذرا دیر کے لئے باہر جاتا ہے۔ دائیں بائیں دیکھا۔ جب اطمینان کر لیا کہ اسے کوئی دیکھنے والا نہیں تو اس نے کمرے کے دروازے کو بند کیا۔ اس پر چٹخنی چڑھائی۔ کھڑکیوں پر پردوں کو سیدھا کیا۔ میری طرف بڑھا ۔میں نے اسے دیکھا وہ ایک معصوم بچے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو چہرے پر بہہ رہے تھے۔
     کہنے لگاکہ کیا ایسا ممکن ہے کہ مجھے اللہ کے کلام کا ایک نسخہ عطا کردو۔ میں نے تعجب سے اس سے کہا کہ ابھی تم کہہ رہے تھے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا جرم کسی کے پاس قرآن پاک کا نسخہ پایا جانا ہے اور اب تم مجھ سے قرآن کریم مانگ رہے ہو۔
    کہنے لگے:تمہاری بات درست ہے مگر میں اس پر تیار ہوں کہ کوئی میری گردن محض اس وجہ سے اڑا دے کہ قرآن پاک کا نسخہ میری جیب میں ہے یا قرآن مجھ سے برآمد ہوا ہے۔
     ہمیں کفر پر مجبور کیا گیا تھا۔ میرے دادا جان البانیا کے بڑے علماء میں سے تھے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسے کفر کر سکتے تھے، مگر ہمیں اس قدر مجبور کیا گیا کہ ہم نے اسلام کو چھوڑ دیا۔ لاؤ قرآن پاک کا ایک نسخہ مجھے دے دو۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ قرآن پاک ہے جو صرف مسلمانوں اور پاک لوگوں کو ہی دیا جاتا ہے۔
    میں نے اس سے سوال کیا: کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور کہنے لگا کہ ہاں میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ وہ مجھے کمرے میں چھوڑ کر جاتا ہے۔ جسم کو پاک کرکے آتا ہے۔ کلمۂ شہادت پڑھتا ہے ۔میں نے اسے کلمہ پڑھایا ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ ‘‘اب وہ مسلمان تھا۔ میں نے اسے قرآن پاک کا ایک نسخہ پیش کیا۔ وہ اس قدر خوش تھاکہ گویا اسے نہایت قیمتی چیز مل گئی ہے۔ اس نے قرآن پاک کو اپنے سینے سے لگایا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ زار و قطار آنسو بہا رہا ہے۔ وہ رو رہا ہے۔ بار بار قرآن پاک کو دیکھ رہا ہے، اسے چوم رہا ہے، کہہ رہا ہے کہ یہ میرے رب کا کلام ہے۔ ہاں یہ ہے میرے رب کا قرآن۔
     شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اس قوم کے لوگوں کو دین اسلام کے ساتھ اس قدر محبت اور پیار ہے تو اس قوم میں ابھی خیر باقی ہے، ہمیں نہایت حکمت کے ساتھ اس ملک میں دین کی دعوت دینی ہے۔
    ہم تینوں دوست تیرانا شہر کے مشہور ہوٹل میں منتقل ہو گئے۔ قارئین کرام! اس وفد کے قائد شیخ محمد بن حمدان نے امریکہ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لی ہوئی ہے، وہ انگلش زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس سفر کے دوران انھوں نے ساری گفتگو انگلش زبان میں ہی کی ۔
    شیخ فرماتے ہیں:اگلے روز ہماری ملاقات وزیر تجارت کے ساتھ طے تھی۔ ہم ان سے خاصی دیر تجارتی مذاکرات کرتے رہے۔ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو بڑھانے پر غور و فکر کیا گیا۔ وزیر تجارت نے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو وزیر تجارت نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ کہنے لگا کہ میں آپ کے ساتھ کچھ ذاتی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے بڑی گرمجوشی سے اس کا مثبت جواب دیا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا میرا بازو پکڑ کر کہنے لگا کہ کیا خیال ہے ہم سامنے گارڈن میں جا بیٹھتے ہیں۔ وہاں چائے پیتے ہیں اور کچھ خاص باتیں بھی کرتے ہیں۔
    ہم دونوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ وزیر نے اپنی جیب سے ایک تسبیح نکالی۔ مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ تسبیح کس کی ہے۔ میں نے تعجب سے اسے دیکھا، اشارہ کیا کہ تم ہی بتاؤ ۔کہنے لگا: یہ تسبیح میرے دادا محترم کی ہے۔ وہ ہمارے ملک کے بڑے مشہور علماء میںسے ایک تھے۔
     ان کو لا الہ الا اللہ کہنے کی پاداش میں شہید کر دیا گیا تھا۔ کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ، تمہارا وفد تجارت کی غرض سے اس ملک میںنہیں آیا۔ میں جانتا ہوں کہ تم یہاں پر اسلام کی دعوت دینے کیلئے آئے ہو۔ تم اسلام کیلئے آئے ہو۔ اللہ کرے کہ تمہارے ہاتھوں اس ملک میں اسلام کی دولت دوبارہ لوٹ آئے۔
    ہمارا ملک ایک وقت میں اسلامی ملک تھا۔ ہم بڑی عزت والے تھے۔ ہم خیر و برکت والی زندگی گزار رہے تھے۔ ہماری اقتصادی حالت بڑی اچھی تھی۔ اس ملک پر علمائے کرام کی حکومت تھی۔ امام کی بات مانی جاتی تھی مگر موجودہ حکومت نے، کمیونسٹوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب ہماری اقتصادی حالت بڑی بری ہے۔ خیر و برکت اٹھ گئی ہے۔ میں وزیر ہوں، میری تنخواہ محض ایک ہزار ڈالر ہے۔ ڈاکٹر اور استاد کی تنخواہ صرف دو سو ڈالرتک ہے۔ ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے اسے اسلام لانے کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ میں اِسی وقت اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں۔ میں اپنے اسلام کو چھپا کر رکھوں گا،مصلحت کا تقاضا یہی ہے مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں نے کہا کہ آپ نے اچھی بات سوچی ہے۔ بلاشبہ ایسے وقت میں آپ کا اسلام کو چھپانا ہی بہتر اور افضل ہے۔
    قارئین کرام!ہم لوگ کیسے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت جگاتے رہے۔ہم تیرانا کے بازاروں میں بعض اوقات5,5 کلومیٹر چلتے پھرتے تھے۔ لوگوں کو سلام کہتے۔ ان سے ہاتھ ملاتے۔ بدقسمتی سے بے شمار ایسے لوگ بھی تھے جو السلام علیکم کے لفظ سے ناآشنا تھے۔ ہم بازاروں میں جاتے تو انٹیلی جنس بھی بعض اوقات ہمارے پیچھے ہوتی۔
     ایک دن ہم چل رہے تھے کہ ایک شخص بائیسکل پر ہمارے پاس سے گزرا۔ اس نے ہمیں دیکھا تو بائیسکل کو ایک طرف پھینکا اور تیزی سے میری طرف بڑھا۔ اس نے مجھے گلے لگا لیا اور زار و قطار رونے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم رو کیوں رہے ہو؟ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول کیا ہے۔ میں گزشتہ30سال سے اپنے رب سے دعا کر رہا تھا کہ مجھے کوئی شخص ملے جو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھادے۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول کر لیا ہے۔ تم لوگ ہمارے ملک میں آئے ہو، اب میں تم سے نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھوں گا۔  
     میں نے اس سے کہا کہ تمھیں معلوم ہے کہ انٹیلی جنس ہمارے پیچھے ہے۔ اگر انھوںنے دیکھ لیا تو تمھیں قتل کر دیں گے۔ کہنے لگے کہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں۔ بے شک وہ مجھے قتل کر دیں مگر میں مرنے سے پہلے اپنے رب کے حضور 2کعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔  
    میں نے اس سے کہا کہ تم میرے آگے آگے خاصے فاصلے پر چلتے رہو۔ میں تمہارے پیچھے آؤں گا۔ تم اپنے گھر میں داخل ہونا۔ وہاں دروازے پر انتظار کرنا ۔میں تمہارا گھر دیکھ لوں گا اور پھر رات کے12 بجے کے بعد میں تمہارے گھر آؤں گا۔ تم سے ملاقات کروں گا۔ وہاں باتیں ہوں گی۔ میں تمھیں وضو اور نماز کا طریقہ سکھاؤں گا۔
    ہم لوگ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ میں عشاء کی نماز کے فوراً بعد سو گیا۔ رات کے12بجے اٹھا، میں نے سونے سے پہلے ساری پلا ننگ کر لی تھی۔ ہوٹل کے پچھلے دروازے سے باہرنکلا اور سیدھا سائیکل والے کے گھر چل دیا۔
    میں سوچ رہا تھا کہ اسکے گھر میں ایک یا دو فرد ہوں گے جن سے ملاقات ہو گی مگر جب میں اسکے گھر پہنچا، دروازہ کھلا، اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ پورا صحن لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انکی تعداد 70 کے قریب ہے اوروہ سب کے سب اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں ایک 80 سالہ بوڑھی خاتون بھی تھی۔ مجھے دیکھا تو رونے لگی۔ کہنے لگی کہ تم مجھ جیسے گناہگار کے گھر میں کیوں آگئے۔ تمھیں میرے گھر میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں تو کافرہ ہوں، میرے بیٹے اور پوتے کافر ہیں۔ تم لوگ تو صحابۂ کرامؓ  کی اولاد ہو۔ تم تو نیک لوگ ہو۔ وہ روتی رہی۔ جب قرار آیا تو اپنی اولاد کو کہنے لگی : جاؤ اُس جائے نماز کو نکالوجو ہم نے چھپا کر رکھا ہوا ہے جس پر کبھی ہم نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ شیخ کو اس پر بٹھاؤ۔ میں نے شفقت بھری نظروں سے ان کو دیکھا۔ پوچھا: تم کیا چاہتے ہو۔ کہنے لگے کہ ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تم نے غسل کر رکھا ہے؟کہا:ہاں ہم سب اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں ہم نے وضو کر رکھا ہے۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - - -ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب

شیئر: