Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کامیا بی و نا کامی کے درمیا ن

***سید شکیل احمد***
سینیٹ کے انتخابات آئندہ چند رو زمیںہو نے جا رہے ہیں۔ اسکے بارے میں نتائج گمبھیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ کسی زما نے میں سیا سی پیشن گوئیو ں کے خوب چرچے رہا کر تے تھے مگر اب کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کیو نکہ ملک کے حالات اس نہج پر آگئے جہا ں کوئی بھی کھیل کھیلا جا سکتا ہے ۔مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ میا ں نو ا زشر یف کو پا رٹی کا صدر بننے سے نا اہل قرا ر دیئے جا نے کے بعد سے مزید صورتحال غیر واضح ہو چلی ہے ۔الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے نئی صورتحال کو بھا نپ کر الیکشن کمیشن کو اپنے دستخط سے ٹکٹ جا ری کر نے کہا مگر الیکشن کمیشن نے ان کی تجو یز مسترد کر دی اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہو لڈرز کو آزاد امید وار کی حیثیت دید ی ، یہ فیصلہ کس قانو ن یا آئین کے کونسے آرٹیکل کے تحت کیا گیا اس کی بھی تک کوئی وضاحت نہیںآئی۔
بھٹو کے زما نے میں نیشنل عوامی پا رٹی پر پا بندی لگا نے کیلئے سپر یم کو رٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ جب عدالت نے اس ریفرنس کے فیصلے میں نیب پر پا بندی عائد کر دی تو اسکے تما م ارکان پا رلیمنٹ کو آزاد رکن قر ار دیدیا گیا تھا جس کے بعد بھٹو نے اس صورتحال سے فائد ہ اٹھاتے ہو ئے کئی ارکا ن اسمبلی کو خرید نے کی سعی کی اور کئی ایک ارکا ن نے اپنی وفا داریا ں بھی بدلی تھیں۔ قیا م پا کستان سے مقتد ر قوتو ں کو یہ وتیر ہ رہا ہے کہ سیا سی ہا رس ٹریڈنگ کے رنگ میں گدھو ں کو گھا س ڈالی جا تی رہی ہے ۔بلو چستان اسمبلی میں6 ارکا ن پر مشتمل سیا سی جما عت کے رکن کو وزیر اعلیٰ بن جا نے پر یہی گما ن تھا کہ سینیٹ کے انتخاب کا مسلم لیگ کا خوا ب پو را نہیں ہو سکے گا ۔ عوام میں ایسا محسو س کیا جا رہا ہے کہ سب کچھ ایک تر تیب سے ہو رہا ہے ۔
بات سوچنے کی ہے کہ سینیٹ کے ٹکٹ جن افر اد کو دیئے گئے ہیں ا ن کا چنا ؤ یقینا نوا ز شریف کی رضا مند ی سے ہو ا ہو گا۔ اب ان کی حیثیت آزاد ہو جانے کے بعد کیا مسلم لیگ سے ان کی وفا داریا ں بدل جا ئیں گی ؟عدالت عظمیٰ نے جو عبوری فیصلہ دیا ہے اُسکے مطا بق نو از شریف کے نا اہل قر ار پا جا نے کے بعد سے مسلم لیگ کے سربر اہ کی حیثیت سے تمام اقدام کالعد م ہیں گو یا کہ ان اقداما ت اور فیصلو ں کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں اسی لئے کالعد م قر ا ر پائے ہیں۔ پھر تو ان کی نا مزدگی مکمل طورپر کا لعدم قرار پائی جا تی ہے اور ان کی جگہ نئے کا غذات طلب کیے جا تے کیو ں کہ جن امید وارو ں کو آزاد امید وار ازخود الیکشن کمیشن نے قرا ر دیا ہے انھو ں نے تو نو از شریف کے دستخط شدہ کا غذات داخل کئے تھے پھر وہ کیسے آزاد ہو گئے ۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن ہی بتا سکتا ہے کہ کس قانو ن کے تحت پارٹی کے امیدوارو ں کو آز اد قر ار دیا گیا ہے ، اس طرح سینیٹ میں ہار س ٹریڈنگ کا بازار سج جا ئے گا کیو ں کہ اب یہ امید وار مسلم لیگ ن کے نظم کے پا بند نہیں رہے ہیں ۔ محب وطن مقتدر چاہتے ہیںکہ سینیٹ میں ان کے نمائند وں کو کا میا بی حاصل ہو جن میں ایک نما ئند ہ اکو ڑہ خٹک سے بھی آزاد کھڑے ہیں ۔ملک کے واحد صادق وامین نے ا ن کی حما یت بھی کر دی ہے چنا نچہ اس آزاد امید وار کیلئے اسلا می خدما ت کے اعتر اف میں صوبے کے خزانہ کا منہ بھی کھو ل دیا گیا ہے ۔
بہر حال سینیٹ کے انتخا بات میں ووٹ پا رٹی بنیا د پر ہی پڑیں گے چنا نچہ مسلم لیگ ن کے آزاد امید وار اپنی وابستگی اپنی پا رٹی سے ہی بر قرار رکھیں گے تو ان کی کا میا بی ممکن ہے جیسا کہ یہ امید وار اب بھی اپنی مسلم لیگ ن سے وفاداری کا اعادہ کر رہے ہیں۔ درویش صفت صابر شاہ جنہو ں نے ہمیشہ مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے، ما ضی میں ہر بڑی سے بڑی پیشکش کو ٹھکرا یا ہے وہ اب بھی اپنے درویشانہ اندا ز میں نو از شریف کے گن گا رہے ہیں۔ اگر ایسی صورتحال سب تک بحال رہی تو نا اہل اور اہل قرا ر دینے کا فائد ہ کیا ہے یہ مقتدر ہی بتا سکتے ہیں ۔ نو از شریف کو نا اہل قر ار دئیے جا نے سے پہلے عوامی سطح پر جو مقبولیت تھی وہ نا اہل ہو کر مزید بڑھ گئی ہے ۔ضمنی انتخا با ت میں عوام نے اپنا فیصلہ دیا ہے  چنا نچہ جو لو گ ما رشل لا کے آنے کے خیر مقد می ترانے گا رہے تھے، ان پر بھی واضح ہو گیا ہے کہ عوام کے شعو ر میں بہت پختگی آچکی ہے چنا نچہ ما رشل لا ء کے قدم اسی بنا ء پر رکے رہے۔عوامی دباؤ میں سب سے زیا دہ طا قت ہو تی ہے۔ عوام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اب ملک میں کوئی ماروا ء آئین نظام نہیں آئے گا۔ اس فیصلے نے ٹیکنوکریٹ کے نام پر مطلق العنا ن حکو مت کا خواب بھی نہیں پورا ہو پارہا اور نہ طویل المدت کسی حکومت کے امکا ن نظر نہیں آرہے ہیں ۔
ان تما م باتو ں کے باوجود ابھی دھند سی ہے، یہ سب چھٹ جا ئیگی۔ سپر یم کو رٹ کے مختصر فیصلے کی روشنی میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔جب مکمل فیصلہ آئے تو بات بھی کھل جا ئیگی کہ سپریم کورٹ نے میا ں نو از شریف کو نا اہل قرار دینے کیلئے کیا حوالے دیئے ہیں۔ ویسے ما ہر ینِ قانو ن و آئین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 12الف میں درج ہے کہ کوئی قانو ن کسی شخص کو کسی ایسے فعل یا ترکِ فعل کیلئے جو اسکے فعل کے سرزد ہو نے کے وقت کسی قانون کے تحت قابل سزا نہ تھا ،سزا دینے کی اجا زت نہیں دے گا ۔اسی طر ح ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 13کے الف سیکشن میں ہے کہ کسی شخص پر ایک ہی جر م کی بناء پر ایک با رسے زیا دہ نہ تو مقد مہ چلا یا جائیگا اور نہ سزا دی جا ئیگی ۔اگر دیکھا جا ئے تو میا ں نو از شریف ایک مقدمے میں دوسری مرتبہ سز ا پاگئے ہیں ، ان کیخلا ف بالواسطہ فیصلہ آیا ہے ، چنانچہ وہ پارٹی کے سربراہ بننے کیلئے اسلئے اہل نہیں رہے کہ پا رٹی سربراہ براہِ راست پارلیمانی پا رٹی کے فیصلو ں میں شامل رہتا ہے تو جو شخص پا رلیمنٹ کے لئے ا ہل نہیں تو وہ پا رلیمانی پا رٹی کے امور پر کیسے دخل دے سکتا ہے چنا نچہ وہ پا رٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ اس بنیا د پر تو نو از شریف کو ووٹ کا حق بھی ساقط کردینا چاہیے کہ کیونکہ ان کا ووٹ بھی پارلیمنٹ پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ان کا اظہا ر رائے کاحق ختم ہو نا چاہیے کہ ان کی تقاریر ، ملا قاتیں ، بیا نات بھی پا رلیما ن پر اثر انداز ہوں گی ۔
 
 

شیئر: