Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہو کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانا

ایک پلیٹ ٹوٹنے پر ساس پلنگ سے لگ گئی، دونوں نندیں بھی حمایت میں آگئیں، شوہر نے پوچھ گچھ کی تو بیوی کچن میں گی، دوسری پلیٹ بھی اٹھا کر پٹخ دی
علی احمد جعفری۔جدہ
سلطانہ بیگم کا شمار ایک جہاںدیدہ اور تجربہ کار خواتین میں ہوتا ہے ۔ شوہر کا  انتقال 30سال پہلے ایک حادثہ میں ہو گیاتھا۔  ایک ہی لڑکا تھا، عدنان۔ جسے بہت ہی ناز و نخرے سے پالا  اور  اعلیٰ تعلیم  دلوائی اور پھر اپنے بھائی حامد علی کی اکلوتی  صاحبزادی  عرشی سے شادی کردی ان کی والدہ نے عرشی کو بہت لاڈ او رپیار سے پالا۔ عرشی جب شادی ہو کر اپنی پھوپھی کے گھر آئیں جب تک پانی کو مم اور  روٹی کو  ہپا کہتی تھیں۔  سلطانہ  بیگم اپنی بہو کو   اس طرح سکھاتیں جیسے  6سالہ کی بچی کو سکھایا جاتا ہے  ا س کو  ہر اچھی بات سمجھانے اور سکھانے کی کوشش میں لگی رہتیں مگر مجال ہے جو عرشی سن لے۔ وہ کان سے سنتی ہی نہ تھی جو   دوسرے کان سے نکال دے  سلطانہ یہ بات اچھی طرح سمجھ گئی تھیں کہ بہو کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانا ہے ۔ آج صبح کی بات ہے۔  سلطانہ نے عرشی سے کہا بیٹی میں  تم سے 10مرتبہ یہ بات کہہ چکی ہوں کہ اتنا زیادہ آٹا مت گوندھا کرو۔ ایک تو کم بخت آپ نے مجھے کم بخت کہا عرشی زور سے چلائی ،نہیں بیٹی میں  تو نگوڑی اب آپ مجھے نگوڑی کا خطاب دے رہی ہیں۔ بیٹی میری بات تو سننے کی کوشش کرو میں تو اس بجلی کو کہہ رہی ہوں۔ لوڈ شیڈنگ کو کوس رہی ہوں جو ایک گھنٹہ کو آتی ہے اور چار گھنٹے کو چلی جاتی ہے اور ہر دوسرے دن میں پیالا بھرا آٹا پھینکتی ہوں۔ ہم تین ہی تو آدمی ہیں گھر میں ایک  میں تم اور ایک عدنان صرف چار روٹی پکنی ہوتی ہیں۔ تنگ آگئی میں۔ ایک عدنان ، ایک عدنان سنتے سنتے۔ کس نے آپ کو روکا تھا۔ کس نے آپ کا ہاتھ پکڑا تھا کر لے لیتیں۔10، 12عدنان ۔ یہ جملے کہتی ہوئی عرشی غصے سے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور اس قدر زور سے دروازہ بند کیا کہ قصر سلطانہ کے درودیوار ہل گئے اور سلطانہ بیگم چکرا کر اپنے پلنگ پرگر گئیںاور سوچنے لگیں کہ واقعی بہو کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ آئیے ایک او ربہو کی طرف چلتے ہیں۔ بڑی مرادوں اور منتوں سے پیدا ہونے والی ناز کو ثریا اپنے بیٹے مراد کی بیوی بنا کر اپنے گھر لے آئیں۔ ویسے تو ناز کی والدہ صاحبہ کی پوری کوشش تھی کہ پانچ بھائیوں کی بہن ناز  ایسے گھر میں جائے جہاں ساس نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو وہ گھر نندوں کے نوک جھونک سے بھی آزاد ہو۔ سسر اگر ہوں بھی تو جانے والی لائن میں لگے ہوں۔ دیور جسے لوہے کا زیور کیا جاتا ہے۔ بیٹی کے پیروں میں نہ پڑے ۔ آخر کار ناز کی والدہ کو ایسا گھرانہ مل ہی گیا۔ جہاں یہ سارے جراثیم بہت ہی کم تھے۔ مراد اپنی والدہ کے ساتھ گلشن میں رہتا تھا۔ دو عدد بہنیں اپنے اپنے گھر کی تھیں۔ ناز صاحبہ اپنے تمام ناز اور نخروں کے ساتھ مراد کی  دلی مراد بن کر آگئیں۔ یہاں بھی خوب ان کے نام و نخرے پورے ہو رہے تھے۔ باورچی خانے کا سارا کام ثریا خود کرتیں مراد کہتا بھی تو ماں کہتی ارے ابھی تو دلہن کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری ہے اور اتنی جلدی کیا ہے اورپھر آہستہ آہستہ ناز بیگم کی اینٹری باورچی خانہ میں ہوگئی۔ ناز کے ہاتھ اس قدر ناز ک تھے کہ ان سے ایک گلاس بھی نہیں دھویا جاتا۔ گھر کے سارے جام ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ بارہا مراد کی امی سمجھا چکی تھیں کہ  برتنوں کو احتیاط سے دھویا کرو زیادہ صابن مت لگایا کرو کہ ہاتھ سے پھسل جائیں ۔ آخر میں بھی تو برتن دھوتی ہوں اور ہماری ماسی رشیدہ نے چار سال میں ایک پلیٹ بھی نہیں توڑی اس بات پر کافی ہنگامہ بھی ہوا کہ ناز کا مقابلہ ماسی سے کیا گیا ۔نندیں بھی اپنی ماں سے کہلاتی اسی ناز کو سمجھائیں مگر وہی جواب کہ  ناز بہو کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ ایک روز تو حد ہوگئی ۔ ثریا بیگم کی شادی ہوئے 50سال ہوگئے تھے۔ ان کے ابا نے اپنی بیٹی کو جہیز میں 12عدد چینی کی پلیٹں اوردوعدد ڈونگے دیئے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے۔ جب ہم لوگ چین سے صرف اس قدر جان پہچان تھی کہ علم حاصل کرنا ہے تو چین تک جاؤ یا پھر شکر کو چینی کہتے تھے۔ نہ جانے چینی کے برتن کہاں سے آگئے بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ 12پلیٹوں میں سے صرف 2عدد پلیٹ رہ گئی تھیں جو ثریا بیگم کو دل اور جان سے پیاری تھیں چونکہ ابا کی جائیداد سے تو کچھ بھی نہیں ملا۔ ابا کے چہلم والے دن ہی بھائیوں نے جائیداد کا بٹوارہ کر لیا اور بہن کو 10، 12شیرمال دے دیں کہ یہ تمہارا حصہ ہے اس وجہ سے ثریا بیگم کو ان بچی ہوئی دو عدد پلیٹوں سے بڑی محبت تھی۔ ایک دن ناز بہو نے شو کیس میں رکھی ہوئی ان پلیٹوں کو نکال لیا اور وہ کافی دنوں تک استعمال ہوتی رہیں۔ ایک دن یہ ہوا کہ پلیٹ دھوتے وقت ناز صاحبہ کے نازک ہاتھوں سے وہ پلیٹ گر گئی او رٹوٹ گئی ٹوٹنے کی آواز سن کر جیسے ہی ثریا بیگم باورچی خانہ میں آئیں تو بس ایک دم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔ بڑی مشکل سے بہو نے پکڑ کر بیڈ پر لٹایا پانی وغیرہ پلایا اسی دوران ان کی بڑی صاحبزادی جو قریب ہی رہتی تھی آگئی۔ روزانہ  جب اسکول سے بچی کو لے کر گھر واپس جاتیںتو نمازی کی نماز قضاء ہو جائے مگر ان کا ماں کے گھر آنا قضا نہیں ہوتا تھا۔ گھر میں آئیں او ریہ ماحول دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ سمجھی ماں کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ امی آپ کو کیا ہوا بتلائیں  بڑی مشکل سے ماں نے کہا باورچی خانے میں جا کر دیکھو اس نے جا کر دیکھا کہ فرش پر ایک پلیٹ ٹوٹی ہوئی پڑی ہے۔ امی وہاں تو ایک پلیٹ ٹوٹی پڑی ہوئی ہے۔ ارے وہ پلیٹ نہیں ٹوٹی میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ارے یہ بہوہمیں کہیں کانہیں چھوڑے گی ا سکا بس چلے تو یہ سارا گھر توڑ دے۔ بھابھی یہ پلیٹ کیسے ٹوٹی مگر دوسری طرف سے جواب نہ ملا۔ 
ذرا سی  دیر کے بعد انہوں نے اپنی چھوٹی بہن کو اس حادثے کی اطلاع دے دی۔ دونوں بہنوں میں طے ہوا کہ وہ مراد کے آنے سے پہلے امی کے گھر آجائیں گی شام کو دونوں بہنیں جلتی پر تیل ڈالنے کے لئے ماں کے گھر آگئیں۔ چھوٹی بہن نے ہی بھابھی سے سوال کیا بھابھی  پلیٹ کیسے ٹوٹی  مگر جواب ندارد  مراد گھر میں داخل ہوا تو ماں کو بستر پر لیٹے ہوئے پایا۔ ایک بہن ماں کا سر دبا رہی تھی، دوسری منہ بسورے صوفے پر بیٹھی تھی۔ عجیب سا ماحول تھا،اپنے کمرے میں گیا تو دیکھا ناز ماتھے پر ڈوپٹہ باندھے سو رہی ہے۔ وہ  پریشان ہو گیا کہنے لگا کیا ماجرا ہے۔  تب چھوٹی بہن نے اس حادثہ کی تفصیل بتائی۔ مراد نے کہا آپ سب  ذرا سی بات کا افسانہ بنا لیتے ہیں ارے پلیٹ ٹوٹ گئی تو کیا ہوا وہ تو  ہوتی ہی ٹوٹنے کیلئے ہے۔ کل میری گاڑی کی کلچ پلیٹ ٹوٹ گئی تھی آپ ہمیشہ ناز کا ساتھ دیتے ہیں اسے بلائیں اور ہم سب کے سامنے اسے پوچھیںکہ آخر یہ پلیٹ اس نے کیسے توڑی  مراد نے اپنی بیگم کو  آواز دی اور اس سے پوچھنا چاہا۔  ناز سب کو باورچی خانے میں لے گئی اور دوسری آخری پلیٹ ہاتھ میں اٹھائی اور  زمین پر  دے ماری۔کہ ایسے ٹوٹی اور زور سے کہنے لگی ۔ صبح سے شام ہو گئی ہر شخص کاایک ہی سوال ہے کہ بھابھی پلیٹ کیسے ٹوٹی اب سمجھ میں آگیا کہ پلیٹ ایسے ٹوٹی  ۔ اپنی بچیوں کیلئے ایک نصیحت کررہا ہوں۔ ایک شعر کی صورت میں۔
پلیٹ ٹوٹی تو بازار سے لے آؤ گی
گھر اگر ٹوٹا تو بتلاؤ کہاں جاؤ گی
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: