Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کو معاشی ٹائیگر بنانے میں برطانیہ کا کردار فیصلہ کن معلوم ہوتا ہے

محمد آل سلیمان۔ عکاظ
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ 1932ءکی بات ہے جب بانی ¿ مملکت شاہ عبد العزیز نے اپنے جواں سال صاحبزادے شاہ فیصل کو برطانیہ روانہ کیا تھا۔ شاہ فیصل مرحوم اس وقت اپنے اوجِ جوانی میں تھے اور بہت کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ؒتھے۔ ان کے ہمراہ بہت بڑا وفد بھی تھا۔ دورے کا مقصد برطانوی حکومت کو سعودی عرب کی وسیع وعریض زمینوں پر تیل نکالنے کی پیشکش تھی۔ اس کے ساتھ ان کے ممتاز مشیر فواد حمزہ بھی تھے جن کے ہاتھ میں امریکی انجینیئرکارل ٹویچل کی رپورٹ تھی جس میں تحریر تھا کہ جزیرہ عرب جسے متحد کرنے میں بانی مملکت کو 20سال تک محنت کرنا پڑی، اس سرزمین میں تیل اور دیگر معدنیات کی موجودگی کا امکان ہے۔
برطانوی دستاویزات کے مطابق اُس وقت لندن کے ایک بڑے حکومتی عہدیدار سر اولیونٹ نے حکومت کو رپورٹ دی کہ جزیرہ عرب میں تیل نکالنے کی کوششیں مہم جوئی سے کم نہیں۔ برطانوی کمپنیاں ایک غیر معروف خطے میں اتنی بڑی رقم صرف کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔یہ اقدام مہم جوئی کے مترادف ہے۔ 
برطانوی اس واقعہ کو یاد کرنا بھی نہیں چاہتے کہ انہوں نے اپنی تاریخ کا ایک سنہری موقع ضائع کردیا تھا۔بعد ازاں شاہ عبد العزیز نے برطانیہ کا متبادل تلاش کرلیا تھا جن کی طرف خود برطانویوں کا وہم وگمان بھی نہیں جاتا۔ شاہ عبد العزیز نے امریکیوں کا سہارا لیا اور اسٹینڈرڈ آف کیلیفورنیا کمپنی کو سعودی عرب میں تیل تلاش کرنے کا ٹھیکہ مل گیا جو متعدد کوششوں کے بعد پہلے کنویں سے تجارتی مقدار میں تیل نکالنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ واقعہ 1938ءکا ہے۔ بعد ازاں اس کمپنی کا نام آرامکو ہوگیا جو اِس وقت روئے زمین کی سب سے بڑی تیل کمپنی ہے۔
اس واقعہ کے 85سال بعد آج خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اپنے جواں سال صاحبزادے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو جو عزم وہمت کا پیکر ہیں اور جو بہت کچھ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیںلندن روانہ کیا تاکہ انگریزوں کو ایک اور تاریخی موقع فراہم کیا جائے کہ وہ سعودی عرب کے وژن 2030میں اس کے ساتھ اسٹراٹیجک شریک ہوں۔برطانیہ کی کمپنیاں سعودی عرب کے وژن 2030میں شراکت دار ہوں گی جس کے تحت نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے خطے کا نقشہ تبدیل ہوگا جس کے نفاذ کے بعد سعودی عرب اقتصادی ٹائیگر بن جائیگا جس کی معیشت تیل کی گرتی قیمت سے متاثر نہیں ہوگی۔جی ہاں! انگریز وں کے اندازے غلط نہیں ہوتے لیکن 1932ءمیں ان سے غلطی ہوئی تاہم اندازہ یہ ہے کہ وہ دوسری مرتبہ غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ غلطی کے باوجود انہوں نے سعودی عرب سے بہترین تعلقات رکھے اور سرمایہ کاری کے شعبے میں ان کا ملک دوسرے نمبر پر رہا مگر اس مرتبہ وہ سعودی عرب سے قرب حاصل کرنے کے بہت زیادہ حریص ہیں۔سعودی عرب کو معاشی ٹائیگر بنانے میں ان کا کردار فیصلہ کن معلوم ہوتاہے۔ سعودی عرب اب پہلے کی طرح نہیں رہا۔ بانی مملکت کے کئی خواب ان کی زندگی میں پورے ہوئے۔ان کے خوابوں کی تکمیل اب ان کے پوتے شہزادہ محمد بن سلمان کر رہے ہیں ۔ 
قدرت نے سعودی عرب کی پہلی اور دوسری ریاست کو سامنے رکھا اور آل سعود کی نسل میں سے محمد بن سلمان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈال دی۔وہ ایک ایسے سعودی عرب کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جو محض صارف نہیں جو دنیا کے پاس چیزیں خریدنے کی حیثیت سے نہیں جاتا بلکہ وہ جس کے پاس جارہے ہیں انہیں فروخت کرنے اور خریدنے میں شراکت دار بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ جس طرح بانی مملکت شاہ عبد العزیز نے مملکت کی تشکیل کے وقت جب یہاں کچھ بھی نہیں تھا، اپنی پیشکش ٹھکرانے پر برطانیہ کی پروا نہیں کی اور جلد ہی متبادل تلاش کر لیا، اسی طرح ان کے پوتے جو شکل وصورت میں بھی اپنے داد سے بہت مشابہ ہیںاور جن کی ریاست بہت مستحکم ہوچکی ہے ، ان کے پاس بھی کئی مواقع اور متبادل ہیں۔ سعودی عرب کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے اور اسے معاشی ٹائیگر بنانے میں بھی کئی متبادل موجود ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: