Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت کی اولین ترجیح گھر اور بچوں کی تربیت ہونی چاہئے، تنویر طارق

زینت شکیل۔جدہ
فاطرالسماوات والارض نے ہر قوم کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے جس کی وجہ سے قوموں کو عروج حاصل ہوا ۔دنیا میں ان کی سر بلندی ہوئی ۔ ان کی طاقت اور اقتدار نے دوسری قوموں پر سبقت حاصل کرلی اور یہ سب کچھہ مفید علم کے سبب ممکن ہوا ۔جس قوم نے طاقت و غرور کے دھوکے میں آکر مالک حقیقی کے احکامات عالی کو، معاذاللہ، بھلادیا تو قدرت نے انہیں صفحہ¿ ہستی سے مٹا دیا ۔فرمایاگیا ہے کہ جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے، تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ نعمتوں کی شکر گزاری میں دین و دنیا کی فلاح مضمر ہے۔
اس ہفتے” ہوا کے دوش پر“ ہماری ملاقات ڈاکٹر محمد حامد اور محترمہ اختر حامد کے آسمان کے چمکتے ستارے محترمہ تنویر طارق سے 
 ہوئی۔محترمہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہائی اسکول کی پڑہائی مکمل کی تھی کہ انکی شادی انکے عم زاد طارق صاحب سے طے ہو گئی اور انکے والدین نے یہی فیصلہ کیا کہ پاکستان سے آنے والے دنوں میں لڑکے والے رخصتی کے لئے آنے والے ہیں چنانچہ کم از کم ایک سال کا کورس تو انہیں کرادیا جائے۔
اسے بھی پڑھئے:ایک مرد نے تیزاب پھینک کر برباد کردیا
مسز تنویر طارق کے اس ایک جملے میں انکے والدین کی سوچ پوشیدہ تھی۔عموماً لوگوں کی اکثریت اس بات کی فکر کرتی ہے کہ لڑکی کو جہیزمیں کون کون سی چیزیںدی جائیں کہ اس کے کام آئیں لیکن وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے کہ انکی بیٹی ان مادی اشیاءسے چند دنوں کا فائدہ ہی اٹھا سکے گی لیکن مفید علم وہ روشنی ہے جو اس کی زندگی میں ہمیشہ جگمگاہٹ لائے گی۔ 
بعض لفظ اپنے معنی میں اتنے جامع ہوتے ہیں کہ اسکی لفظی تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مسز تنویر طارق ایسی ہی شخصیت ہیں ، پروقار،ملنسار،خوش گفتاراور خوش لباس ۔ وہ اپنے بچپن کی بہت ساری یادوں کو لفظی تصویر کی صورت بیان کر رہی تھیں ۔ ان کے اسکول کی استانیاں جو بچوں کو بار بار سکھاتی تھیں کہ لوگوں سے نرم لہجے میں گفتگو کرو ،کسی سے بھی تلخ بات نہ کہو ،ہمیشہ لوگوں کے کام آﺅ، انکی مدد کرو، مہذب انسان کی ہر ایک عزت کرتا ہے۔ تعلیم سے اپنی شخصیت کو نکھارو ۔
وہ اپنی والدہ کی فراست یاد کرتی ہیں کہ وہ کس قدر حکمت سے اپنے معاملات انجام دیا کرتی تھیں۔ مسزتنویر طارق نے اس موقع پر بتایا کہ ہماری والدہ نے بھی کانونٹ سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے جبل پور سے اور میں نے ناگ پور کے کانونٹ سے پڑھا ۔       
تنویر طارق سمجھتی ہیں کہ جو قوم ریاست کی حقیقی ترقی چاہتی ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے لئے تعلیم مفت اور لازمی قرار دے۔ اس کے لئے ریاست کو موجودہ نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا ایک جامع اور ہمہ گیر پروگرام مرتب کرنا چاہئے۔ تعلیم کسی بھی قوم کو تمام عالم میں معزز بنانے کا ذریعہ ہے ۔ ہمیں یہ سلیقہ بھی سکھایاگیا ہے کہ کسی مہم میں تمام لوگ نہ جائیں بلکہ ایک گروہ سرحد کی حفاظت 
کرے،ایک تعلیم و ترویج میں مشغول رہے اور کچھ لوگ ریاست کی معاشی ضرورت کو پورا کرنے میں اپنی کوشش جاری رکھیں۔ 
  محترمہ تنویر نے بتایا ہم لوگ بہت امیر نہیں تھے۔ بس کہا جاسکتا ہے کہ اپر مڈل یامتوسط خاندان سے تعلق تھا، اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے ایک اچھے تعلیمی ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا۔ان کا خیال تھا کہ جس طرح ایک بچے کی تربیت کے لئے اس کے گھر والوں کے علاوہ اس کے ارد گرد کا ئنات میں موجود ہر ایک شے اپنااپنا کردار ادا کرتی ہے، اسی طرح تعلیم کے حصول کے لئے ہمیشہ ایک مستند تعلیمی ادارے کو اہمیت دینی چاہئے تا کہ تعلیم کے لئے تعلیمی ماحول بھی بہترین ہو۔ اساتذہ کی مضبوط شخصیت بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
اسے بھی پڑھئے: زندگی میں سکون و آرام کے لئے خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیں
مسزتنویر اپنے دادا جان کا ذکر بہت احترام و عقیدت سے کر رہی تھیں ۔ وہ بتا رہی تھیںکہ ہمارے دادا جان انسپکٹر آف ایجوکیشن تھے۔تعلیم کا حصول ہر ایک کے لئے ،سب سے اول درجے کی اہمیت کا حامل تھا۔ میرے تایا ابا یونیورسٹی میں اردو ، فارسی اور عربی کے پروفیسر تھے۔ جبل پور میں اس وقت اکثر لوگ محمد محمود کے نام سے واقف تھے۔والد ڈاکٹر محمد حامد پروفیسر تھے۔ فارسی اور اردو پڑھاتے تھے۔ ہم لوگ ہندوستان میں رہتے تھے اور پھوپھی کا خاندان پاکستان میں رہائش رکھتا تھا۔ ایک خاندان ہونے کی وجہ سے شادی کی تقریبات میں ایک ہی جیسی رسومات اداکی گئیں۔ کھانے چونکہ ہر علاقے کے الگ الگ ہوتے ہیں اور اب تو ہر ایک جگہ مختلف ممالک کے کھانے متعارف کرا دئیے گئے ہیں اس وجہ سے جہاں کھانا بنانا آسان ہو گیا ہے، وہیں ٹی وی چینلز والوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے ۔
شادی کے بعد یہاں آناہوا 57 میں ۔ شادی کے بعد تعلیم اس طرح جاری رہی کہ یہاں اپنی پڑھائی کرتی رہتی اور سال کے بعد پرائیوٹ طور پر لئے جانے والے امتحانات میں شرکت کرتی۔ اس طرح 3 سال میں گریجویشن کی۔ اس وقت کے ہندوستانی قونصل جنرل کی اہلیہ ،ہم خواتین کوبار بار کہتی تھیں کہ آپ لوگ پڑھی لکھی خواتین ہوتے ہوئے بھی آدھا دن سونے میں گزار دیتی ہیں اور باقی وقت ایک دوسرے سے کھانے کی ترکیبیں پوچھنے اور انہیں آزمانے میں لگی رہتی ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ اپنا وقت بہترین کام میں لگائیں۔ بچوں کو انڈین اسکول آکر پڑھائیں ۔اس طرح انکے مشورہ پر ہم خواتین ،انڈین ایمبیسی اسکول میں پڑھانے لگیں۔ ایک سال وہاں جانا ہوا ۔ تنویر طارق نے کہا کہ طارق صاحب کو یہ زیادہ پسند نہیں آیا ۔ان کا کہنا تھا کہ عورت کو پہلے اپنے گھر کو دیکھنا چاہئے۔بیٹا ہو یا بیٹی،اسکی تربیت اور شخصیت سازی میں ماں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اس لئے ماں کو گھر پر ہونا چاہئے ۔اس زمانے میں ہمارا گھر ایسا تھا کہ اس میںکافی زمین خالی تھی۔ وہیں طارق صاحب نے اسکول کی عمارت تعمیر کروا دی۔دو کمروں کے اس اسکول کے چھوٹے سے دفتر میں ہم لوگ کام کرتے تھے۔
محترمہ تنویر طارق نے کہا کہ جو کچھ کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اس کو سمجھانے کے لئے اساتذہ کو اس خاص مضمون پر عبور حاصل ہونا چاہئے۔دراصل ہم لوگوں کا عام رویہ یہ ہو گیا ہے کہ بچوں کو بہت کم عمری میں اسکول میں داخل کراکر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر دیں۔ جب اس بات کی زیادہ آگاہی نہ ہو کہ تربیت میں ماں کا کردار کتنا اہم ہے تو وہ گھر میں رہنے کو ہی بے فائدہ سمجھنے لگتی ہیں۔ اس میں معاشرے کی مجموعی سوچ اور رویے کا بھی دخل ہوتا ہے لیکن یہ بات ہر دور کے والدین کو سمجھ لینی چاہئے کہ بچے اپنے والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتے ہیں ۔پہلے اپنے بچوں کی تربیت میں دن رات لگائیں، انہیں وقت دیں۔ یاد رہے کہ ماں کی جانب سے چند سال کی محنت سے ہر بچہ ریاست کا بہترین فرد بن سکتا ہے۔جب سہولت ہو تو اپنے علم و ہنر سے لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچانا چاہئے لیکن عورت کی پہلی ترجیح گھر اور اپنے بچوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ 
طارق صاحب نے قاہرہ یونیوسٹی سے پوسٹ گریجوشن کی۔ وہاں تعلیم کے دوران مسز تنویرطارق کا وہاں رہناہوا ۔وہاں کے تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع ملا ۔مختلف ممالک سے آئے ہوئے طالب علموں کے لئے ایسے بہت کم گھرانے وہاں تھے جن کے گھر مدعو کئے جاتے تو وہ بہت شوق سے گھر پر تیا رکئے گئے کھانوں کو پذیرائی دیتے ۔وہاں کی ثقافت مضبوط ستونوں پر بڑی شان سے براجمان ہے۔     
محترمہ تنویر طارق نے کہا کہ ان کے دونوں بھائی شارق حامد اور ضیا حامد نے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے والد صاحب کی خواہش کے عین مطابق اعلیٰ تعلیم نہ صرف خود حاصل کی بلکہ اپبے بچوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ بہت امیر ہونا ضروری نہیں، دراصل اس سوچ کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ ترجیحی بنیاد پر کون سا کام کرنا ہے اور جب یہ بات ذہن میں پیوست ہو جاتی ہے کہ ہمیں تعلیم کا حصول مقدور بھر ممکن بنانا ہے تو کوشش کا صلہ تو ملتا ہی ملتا ہے۔ اس وقت ایک خاندان کی بات بھی مجھے یاد آئی کہ میں جب اپنے آبائی گھر کئی سال کے بعد گئی تو سب کی خیر خیریت پوچھی اور پھر اس بات کا اندازہ ہواکہ والدین کے فیصلے کئی نسلوں کے لئے کارآمد ہوتے ہیں جس طرح ہمارے والد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، پروفیسر تھے وہیں انکے کولیگ بھی انہی کی طرح ڈاکٹر آف فلاسفی تھے لیکن انہوں نے بہت اعلیٰ تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کا داخلہ نہیں کرایا اور وہ لوگ تعلیم میں آگے نہیں جاسکے اور اپنے والد سے کم تعلیم حاصل کی۔میں دیکھتی تھی کہ وہ ہمارے بھائیوں کے آگے دبے دبے سے رہتے تھے۔ اس سے میں نے زندگی کا سب سے بڑااصول جانا کہ کچھ زیادہ محنت کرو لیکن تعلیم بہت اچھی حاصل کرو اور پھر وہی بات کہ چونکہ تعلیم سے عزت ملتی ہے اور ہمارا رب کریم چاہتا ہے کہ ہم کلمہ گو، اقوام عالم میں عزت پائیں، اپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پہچانیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم علم حاصل کریں۔ ہم لوگ اس بات کابھی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص بہت امیر نہ بھی ہو لیکن وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو تو اس کی شخصیت میں ضرور ایک خاص وقار دکھائی دیتا ہے۔ لوگ اپنی زبان سے نہ بھی کہیں لیکن وہ اس کی شخصیت سے مرعوب ضرور ہوتے ہیں اور عموماً انکے کہے پر غور بھی کرتے ہیں ۔
تنویر طارق نے کہا کہ انکے بھائیوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھر پور توجہ دی جو ان کی ترقی اور اعتماد کا سبب بنی۔ آج انہیں دیکھتی ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک بھتیجی ایڈووکیٹ ہیں، کورٹ جاتی ہیں۔ ایک صحافیہ ہیں ، وہ مہم جوئی میں لگی رہتی ہیں ۔ ایک ڈیفنس کے شعبے میں ہیں،یونیفارم میں سچ مچ رعب والی آفیسر معلوم ہوتی ہیں۔
پاکستان میں سسرال اورہندوستان میں میکا ہونے کی وجہ سے آنا جانا تو ہوتا ہوگا؟لوگ فرمائشیں کرتے ہوں گے کہ فلاں فلاں چیز ہمارے لئے لے کر آنا۔اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلا شبہ آنا جانا تو خوب رہا۔ فرمائشیں بھی دونوں طرف سے ہوتی تھیں اور کبھی کبھی تو وزن کا بھی مسئلہ ہوتا تھا لیکن جب اتنا وقت لگا کر شاپنگ کی جاتی تویہی کوشش ہوتی تھی کہ سب سامان پہنچ جائے۔ طارق صاحب جب قاہرہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو وہاں ہماری رہائش رہی اور وہاں کی ثقافت سے متاثر بھی ہوئے۔ انکی ثقافت بہت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ سیاحت پر جانے والے لوگ جب اہرام مصر دیکھتے ہیں تو واقعی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا بھر کے لئے ایک سبق، ایک عبرت ہے۔
تعلیم کاحصول اسی لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس سے انسان اپنے اس دنیا میں آنے کا مقصد جان لیتا ہے اور مقصد حیات کو پورا کرنے کی زندگی بھر کوشش کرتا رہتا ہے۔ گھر پر ہی رہ کر معاشرے کے لئے کارآمد بننے کی جو شروعات دو کمروںکے اسکول سے کی تھی، اس وقت وہاں 7طالب علم تھے جو دراصل ہمارے احباب کے ہی بچے تھے۔ اس زمانے میں کوئی پرائیویٹ اسکول نہیں تھا اس لئے بہت جلد اسٹوڈنٹس کی تعداد بڑھتی گئی اوراس طرح کارواں آگے بڑھتا گیا۔ بعد میں لائسنس لازمی قرار دے دیا گیا۔اس سلسلے میں ایک ایماندار،اعلیٰ ظرف اور علم دوست شخصیت نے اسکول کی دوبارہ بنیاد رکھی۔ آج اسکول کے اسٹوڈنٹس کی مجموعی تعداد ڈھائی ہزار ہے۔ گزشتہ 8 سال سے کیمبرج سسٹم کے تحت ورلڈ رینکنگ میںکسی نہ کسی سبجیکٹ میں سلیکٹ کیا جا رہا ہے۔ او این اے سر ٹیفکیٹ کے سلسلے میں امریکہ سے آئی ہوئی ٹیم نے اسکول کے تعلیمی معیار، سائنس مضامین کے لئے مختص کی گئی لیب اورکمپیوٹر لیب وغیرہ کا دورہ کیا اور5 سال کا 
سر ٹیفکیٹ دے دیا۔
محترمہ تنویر اور طارق صاحب کے تینوں صاحبزادگان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ نبیل طارق خان،ندال طارق خان اور محمد طارق خان جہاں جہاں بھی تعلیم کے حصول کے لئے گئے وہاں والدین کا بھی جانا اور رہنا ہوا۔ طارق علی خان منسٹری آف انفارمیشن سے منسلک رہے ۔ وہ اپنی مصروفیت کے باعث یہی خیال کرتے تھے کہ دراصل ماں ہی اپنے بچوں کی اصل تربیت کرتی ہے اور اسے گھر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد ہی اپنے علم و ہنر سے معاشرے کی ترقی میں حصہ لینا چاہئے ۔
تنویر صاحبہ نے کہا کہ ہمارے دادا جان چونکہ خود تعلیمی،تحقیقی اور تخلیقی شعبے سے تعلق رکھتے تھے ،اس لئے تعلیم کی طرف ہر ایک کی توجہ مبذول کراتے تھے۔انکی سوچ یہ تھی کہ عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو اپنے بچوں کی تربیت بہترین طور پر کرسکے گی ۔آج بھی دراصل اسی چیز کی ضرورت ہے۔تعلیم ، انسان کی رہنمائی کرتی ہے، جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ کسی بھی شخصیت میں دین کی سمجھ اسکی والدہ کی طرف سے ہی آتی ہے ۔یہ عورت کا کردار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کردار سازی کرتی ہے۔ مذہب ماں ہی سے ملتا ہے۔ روزہ نماز کی پابندی بھی ماں ہی بچپن سے سکھاتی ہے اور جب بچوں کی شخصیت ایسی بن جاتی ہے کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیزکر سکیں تو پھر وہ دنیا کی کسی جگہ بھی چلے جائیں، وہ اپنی ماں کی تربیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ 
سیاحت پر بات ہوئی تو مسز تنویرنے بتایا کہ امریکہ جانا ہوا تو وہیں بارڈر کے پاس جاکر ہمیں نیاگرا فال کی بھی سیر کرادی گئی۔ اسی طرح انگلینڈ بھی جانا ہوا۔ مصر کی تاریخی اہمیت بہت ہے ۔ کھانے کا ذکر ہوا تو انہوں نے اس دلچسپ بات کی نشاندہی کی کہ تمام دنیا میں آج ہر ملک کی کھانے کی ترکیبیں آزمائی جارہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جو کسی پکوان کا اصل ملک ہے، اس سے کہیں زیادہ اچھا پکوان دوسرے تیار کر رہے ہیں جیسے چائنیز کھانوںکا فیوژن مختلف ملکوں میں اپنے اسپائسس کے ساتھ زیادہ مزیدار ہوتا ہے لیکن اگر کوئی چائنا میں جاکر چائنیز ریسٹورنٹ میں ان کے بنائے ہوئے چینی پکوان منگوائے تو وہ کھائے نہیں جاسکیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے بے مزہ ہوں گے۔ 
   محترمہ تنویر طارق نے سعدیہ مرزا اور اصفیہ سعود کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کیا جنہوں نے ان کی بیٹیاں بن کر گھر کی رونق میں اضافہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ انکے صاحب زادے نے دادی کے نام پر پوتی کا نام رکھا ہے یعنی پوتی صاحبہ کا نام بھی تنویر ہے۔ ایک پوتے کانام امین ندال طارق ہے۔ ان سے چھوٹے پوتے حنین ندال طارق ہیں اور عمار محمد طارق گھر بھر کے لاڈلے ہیں ۔
ادب پر گفتگو ہوئی تو محترمہ تنویر طارق نے کہا کہ مصنف کسی بھی جگہ سے تعلق رکھتا ہو، دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا ایک مور خ کی طرح کہیں نہ کہیں ذکر ضرور کرتا ہے۔ شیکسپیئر بھی ایک ایسا ہی مصنف ہے۔ اسکی مثال ” دی مرچنٹ آف وینس“ ہے جس میں سود کے کاروبار کی کثافت اور معاشرے میں ہونے والے ظلم کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ 
 

شیئر: