Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیازی ، زرداری آمنے سامنے

***سید شکیل احمد*** 
          سینیٹ کے چیئر مین کے انتخابات کے موقع پر جو دربارسجا تھا وہ انتخابات مکمل ہو تے ہی اجاڑ ہوگیا ۔ اب نیا زی زرداری اور درباری پھر آمنے سامنے ہو گئے ہیں ۔ سینیٹ میں قائد حز ب اختلا ف کے انتخاب  پر اب سیاست ہورہی ہے۔ عمر ان خان نیا زی کا کہنا ہے کہ چیئر مین او رڈپٹی چیئر مین کے عہد ے زرادری نے حاصل کر لئے ہیں تو اسکے بعد قائد حزب اختلا ف کا حق پی ٹی آئی کا تو بنتا ہے مگر زرداری جو کہلو اتے ہیں کہ ایک زر داری سب پر بھاری، وہ قائد حزب کا عہد ہ چھو ڑ نے کو تیا ر نہیں  جس پر عمر ان نیا زی نے تو پو ں کے دہا نے ایک مر تبہ پھر زرداری کی طر ف مو ڑ لئے ہیں۔ بھٹو زند ہ ہے کا نعرہ کے بعد پی پی کا یہ نعرہ مقبول عا م ہوا ہے کہ ایک ز رداری سب پر بھا ری مگر ایسا لگتا نہیں کیو نکہ کھیل زرداری کے ہا تھ میں نہیں ، وہ دربار والے کے ہا تھ میں ہے ، لیکن یہ نعرہ یو ں نہیں لگا یا جا سکتا کہ ایک درباری سب پر بھا ری کیو ں کہ ہو سکتا ہے کہ دربار کا ایک مالک نہ ہو پھر دربار کا بھی تو اتہ پتہ نہیں کھل رہا  ۔ پی پی نے بہر حال پیر یا پیر نی سے تو نہیں دربار سے فیض ضرور پایا ہے اور اب ممکن ہے کہ دربار والے قائد حزب اختلا ف کے لیے تحریک کو راضی کر لیں۔ ویسے اگر راضی  رکھنے والی بات ہو تی تو سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کی نشستو ں میں سے ایک نیا زی صاحب کو پیش کر دی جا تی۔ زرداری سب کچھ نہ سمیٹ لے جا تے گویا زرداری نے اپنا بھروسا نادیدہ قوتو ں میں بڑھا یا ہے۔  دوسرے الفا ظ میں کہا جا رہا ہے کہ نیا زی کا بھر وسا گھٹ گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو ا ہو تا تو حزب اختلا ف کی نشست کیلئے دونو ں کا آمنا سامنا نہ ہوتا۔ بہر حال یہ پاکستانی سیا ست کا کھیل ہے جو کرکٹ کے مید ان میں ہا کی کا کھیل بھی بن جا تی ہے ۔
            سینیٹ کے انتخا بات سے لیکرچیئرمین کے انتخابات تک کے مر حلے میں پی پی اور پی ٹی آئی کے ما بین جوآرسی محصف کی رسم ادا کر ائی گئی تھی، اسکے اثر ات یقینی طو ر پر آگے چل کر پڑ نے والے ہیں جو حزب اختلا ف کے چنا ؤ کے مو قع پر نظر بھی آنے لگے ہیںلیکن ان رسو ما ت سے قطع نظر بحث ہور ہی ہے شکست و ریخت کی ۔ ظاہر ہے کہ جب مقابلہ بازی کسی بھی صور ت ہوتی ہے تو ایک عنصر جیت سے ہم کنا ر ہوتا ہے اور دوسرے کو شکست کا منہ دیکھنا پڑ جاتا ہے مگر جو شکست مسلم لیگ (ن)کے نا م لکھی گئی اس سے بہت سی بے پر دگی بھی ہو ئی ہے ۔ مثلا ً  تبصرہ بکھر و ں کا کہنا تھا کہ ہا رجیت کا فیصلہ انیس بیس کے فر ق سے ہو گا مگر یہا ں تو مسلم لیگ (ن) کی شکست میں بہت واضح فر ق سامنے آیا۔ دوچار ووٹ کا فرق تو نظر اندا زہو سکتا تھا، پو ر ے 7 عدد ووٹو ں کا فر ق بہت سے اند یشے ظاہر کر رہا ہے لیکن اس کھیل میں مسلم لیگ ن شکست کھاکر بھی گھاٹے میں نہیں رہی، سیا سی برتر ی سے ہمکنا ر ہو ئی ہے۔ گھا ٹا تو نیا زی صاحب کے مقدر میں آیا ۔نیا زی صاحب نے نو از شریف اور آصف زرداری دونو ں کو ایک ہی ٹکٹی سے باند ھے رکھا تھا۔ اب انھو ں نے ٹکٹکی بدل کے خود کو بھی زرداری صاحب کی ٹکٹی سے باند ھ لیا ہے۔ بلو چستا ن کا رڈ وہ سلیقے نہ کھیل پائے۔ ان کے کا رڈ کو سیپ لگ گئی ۔
          عمر ان خان تو خود سند یا فتہ صادق وامین ہیں مگر انھو ں نے اپنے13 سینیٹر وزیر اعلیٰ بلو چستان عبدالقدوس بزنجو  کے حوالے اس طر ح کیے کہ کوئی قربانی کی بکر یا ں بھی اس طر ح حوالے نہیں کر تا۔ نیازی صاحب نے حاتم طائی کی قبر پر لا ت ما رتے ہو ئے کہا کہ یہ سب ان کے حوالے ہیں، جس طر ح چاہیں ان کے بارے میں فیصلہ کر یں یعنی قربانی کیلئے گلا ذبح کر یں یا دم کا ٹ دیں۔ بہر حا ل بزنجو کے توسط سے زردراری سے ان کو گلے ملنا کا م نہیں آیا کیو نکہ جہا ں امپا ئر کی انگلی کی با ت کھل گئی ہے وہا ں تحریک کے کارکنو ں کی غلط فہمی بھی دورہوگئی ہے۔ اس فیصلے کی مغلو بیت میں کا رکنو ں میں ما یو سی چھا رہی ہے۔ اب ان میں بے دھڑ ک پن مفقود ہو چلا ہے۔ پشا ور میں ایک کا رکن نے اسی یا سیت کی بنا ء پر پارٹی کا پر چم اپنے گھر سے اتا ر کر جلا ڈالا  جبکہ دوسر ی جا نب مسلم لیگ کو اس ملا پ سے سیاسی فائدہ ملا ہے۔ اب عام انتخا بات میں مسلم لیگ اسی دربا ر کا ذکر کر یگی جس نے نیا زی اور زرداری کی مو دت میں کر دار ادا کیا ۔
        عمر ان خان کے پا س اس بات کا کوئی جوا ب نہیں کہ وزیر اعلیٰ بلو چستان کہا ں سے سند یا فتہ صادق امین ہیں اور انھو ں نے کونسی صداقت و اما نت کے تحت اپنی پا رٹی کو چھو ڑ کر پی پی کے افرا د کو آزاد حیثیت میں سینیٹر بنا نے میں کر دار ادا کیا ۔پھر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخا ب میں سب سے زیا دہ اہم رول ادا کیا۔ صادق سنجر انی کو ان کے نا م سے صادق تسلیم کیا۔ ایسی بات ممکن نہیں کیونکہ صادق سنجر انی کوئی غیر معروف شخصیت نہیں تھے۔ عوام میں ان کا تعا رف نہیںتھا مگر اقتدار کے حلقوں میں وہ جانی  پہچانی شخصیت رہے ہیں۔ پی پی کے دور اقتدار میں وہ آصف زرداری کی منشاء پر وزیر اعظم یو سف رضا گیلا نی کے کو آرڈینیٹر رہے ۔ اس سے قبل نو از شریف کے پہلے والے دور میں وہ نو از شریف کے کوآرڈینیٹر رہ چکے تھے ۔ جب پی پی کے دور میں وہ وزیر اعظم کے کو آرڈینیٹر تھے تب انھو ں نے اس کوآرڈینیشن کی بنیا د پر اپنے بھائی کو بلو چستان کا چیف سیکریٹری تعینا ت کر ایا تھا۔ ان کا کئی سالو ں سے  آصف زرداری کے ساتھ گہر ا تعلق ہے اور وہ پا کستان کی بڑی کا روباری شخصیا ت میں سے ہیں یہ بھی کہا جا تا ہے کہ آصف زرداری کے ساتھ کا روباری رفاقت بھی رکھتے ہیں ِ۔ 
عمر ان خان کے پا س اس سوال کا جو اب نہیں کہ پی پی کو ڈپٹی چیئر مین کا ووٹ کیو ں دیا ۔جہا ں تک چیئر مین سینیٹ کے ووٹ کا تعلق ہے تو انھو ں نے اس کیلئے بلو چستان کا ر ڈ کھیلا مگر سلیم مانڈوی والا جو بر اہ راست پی پی کے امید وار ہیں تو ان کو ووٹ نہ دینے میں کو نسی ہیچ تھی ۔بہر حا ل سیا سی با ز ی ان کی کمزور رہ گئی۔ اب عام الیکشن کا بند وبست بھی دربار عالیہ سے سینیٹ انتخاب کی طرز پر نمو پارہا ہے۔ دیکھئے آگے آگے ہو تا کیا ہے ۔

شیئر: