Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر مرد کی خواہش، ”میری شریک حیات حسینہ عالم ہو“

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
آج کے دور میں اکثر والدین کے منہ سے یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ ہماری بچیوں کے اچھے رشتے نہیں آ رہے۔ یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اچھے رشتے کیوں نہیں آرہے ؟ لڑکی پڑھی لکھی ہے، خوش شکل ہے مگر پھر بھی والدین بے چارے پریشان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ دور حاضرمیں جہاں بہت سے مسائل نے انسانوں کو اپنے حصار میں لے رکھاہے، وہیں والدین کے لئے سب سے بڑی پریشانی ان کی بچیوں کے مناسب رشتے نہ ہونا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین نہ صرف لڑکیوں کے رشتوں کے لئے فکر مند نظرآتے ہیں بلکہ وہ اپنے بیٹوں کے رشتوں کے لئے بھی اسی قدر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے کا ہر تیسرے گھرمیں لڑکے اور لڑکیاں شادی کی منتظر ہیں اور ان کی عمریں ڈھل رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین کو ہر لحاظ سے پرفیکٹ جوڑ نہیں ملتا یعنی لڑکے کے لئے پرفیکٹ بہو کی تلاش آج کے دور کا اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ بہترین بہو کا معیار بھی خود ہی لوگوں نے طے کر لیا ہے جیسا کہ بہو خوبصورت ہو، حسن و جمال کا پیکر ہو ، گوری رنگت ہو، دبلی پتلی ہو، دراز قد ہو اور پڑھی لکھی ہونا تو لازمی ہے اور ہو سکے تو کوئی ایم بی بی ایس پاس یا ا س میں زیر تعلیم لڑکی مل جائے ۔ بعد میں بے شک اس کے ملازمت کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ 
ہوتا یوں ہے کہ لڑکے والے آئے دن مختلف لڑکیوں کو دیکھنے کے لئے ان کے گھروں کے چکرلگاتی ہیں۔ یہاں یہ بتائی چلوں کہ لڑکی کی کمر اور قد تک کی پیمائش کی جاتی ہے۔ لڑکے کے گھر والے ذہن میں ایک تصویر بنا لیتے ہیں او رہر لڑکی کو اس فریم میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کئی گھروں میں جا کر دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور درجنوں لڑکیوں کے جذبات مجروح کئے جاتے ہیں۔ یوں ان کی دل شکنی کی جاتی ہے ۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لڑکی کی عمر نکل جاتی ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں زیادہ تریہی ہوتا ہے کہ لڑکی ہی ناپسندکی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمر نکل جانے میں لڑکی کا قصور کم اور معاشرے کا قصور زیادہ ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو اتنے سارے ٹی وی چینلز کھل گئے ہیں۔ ان میں جو اداکارائیں کام کرتی ہیں، ان کو دیکھ کر ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل نے اپنے ذہنوں میں ایک نقش بٹھا لیا ہے کہ میری شریک حیات کو ایسا ہو نا چاہئے ۔اس لئے جو بچیاں ذرا بھی فربہ ہوتی ہیں ،ان کی شادی بیاہ میں والدین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمارے معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کے مناسب رشتے ملنے کا مسئلہ پیچیدہ تو کیا ناممکن ہی ہوتا جا رہا ہے اس سلسلے میں امیر و غریب سب ہی یکساں طور پر پریشان نظر آتے ہیں۔ 
موجودہ دور نمائشی ہے۔ غور کر یں تو پتا چلے گا کہ زندگی کے ہرمعاملے میں نمود و نمائش ایک فیشن بن کر رہ گئی ہے ۔ اسی تناظر میں رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکے کے گھروالے لڑکی کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں ۔ اس ”دکھوے“ میں وہ لڑکی کی سادگی ، اخلاق، سلیقہ مندی اور سیرت و کردار کی بجائے اس کی جلد کی رنگت ، قد کی لمبائی ، خد و خال، چھریرے پن اور نزاکت پر توجہ مرکوز کر دیتے ہیں۔ ان کے خئد ساختہ معیار پرپوری اترنے والی خوبصورت لڑکیوں کواپنی بہو بنانے کے لئے چُن لیا جاتا ہے جبکہ جو ان کے معیار پر پوری نہ اترتی ہوں، انہیں” مسترد“ کر دیا جاتا ہے۔ یوں ہمارے ہاں ہر روز نجانے کتنی ہی لڑکیاں”دکھوے “ کے بعد لڑکے والوں کی جانب سے رد کر دی جاتی ہیں۔
لڑکی کا رشتہ نہ ہو رہا ہو تو رشتہ کرانے والی خاتون یعنی مشاطہ کی چاندی ہو جاتی ہے کیونکہ جن لڑکیوں کولڑکے والوں کے والدین رد کر دیتے ہیں ، ان کے والدین رشتے کرانے والی مشاطہ سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔ والدین بیچارے کسی نہ کسی طرح ان مشاطاﺅں کی فیس کا بندوبست کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بچیوں کی شادی کی فکر لاحق رہتی ہے ۔والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے کھانے پینے اور لباس تک کا خیال رکھتے ہیں اور نظر رکھتے ہیں کہ وہ فربہی کی جانب مائل نہ ہوں بلکہ دیکھنے میں اسمارٹ اور نازک لگیں۔ آج صورتحال ایسی ہے کہ جو لڑکی اسمارٹ ، پتلی دبلی نہ ہو، اسے کوئی پسند نہیں کرتا ۔ مشاطائیں بھی یہ کہہ کر اپنا کندھا جھاڑ لیتی ہیں کہ اپنی چھوٹی بیٹی کی فکر کریں آپ کی بڑی بیٹی کی تو عمر نکل چکی ۔ ایسی بے ڈول لڑکی کو بھلا کون بیاہنے آئے گا۔ 
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ غریب بے چارہ جہیز جمع کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کی بیٹی ادھیڑ عمری کی دہلیز کو پہنچ جاتی ہے ۔ دوسری جانب امیر ہیں جو اپنے اسٹیٹس کے چکر میں بیٹی کے لئے کوئی مناسب رشتہ تلاش نہیں کرپاتے۔ لڑکے والوں کو دیکھیں تو وہ اپنے بیٹے کو شہزادہ گلفام سے کم نہیں سمجھتے چنانچہ ان کا دماغ آسمان پر ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہمارا ہی بیٹا ایسا ہے جسے رشتوں کی کوئی کمی نہیں ۔ اسی گھمنڈ میں وہ اپنے بیٹے کے لئے بہو تلاش کرتے وقت لڑکی کا سر سے پاﺅں تک معائنہ کرتے ہیں ۔
دوسری جانب یہ بھی درست ہے کہ ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شریک سفر ”حسینہ¿ عالم“ ہوتا کہ اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے لیکن ازدواجی زندگی کو خوشگوارانداز میں گزارنا بھی ایک فن ہے۔ انسان باہمی افہام و تفہیم سے یہ آرٹ پیدا کرسکتا ہے لیکن عام طور پر زندگی میں وہ چیزیں حاصل نہیں ہوتیں جن کی انسان دل میں خواہش رکھتا ہے ۔ بہرحال یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جن کو بھی ہم اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں ، انہیں پیار ، خلوص ، محبت کے ذریعے ویسا بنانے کی کوشش کریں جیسا ہم چاہتے ہیں یعنی اس کے مزاج کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیں، اس کی خوبیوں کی تعریف کریں اور اسے سراہیں، اسے اس کی خامیوں کا بہت ہی نرمی سے مناسب انداز میںاحساس دلائیں تا کہ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں 3دھان پان ، نازک لڑکیوں کو دکھایا گیا ہے جس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ لڑکیاں بے شک دبلی پتلی اور اسمارٹ ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ نقاہت او رکمزوری جیسے عارضے میں مبتلا ہو سکتی ہیںجس کی وجہ سے بعض دیگر بیماریاں بھی ان کو نرغے میں لے سکتی ہیں۔ انجام کار اپنے بچوں کی پرورش و تربیت کرنا بھی ان کے لئے ایک بڑا مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس ماضی میں خواتین اپنی صحت کا خیال کرتی تھیں اور ان کے ہاں کئی کئی بچے ہوتے تھے۔وہ آج کی طرح مشینی دور نہیں تھا ۔ وہ ہر کام ہاتھ سے کیا کرتی تھیں مگر پھر بھی اپنے اندر خدمات انجام دینے کی ہمت اورحوصلہ رکھتی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ادوار میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ فیشن بھی بدلتے ہیں۔ یہاں تک کہ تاریخ اورجغرافیہ میں بھی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے ۔ کل کا بچہ جوان ہو کر بوڑھا ہو جاتا ہے او رمرجاتا ہے۔ وہ مٹی تلے دبا دیا جاتا ہے ،یہ توزندگی کا چکر ہے۔ جو چیز شروع ہوتی ہے، اسے ختم تو ہونا ہی ہوتا ہے لہٰذا چیزوں کے شروع اور ختم ہونے کے درمیان بڑی بڑی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ 
بلا شبہ دنیا کا ہر مرد چاہتا ہے کہ میری بیوی میں ہر گن موجود ہو لیکن پھر بھی وہ اس سے خوش نہیں رہتا ۔اگر بیوی سے خوش رہتا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ ایک سال یا کچھ زیادہ، پھر بچوں کے بعد وہ اسے بے ڈول اور عمر رسیدہ لگنے لگتی ہے۔پھر وہ اسے بیوی کم اور اپنے بچوں کی ماں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ اس کی آواز شوہر کے کانوں کو زہرلگنے لگتی ہے ۔ کچھ سال مزید گزر جائیں تو شوہر صاحب اپنی بیوی کوآ وٹ آف فیشن قرار دے دیتے ہیںلہٰذا آج کے دور میں ہر لڑکی اورہر عورت یہی چاہتی ہے کہ وہ اسمارٹ اوردبلی پتلی نظر آئے۔ اس کے لئے لوگ لاکھوں روپے بھی خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کو حالات کے ساتھ چلنا چاہئے اور معاشرے کی تبدیلی کو قبول کرنا چاہئے ۔ جمود انسانی زندگی کے لئے اچھی چیز نہیں ۔ وہ انسان کو پیچھے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اپنی تہذیب و روایات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اسے بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہئے تا کہ ہماری پہچان دنیا میں برقرار رہ سکے۔ 
 

شیئر: