Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگی گیمز اولمپکس

عبداللہ المزھر©۔مکہ
ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ نئی قسم کی جنگوں کے منظر نامے دیکھیں گے۔ چیزیں تبدیل ہورہی ہیں۔ قوانین بھی بدل رہے ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ جنگ دھوکے کا نام ہے۔ اب صورتحال بدل رہی ہے۔ جنگ کے دونوں فریق پہلے سے سب کچھ طے کرلیتے ہیں۔ حملہ آور فریق پہلے ہی اپنے حریف کو بتا دیتا ہے کہ اس پر حملہ کیا جائیگا۔ فلاں وقت اور فلاں مقام پر حملہ ہوگا۔ حملے میں فلاں فلاں ہتھیار استعمال کئے جائیں گے۔ فریق مخالف حملے کے استقبال کی تیاری کے طور پر متعلقہ مقام کو ایسی تمام اشیاءسے خالی کردیتا ہے جو حملے کی صورت میں متاثر ہوسکتی ہوں۔ پھر چند لمحوں کیلئے حملہ کیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ بیانات کا طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اسمارٹ اور خوبصورت میزائل داغے جانے کی اطلاعات دی جاتی ہیں۔ یہ میزائل طیاروں اوربحری بیڑوں سے ایسے مقامات پر داغے جاتے ہیں جہاں کچھ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے مضحکہ خیز مقابلے تو دوستانہ فٹبال میچوں تک میں نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ جو کچھ فٹبال میچ میں ناقابل قبول ہے وہ بڑے ممالک کی جنگ میں واجب القبول ہورہا ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں بشار الاسد کے نظام اور اسکے روسی اسپانسر کے خلاف دوستانہ حملوں کا اعلان کیا۔ واضح کیا گیا کہ یہ حملہ نہتے عوام کو ہلاک کرنے کیلئے کیمیائی اسلحہ کے استعمال پر بطور سزا کیا جارہا ہے اور یہ سبق سکھانے کیلئے حملہ ہورہا ہے کہ کیمیائی اسلحہ کا استعمال صحیح ہے اور نہ ہی جائز ہے۔ شاید یہ سمجھانے کیلئے بھی یہ حملہ کیا گیا کہ جو کام خریدے ہوئے اسلحہ کے ذریعے کیا جاسکتاتھا اس کےلئے ایسے ہتھیار کیوں استعمال کرلئے گئے جو اندرون ملک تیار کئے گئے اور جن کے استعمال سے رائے عامہ مشتعل ہوتی ہو ۔نہتے عوام کو ہلاک کرنے کیلئے کیمیکل اسلحہ کے بجائے خریدے ہوئے روایتی ہتھیار استعمال کئے جاسکتے تھے۔ 
اس حملے کا دوسرا پہلو بڑا خوبصورت ہے۔ ویسے تو ہمارے سارے کام ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ میری مراد عرب سرزمین پر امریکہ کے حملے پر عربوں کا غیض و غضب ہے۔ عرب ناراض ہیں کہ آخر امریکہ کو ایک عرب ریاست پر حملے کی جرا¿ت کیونکر ہوئی۔ایسا لگتا ہے کہ امریکی حملے پر غیض و غضب کا اظہار کرنے والے غالباً روسیوں ، ایرانیوں ، ترکوں اور دنیا کی دیگر اقوام کی جانب سے سرزمین شام میں دراندازی کو معیوب نہیں سمجھتے بلکہ دیگر ممالک شام میں جو کچھ کررہے ہیں اسے وہ جائز گردان رہے ہیں۔ عربوں کے حوالے سے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ عرب ایسے ہی حیرت انگیز اقدامات میں یقین رکھتے ہیںجنہیں سمجھنا مشکل کام ہے۔
میں روسی اور امریکی دوستوں اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کے سامنے یہ تجویز رکھوں گا کہ وہ لڑائی جھگڑے کا نیا دور شروع کریںجو زیادہ معتبر ہو۔ زیادہ اشتعال آفریں ہو۔ کم خطرات کا حامل ہو۔ میری آرزو ہے کہ آئندہ ہونے والی جنگ میں ہر ملک اپنی ٹیم تجویز کرے اور یہ جنگ وڈیو گیم کی صورت میں ہو۔ مقابلے کا سارا منظر پوری دنیا کو دکھایا جائے ،یقین کریں اس سے بہت آمدنی ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: