Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخر کیوں.... ہم اپنے اصل ہیروکو نہیں پہچانتے

بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرکے انہیں قوم و مذہب سے بیزار کرنے والے ہی مغرب کے منظور نظر کیوں ہوتے ہیں، والدین اور اساتذہ فرائض ٹھیک سے انجام دینے لگیں تو تبدیلی آجائیگی
دانیال احمد۔دوحہ۔قطر
         ملالہ یوسف زئی کی پاکستان آمد پچھلے دنوں ایک اہم خبر بنی رہے۔ ہر چینل نے ملالہ کو کوریج دی اور انٹرویوز بھی لئے۔ سوشل میڈیا جو کہ آج کے دور میں عوام کی عدالت بن چکا ہے، اس عدالت میں بھی ملالہ کا مقدمہ اٹھایا گیا اور اس پر خوب جرح ہوئی۔ کچھ لوگ مدعی بن کر ملالہ پر غداری، وطن سے بغاوت اور ضمیر فروشی کا الزام دھرتے رہے اور کچھ وکیل صفائی بن کے ملالہ کا دفاع کرتے رہے۔ فریقین نے اپنے اپنے موقف پر بے شمار دلائل پیش  کیے لیکن حسب روایت سوشل میڈیا پر چلنے والے اس مقدمے کا حتمی فیصلہ بھی گھوم پھر کے عوام ہی کی آراء  پر منحصر رہا جنہوں نے یہ مقدمہ اٹھایا تھا۔
      سوشل میڈیا پر چلنے والی اس بحث پر تو میں خاموش ہی رہا لیکن اپنے قلم کے ذریعے اپنی قوم کو پیغام پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ  2000ء  کے بعد سے ہمارا ملک دہشت گردی کی زد میں ہے اور ہم اس دہشت گردی کے نتیجے میں 70000 سے زائد معصوم جانیں گنوا چکے ہیں۔ شمالی اور قبائلی علاقوں نے اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ وہ طالبان کی بربریت کا بھی نشانہ بنے ہیں اور ڈرون حملوں کا بھی۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوئے، کتنے ہی جوان شہید ہوئے، کتنے ہی لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔ ان تمام افراد پر نہ تو مغربی میڈیا نے کوئی توجہ دی اور نہ ان کی زندگی کو  بہتر بنانے کی کسی کو فکر ہوئی۔  پھر  2011ء میں اچانک ایک لڑکی پر طالبان کی جانب سے حملہ ہوا اور مغربی میڈیا سمیت پوری دنیا کے دل میں اس کے  لیے  ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک چھوٹے سے قبائلی گائوں میں رہنے والی ایک کمسن لڑکی حقوق انسانی، حقوق نسواں اور تعلیم نسواں کی سب سے بڑی علمبردار بن گئی۔ صرف یہی نہیں  بلکہ 2014ء  میں اس نے نوبل امن انعام بھی اپنے نام کر لیا۔ عوام اس لڑکی کو قوم کا افتخار سمجھنے لگے لیکن قوم کی اسی بیٹی نے پاکستان کے وجود پر ہی سوال اٹھا دیا۔ وہ کہنے لگی کہ ہندوستان کی تقسیم یعنی پاکستان کا وجود میں آنا تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔  ملالہ یوسف زئی کا مغربی میڈیا کو دیا گیا وہ انٹرویو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر پاکستان آرمی پر الزام تراشی کرتے ہوئے اسے اپنے علاقے کی زبوں حالی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے اور آرمی کو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہی ہے۔
      یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ الطاف حسین 1992ء  سے لندن میں مقیم ہے۔ وہ برطانوی شہریت کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں مہنگے اپارٹمنٹ اور جائداد کا مالک ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ جائداد، یہ دولت کس طریقے سے بنائی گئی ہے۔ الطاف حسین اپنی تقاریر میں کئی  مرتبہ پاکستان توڑنے کی بات کر چکا ہے۔ اس شخص نے ایک نجی ٹی وی چینل پر براہ راست انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستان کا بننا تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہ کہ علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کا مطالبہ کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ موصوف نے پاک فوج پر بھی کڑی تنقید کی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بقا ء اور تعلیم کے فروغ کی آڑ  میں خفیہ مقاصد کیلئے کام کرنے والے کئی ادارے موجود ہیں جنہیں موم بتی مافیا بھی کہا جاتا ہے۔ ان اداروں کا گھنائونا چہرہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں  دیکھاگیا جب انہی اداروں سے وابسطہ خواتین نازیبہ، ناشائستہ اور فحش نعروں پہ مشتمل پوسٹر لے کر شہر کی سڑکوں پہ نکل آئیں۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس موم بتی مافیا کے تانے بانے بھی مغرب ہی سے جا کر ملتے ہیں۔ اس  مافیا کے زیر اثر چلنے والے اسکولوں میں بچوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ بچوں کی ایسی ذہن سازی کی کوشش ہے کہ جس سے انہیں نہ صرف پاکستان اور پاک فوج بلکہ اسلامی نظریات و عقائد سے بھی متنفر کر دیا جا ئے۔ انہیں پڑھائی جانے والی کئی کتابیں انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں۔
قیام پاکستان کو ایک تاریخی غلطی سمجھنے والے، افواج پاکستان سے نفرت کرنے والیاںور بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر کے انہیں قوم و مذہب سے بیزار کرنے والے ہی مغرب کے منظور نظر کیوں ہوتے ہیں۔ یا پھر یوں کہیئے کہ خدا جانے آخر مغربی ممالک کے پانی میں ایسی کونسی تاثیر ہے کہ جو بھی اسے پی لیتا ہے اس کے اندر اپنی ہی قوم اور اپنی ہی اصل کے خلاف زہر بھر جاتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ جن پر بحیثیت قوم ہمیں آج غور کرنا ہی ہوگا ورنہ کل ہماری پوری نسل انہی چند ضمیر فروش لوگوں کی طرح باغی ہو جائیگی اور ہم مکمل طور پر ان لوگوں کے ہاتھ کی کٹ پتلی بن کر رہ جائیں گے جو آج بھی ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمیں آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم مغربی میڈیا اور اس کے ایجنڈے پر کام کرنے والے ہمارے ملک میں موجود کچھ میڈیا گروپس کی جانب سے دکھائے  جانے والے جھوٹ پر ہرگز یقین نہ کریں بلکہ تحقیق کے ذریعے اس جھوٹ کے پیچھے چھپے سچ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اس موقع پر محسن نقوی کا ایک شعر یاد آتا ہے۔۔
   اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان نہیں ہے،   تو حلقہء  یاراں میں بھی محتاط رہا کر
      ایک پروفیسر سے تبدیلی اور انقلاب کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا، کہنے لگے کہ ہمارے معاشرے میں صرف 2 طبقوں کو اصلاح کی ضرورت ہے اور وہ ہیں والدین اور اساتذہ۔ جس دن یہ 2 طبقے اپنے فرائض ٹھیک سے انجام دینے لگے، تبدیلی خودبخود آ جائیگی۔ درحقیقت یہ ہمارا ہی فرض  کہ ہم بحیثیت والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو دوست اور دشمن کا فرق سمجھائیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ ہمارے وطن اور ہماری قوم کے  لیے اصلی ہیرو کون ہیں اور ہماری صفوں میں موجود ہیرو نما منافق کون ہیں۔ اگر بات تعلیم کے لیے قربانی دینے کی ہے تو پھر ہمارا ہیرو اعتزاز حسن ہونا چاہیئے جو اپنے اسکول کو بچانے کے  لیے خودکش بمبار سے لپٹ گیا تھا۔ ہمارے لیے مثالی کردار اے پی ایس کی پرنسپل طاہرہ قاضی ہیں جنہوں نے اپنے طلبہ کی خاطر جان دے دی اور ہمارے لیے مثال اے پی ایس کے وہ بچے ہیں جو اتنے خوفناک سانحے کو دیکھنے کے بعد بھی بہادری اور دلیری کے ساتھ اگلے ہی روز اسکول آئے تھے۔ اور ہماری قوم کا فخر ہماری فوج ہے جس نے دہشت گردوں کو ناکوں چنے چبوا کر پاکستان سے مار بھگایا ہے اور ان کی پناہگاہوں کو نیست و نابود کر کے امن و امان کو بحال کیا ہے۔ وطن دشمن  ان سب کو کوئی  اہمیت نہیں دیتے بلکہ ان سے بغض رکھتے ہیں، آخر کیوں؟ اب فیصلہ قوم کے ہاتھ میں ہے کہ قوم ان دونوں گروہوں میں سے کس کا ساتھ دیتی ہے، کسے اپنا ہیرو مانتی ہے۔ علامہ اقبال ایسے موضوعات پر قوم کی کچھ یوں رہنمائی کر گئے ہیں:
   اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
   خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: