Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر میں سب سے چھوٹی بیٹی تھی، سسرال میں سب سے بڑی بہو ہوں ،تبسم نا صر

 تسنیم امجد ۔ریا ض
زندگی رب کریم کی عطا ہے ۔یہ کتنی ہے ، کیسی ہے، کسی کو علم نہیں۔ یہ اُس طرح گزرتی ہے جس طرح رب کریم چاہتا ہے، یہ اتنی ہوتی ہے جتنی رب کریم مقدر فرماتا ہے۔ عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو خالق کائنات کے اس تحفہ¿ زندگی کو اسی کے احکامات کے مطابق گزارتے ہیں۔ راہ میں نشیب آجائے تو قدم ڈگمگاتے نہیں اور فراز زیرِ پا ہو تو اتراتے نہیں۔ عیش و نشاط میں شکر اور مشکلات میں صبرکا دامن نہیں چھوڑتے ۔ وہ رب کریم کی رضا پر راضی رہتے ہیں، وہ ہر ہر سانس پر یہی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کریم کی رضا درکار ہے ، دنیا کی طلب بے کار ہے۔
سچ ہے کہ بلند کردار کے لوگ محنت اور جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں ۔اپنی ہی کا وشوں سے حصولِ مقصد ان کے لئے سہل ہو جاتا ہے ۔ہر انسان اپنے ما حول کی پیداوار ہے ۔اس کی شخصیت پر اس کی چھاپ بہت گہری پڑتی ہے ۔وہ زندگی بھر اسی کے تا بع رہتا ہے ۔خود اعتمادی اور او لو ا لعز می سے راستہ آ سان ہو جا تا ہے ۔حرکت ،جہد اور مشقت ہی زندگی کا دوسرا نام ہے ۔تمنا اور تلاش انسانی سر شت کا خا صہ ہے جو اسے سر گرمِ عمل رکھتی ہے ۔یہ انسانی زندگی میں ایک تحریک کی ما نند ہے۔بحرِ مشکلات میں غو طہ زن ہو کر مو تی چننے میں جو لطف ہے وہ سا حل سے لہروں کے اگلے ہو ئے مو تی چننے میں ہر گز نہیں ۔اردو نیوز اسی تحریک کی بدولت ہمیں ہر ہفتے کسی نہ کسی مو تی سے متعارف کرا کر آ گہی و تجربے کا نیا باب روشن کر کے ہماری حیرت میں ا ضا فہ کرتا ہے۔
رواں ہفتے ہم آ پ کا تعارف ایک ایسی ہستی سے کر وا رہے ہیں جو اپنی مثال آ پ ہیں ۔انہیں کئی بار مختلف محافل میں دیکھا اور دل بھی چا ہا کہ اس مقنا طیسی شخصیت سے بات کی جا ئے لیکن ہر بار ما یو سی ہو ئی اس لئے کہ یا تو وہ کسی اور سے باتوں میں مصروف ملتیں یا ہمیں کوئی بلا وا آ جاتا ۔اس مرتبہ یوں ہوا کہ ہوا کے دوش پر ہم نے انہیں جا لیا۔محترمہ تبسم نا صر علی شیخ اک ایسی شخصیت ہیںکہ جن کا چہرہ ان کے نام کا آ ئینہ دار ہے ۔ہر لمحہ لبوں پر ٹہلتا تبسم اور دھیمی و میٹھی آ واز،نہایت متا ثر کن ہے ۔ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:
اسے بھی پڑھئے:شوہر افسانے کو سراہتے ہیں، میں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہوں، سیمیں
انسانی شعورتجربات سے ہی پختہ ہو تا ہے ۔میں نے نیروبی میں آ نکھ کھولی۔یہ کینیا کا دارا لحکومت ہے اور ان 47ممالک میں سے ایک ہے جو 1899 ءمیں دریافت ہوئے تھے ۔1963ءمیں اسے دا رالحکومت بنایاگیا ۔میرے دادا ،دادی 20ویں صدی کے آغاز یعنی 1900ءمیں ہی مشرقی افریقہ چلے گئے تھے ۔دادا کو ” ایسٹ انڈیا کمپنی“ کے تحت کینیا ،تنزا نیہ اور یو گنڈا ریلوے لائن بچھا نے کا پرا جیکٹ ملا تھا ۔ان کی تمام اولاد یعنی میرے بابا،چچا،تایا اور پھو پھیاں وہیں کی پیدائش ہیں ۔وہ دور نہایت خو بصورت تھا ۔دادی بے حد مزے سے اپنے تجربات سنا تی تھیں۔والد، نا صر علی شیخ کی شخصیت میرا آ ئیڈیل تھی ۔ویسے بھی سنا ہے کہ بیٹیو ں کے لئے ان کے والد ہی آ ئیڈیل ہوا کرتے ہیں ۔میری والدہ اختر فا طمہ ، بہت ہی با اصول خاتون تھیں ۔آج دونوں ہی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کی محبت بھری باتوں کی باز گشت ہر لمحہ سا تھ ساتھ رہتی ہے ۔
میرے وا لد ادبی شخصیت تھے۔وہ ایک انگریزی اخبار”دی اسٹینڈرڈ“سے منسلک تھے ۔اس کے علاوہ برطانوی پو لیس میں ایس پی کے عہدے پر تھے ۔اپنی کار کردگی پر وہ ا کثرسر ٹیفکیٹ اور میڈل وصول کرتے تھے جو ہمارے لئے فخر کی بات تھی ۔والدہ بھی نظم و ضبط کی پا بند تھیںاور والد بھی ۔ان دونوں کے ا حکام گھر کو بھی نہایت منظم رکھتے تھے۔ڈسپلن کی وجہ سے ہم بہن بھا ئی بھی والدین کے نقشِ قدم پر چلنے میں فخرمحسوس کرتے تھے۔والد کی تاکید تھی کہ انسان کو آل راﺅ نڈر بننے کے لئے ”بااصول“ہو نا چا ہئے ۔کسی محفل میں جا کر اپنا مقام بنانا آ نا چا ہئے ۔مل جل کر اور دوسروں کی عزت کر کے جو سکون ملتا ہے، اس کے کیا کہنے ؟ والدہ نے ہمیں پر فیکشن کا جو سبق پڑ ھا یا، وہ تو گھٹی میں پڑ گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جوکام بھی کرو ، بہترین کرو ۔وہ ہمیں گھر داری بھی خوب سکھا تی تھیں۔ہر پکوان کو لذ یذ ترین بنانے کی تلقین کرتی تھیں ۔مجھے کو فتے بنانے مشکل لگتے تھے لیکن انہوں نے مجھے کوفتوں کا ما ہر کر دیا ۔ان کے الفاظ یاد آ تے ہیں کہ سسرال جا کر اگر کچھ نہ آ یا تو میری تر بیت پر حرف آ ئے گا ۔یہ کہتے ہوئے تبسم ہنستے ہوئے بولیں کہ اتفاقاً مجھے سسرال میں ساس امی نے جو پہلی ڈش تیار کرنے کے لئے کہا وہ ’ ’کو فتے“ ہی تھے اور میں نے سو فیصد ان کی مر ضی کے مطا بق کوفتے بنائے، الحمد للہ ۔
والدہ ہماری پڑھائی پر بہت تو جہ دیتی تھیں۔شاید ان دنوں والد صا حب کی آ مدنی میں کچھ کمی آ ئی ہو گی کہ والدہ کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہو ئی کہ ” میں ایک رو ٹی کی بجا ئے آ دھی کھا لوں گی لیکن میرے بچو ں کی تعلیم میںکو ئی فرق نہیں آ نا چا ہئے“۔میرے لئے یہ سنہرے الفاظ ہیں جو مجھے اکثر یاد آ تے ہیں ۔بابا نے ان کی بات پرمانتے ہوئے دن رات محنت کی ۔وہ بلڈ پریشر ودل کے مر یض تھے لیکن انہو ں نے ہمارے لئے بہت کام کیا ۔
ہمارا بچپن بہت ہی خو بصورت گزرا ۔ہماری کو ئی خوا ہش رد نہیں کی جا تی تھی۔ہم 2 بہنیں اور2 ہی بھا ئی تھے۔والدین کی آ نکھوں کے تارے تھے ۔بڑی آ پی نسرین علی پھربھائی پر ویز علی اور جا وید حسن اور پھر میں۔ہم سب خوب کھیلتے تھے۔لوڈو، اسکریبل،کیرم اور مو نا پلی کے میچز کے لئے بڑے بھیا مجھے کہتے کہ ”گو اینڈ کریئیٹ دا ایٹمسفیر“ یعنی ”جاﺅ اور جا کر ماحول بناﺅ“۔اس طرح ہم بھر پور انداز میںکھیل کر گھر کا ما حول خو شگوار بناتے ۔ہماری محبت اور گرم جو شی سے والدین بہت محظوظ ہو تے ۔ابتدائی اسکولنگ وہیں ہوئی پھر بابا نے سو چا کہ فیملی کو پاکستان سیٹ کیاجائے چنانچہ ہم لاہور چلے آ ئے ۔تب میں6 برس کی تھی ۔6سے 9 برس تک ہم لاہورمیںرہے ۔بابا نے بز نس شروع کیا اور اپنی جمع پو نجی اس میں لگا دی لیکن اس میں نقصان ہوا ۔شاید اس لئے کہ بز نس میں تجربے کی ضرورت ہے ۔پار ٹنر شپ بھی ناکام رہی اور ہم واپس نیروبی لوٹ آ ئے۔سچ پو چھیں تو ہم بچے بہت ہی خوش ہو ئے ۔یہاں کا ما حول اوربچپن کی سہیلیاں ہماری جان تھیں۔ ہم رہتے بھی ایک کمپا ﺅ نڈ میں تھے ۔یہا ں ہم لڑ کیوں کو گا ڑی چلانے کی آ زادی تھی ۔ ہمارے گھر کا ماحول توپابند قسم کا تھا۔ دو نو ں بہنو ں کو اسی دائرے میں رہ کر اپنی من مانی کی اجا زت تھی ۔وہ ہنستے ہوئے بو لیںکہ اب تو یہ کہنے کو دل چا ہتا ہے کہ ”بچپن کی وہ امیری نہ جانے کہاں چلی گئی جب پا نی میں ہمارے بھی جہاز چلا کرتے تھے۔“
ایک سوال کے جواب میںتبسم ناصرنے کہا کہ میںبہت ہی ”بی با“ یعنی سیدھی سادھی بچی تھی ۔پڑھنے میں ٹا پر تو نہیں رہی لیکن 80 فیصد سے کم نمبر نہیں لا تی تھی کیو نکہ پھر والدین سے ڈانٹ پڑ تی تھی ۔بطور سزا سب تفریحی سر گر میا ں بند کر دینے کی دھمکی دی جاتی تھی۔اسی لئے یہ نو بت آ نے نہیں دیتی تھی۔ہر ایکیڈیمک پروگرام میں میری شمولیت ضروری تھی ۔تفر یحی ٹر پس کی ذمہ داری سنبھالنا بہت اچھا لگتا تھا۔ ٹیچرز میری تعریف کرتی نہ تھکتی تھیں۔میں ڈرامیٹک سو سا ئٹی کی بھی انچا رج بنی۔ ڈراموں میں حصہ لیا اور خود کو اس شعبے میں بھی منوایا۔ بیسٹ پر فار منس کے کئی ایوا رڈ و صول کئے۔ 
ہماری گفتگو کے دوران محترمہ تبسم ناصر کے شو ہر علی ممتاز عطا محمدبھی تشریف لے آ ئے۔ کہنے لگے کہ بیگم کے ا صرار پر جلدی آ نا پڑا۔ان کی بہت خواہش تھی کہ میری باتیں بھی ریکارڈہو جا ئیں۔میں بھی یہی چا ہتا تھا کہ اردو نیوز کو خراجِ تحسین پیش کروں۔یہا ں آ پ کو یہ بتاتے چلیں کہ تبسم کے شوہر بھی ا خلاق و اطوار میں بیگم سے کم نہیںتھے ۔ کہنے لگے میں اپنے والدین کے ہمراہ نیروبی چھٹی گزارنے گیا تھا۔ جن کے ہاں ٹھہرناہوا ان سے اِن کی فیملی کی دو ستی تھی ۔ڈ نر پر آ نا جا نا ہوا ۔میری والدہ عفت بیگم اور والد محترم ممتاز حسین کو ان کا فیملی بہت بھائی ۔تبسم کو وہ اپنی بہو بنانا چا ہتے تھے ۔ہنستے ہو ئے کہنے لگے کہ در حقیقت یہ مجھے بھی بہت پسند تھیں ۔والدین نے سوال کیا تو انہیں نہ کا جواب ملا ۔اس کی وجہ ، وہ اتنا ہی بولے تھے کہ تبسم نے بات اچک لی ۔بو لیں میرا انکار اس وجہ سے تھا کہ میں نیروبی کے ماحول کی عادی تھی اور وہاں سے باہر نہیں جانا چاہتی تھی ۔میری والدہ نے کہا کہ لوگ اچھے ہیں لیکن ہم تمہاری مرضی کے بغیر ہاں نہیں کریں گے ۔میں نے مرتبہ انکار کیا ۔ایک دن ان کی پھر آ مد ہو ئی تو میں نے بہت سوچ کر یہ فیصلہ کیا کہ اسی میں اللہ کریم کی ر ضا ہے ۔اپنی والدہ سے کہا کہ ان کو ہاں کہہ دیجئے۔
علی ممتاز نے بیگم سے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اب میں بول سکتا ہو ں؟ تبسم بولیں کہ ضرور لیکن ابھی میری خا صی با تیںرہتی ہیں ۔ علی ممتاز نے کہا کہ میری پیدائش جدہ کی ہے ۔میرے والدین 1950ءمیں یہا ں آ ئے تھے ۔والد ِ محترم کاروبار سے وا بستہ رہے۔ ریاض آ نے بعد بھی والد صا حب کی مصروفیات بز نس میں رہیں ۔میںنے الیکٹر یکل انجینیئر نگ مکمل کی تو والد صا حب کی خوا ہش پر بز نس کیا ۔مختلف پرا جیکٹس پر کام کیا ۔مجھے یاد ہے والد صا حب کہا کرتے تھے کہ الحمد للہ، خوب ٹھیکے مل رہے ہیں ۔ریا ض میں سب سے پہلا پاکستانی ریسٹو رنٹ 1980 ءمیں کھلا جسے بہت پسند کیا گیا ۔تبسم نے پھر شو ہر سے بات کرنے کی اجازت چا ہی اور بو لیں کہ جب میں16 برس کی تھی تو میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔گھر کا ہر فرد اس سے متا ثر ہوا لیکن مجھے ایسا لگا کہ میں ایک دم سے بڑی ہو گئی ہوں ۔میرا بچپن اورشوخی یکدم خاموشی میں بدل گئی ۔میں نے پڑھائی مکمل کرتے ہی ایک جر من فرم میں ملازمت کر لی ۔والدہ اکیلی ہونے کے سبب میری جلد شادی کر نا چا ہتی تھیںتاکہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جا ئیں۔شادی کے وقت میں 20 برس کی ہو چکی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے ما ں کی دعائیں قبول فرمالیں۔آج میں بہت خوش ہوں ۔مجھے بہت ہی محبت کرنے والا سسرال اور شو ہر ملا ۔ساس سسردو نو ں نہا یت نفیس تھے۔ میں یہا ں سب سے بڑی بہو ہوں جبکہ گھر میں سب سے چھو ٹی تھی۔یہا ں بڑی ہو نے کے نا تے میری ذمہ داریاں مختلف تھیں ۔اللہ کریم کا شکر ہے میں نے خود کو ثابت کر کے منوا لیا ۔میری ساس امی مجھ سے بے انتہاءمحبت کرتی تھیں ۔میں سسرال میں سا ڑھے 9 برس رہی ۔یہ دور سنہری تھا۔میں نے محبتیں بٹو ریں۔ہر ایک کو ان کے درجے کے مطابق ؑعز ت دی ۔یاد نہیں کبھی بھولے سے بھی کو ئی رنجش ہوئی ہو۔اگر ہوئی ہو گی تو وہ میری طرف سے ہی کوئی زیادتی ہو گی ۔آ ج ساس و سسر دو نوں اس دنیا میں نہیںلیکن سسرال کو یکجا رکھنے کا فرض میں ضرور نبھارہی ہوں ۔نندیں بہنوں کی طرح ہیں ۔شوہر کے تعاون کی میں مشکور ہوں ۔مجھے ٹریو لنگ کا شوق ہے ۔شوہر اس میںمیرے معاون رہتے ہیں ۔میں جا نتی ہو ں کہ رشتو ں کی ڈور بہت خو بصورت ہے ۔اس کی مضبوطی آ پ کے ہاتھ میں ہے۔بچپن بہت خو بصورت گزرا۔ میری شخصیت اسی دور میں مکمل ہو ئی ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں 3 بیٹوں سے نوازا۔بڑا ھانی علی پھر عمران علی اور پھر یو سف علی ۔علی ممتاز عطا نے کہا کہ انسان کی زندگی یکسانیت سے رواں نہیں رہتی ۔بعض اوقات اچانک کو ئی سا نحہ زندگی کی گا ڑی کو ہلادیتا ہے ۔ہمارا چھو ٹا بیٹایوسف ہمیں دا غِ مفارقت دے گیا ۔5مارچ 2001ءکی عید ا لاضحی کی صبح ہمارے لئے قیامت سے کم نہ تھی جب اس کے کار ایکسیڈ نٹ کی خبر ہمیں ملی ۔وہ ابھی صرف 16 برس کا تھا ۔عید کے دن دو ستوں سے ملنے نکلا اور سوچا کہ ابھی پلٹ آ ﺅ ں گا ۔تبسم اپنے بھائی کے پاس نیو یارک گئی ہو ئی تھیں ۔ان کے بغیر مجھ پر کیا بیتی ہو گی اس کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے ۔ اس لمحے ان کی آ واز بھرا گئی ،تبسم بھی آ نسو ﺅ ں پرقابو نہ رکھ سکیں ۔ کہنے لگیں:
ہم تو سمجھے تھے کہ یہ ز خم ہے بھر جا ئے گا 
کیا خبر تھی کہ رگ ِ جا ں میں اتر جا ئے گا 
اولاد کا دکھ والدین کہاں بھلا سکتے ہیں بھلا ۔ہمارا بیٹا اپنے نام کی طرح بے حد پیارا تھا ۔مجھے بھائی نے کچھ نہ بتایا اور میری واپسی کی سیٹ کے لئے فکر مند ہو گیا ۔اتفا قاً اس دن وہاں مو سمی حالات کی خرابی کے با عث فلا ئٹ کینسل ہو گئی ۔بھا ئی نے را ئل ائیر مراکو میں بھی بکنگ کرا ئی۔آ خر 27گھنٹے کے طویل سفر کے بعد میں ریا ض پہنچی تو کچھ دیر کے لئے تو سمجھ بو جھ جواب دے گئی ۔الفا ظ اوپر سے گزرتے محسوس ہوئے ۔ایسا لگا سب جھو ٹ ہے ۔میرے بچے کی تدفین 7مارچ کو کر دی گئی تھی ۔مجھے اس کا آ خری دیدار بھی نہ ملا ۔میں بغیر پانی کے مچھلی کی طر ح تڑپ رہی تھی ۔پھر مجھے یہ سوچ کر قرار آ یا کہ نہ جا نے اس میں اللہ کریم کی کیا مصلحت ہو گی ۔میں تو صرف اللہ کریم سے ہی باتیں کر تی ۔علی ممتاز مجھے کیا تسلی دیتے،وہ تو خود چکنا چور تھے ۔جوان بیٹے کواپنے ہا تھوں سے قبر میں اتا رنے والا باپ غم سے نڈ ھال تھا۔ ہم دو نو ں کو ایک چپ سی لگ گئی۔میں تو ایک جدائی کا صدمہ اپنے بھا ئی جا وید حسن کی موت کا پہلے ہی سہ چکی تھی ۔ بیٹے کی موت نے تو کمر ہی توڑ دی:
مجھ کو شکوہ ہے مرے بیٹے کہ تم جا تے ہو ئے 
لے گئے ساتھ مری عمر گز شتہ کی کتاب
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب
اس کے بد لے میں مجھے دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خو ں رنگ گلاب
آ خری بار ذرا مان لو اک یہ بھی سوال
آ ج تک تم سے نہ پایا کبھی ما یو س جواب
آ کے لے جا ﺅ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لو ٹا دو مری عمرِ گز شتہ کی کتاب
یوسف کی وفات جب ہو ئی تب ہماری شادی کو 22سال ہوئے تھے ۔میں نے یہ وقت گھر میں ہی گزارا۔ تمام ذمہ دار یاںخوش اسلو بی سے نبھانے میں مصروف رہی ۔گو کہ خواتین کے گروپوں میں شا مل رہی ۔انٹر نیشنل لیڈیز گروپ اور ہمنوا لیڈیز گروپ میں آ گے آگے رہی ۔ان کے عہدوں پر بھی کام کیا ۔بچپن کی عادات اور شوق تو رہتے ہی ہیں ۔دوست بھی خوب مخلص بنے۔ہماری کا فی مارننگز ہوتیں، ہم اکثر فائیو اسٹار ہوٹل میں میٹنگز کرتے ۔بہت خو بصورت وقت تھا ۔جاب والی ذمہ داری نہیں تھی، مر ضی کی انٹر ٹینمنٹ تھی ۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ دو نو ں بڑے بیٹے امریکہ پڑھنے گئے تھے ۔گھر کی خا مو شی سا ئیں سا ئیں کرتی ۔ہم دو نوں ایک دوسرے کو تکتے ، کوئی بات کرنے کو نہ تھی ۔میں نے ان حالات میںاپنے سسر ابو سے جاب کرنے کی اجازت چاہی ۔میری نند نے میری مدد کی ۔اس طرح 2001ءمیں میری پہلی ملازمت خصو صی یعنی ہینڈ ی کیپ بچو ں کی میڈیکل سیکریٹری کے طور پر تھی ۔مجھے بہت خو شی ہو ئی کہ مصرو فیت کا بہانہ مل گیا۔ تنخواہ کیا ہو گی، مجھے اس سے کو ئی غر ض نہ تھی ۔خا صی مشکل لگی لیکن میں نے اسے سیکھا۔ یہاںآنا بھی شاید میرے لئے ایک معجزہ تھا ۔ان بچو ں کو دیکھ کر مجھے حو صلہ ملا ۔ان کے ماں باپ انہیں چھوڑ کر جاتے ۔ان کے چہرے کا کرب میں محسوس کرتی ۔ان بچو ں کی چھو ٹی چھو ٹی خو شیوں پر وہ کھل اٹھتے ۔میں سو چتی کہ میرا بیٹا تو گیا اور مجھے ایک مرتبہ ہی غم دے گیا لیکن یہ ما ں باپ تو روز مرتے ہیں اور جیتے ہیں ۔ان کا مستقبل کیا ہے ،انہیں خبر ہی نہیں۔یہا ںاڑ ھا ئی سال کام کیا ۔اس دوران میرے دونوںبیٹے تعلیم مکمل کر کے لو ٹ آئے۔ ان کی ذمہ دار یاں منتظر تھیں ۔دل کو بھی کچھ سکون مل چکا تھا ۔جاب کی ٹا ئمنگ بھی اب طویل محسوس ہو رہی تھی ،اس لئے اسے چھو ڑ دیا ۔
دونوں کی شادیاں کیں ۔زندگی ایک مرتبہ پھر پلٹ آ ئی تھی ۔اب بیٹا ھانی علی معروف کمپنی میں آ ڈیٹر کے عہدے پر یعنی’ ’سی ایف او“سے منسلک ہے اس کی بیگم کا نام عا لیہ ہے ۔ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ،ما شا ءاللہ عمران علی ریاض میں ہی ہے ۔وہ ائیر لائنز میں مینٹیننس انجینیئرہے ۔اس کی بیگم زا ئیرہ ہے ۔اللہ تعا لیٰ نے انہیں 2بیٹوںسے نوا زا ہے ۔الحمد للہ، دو نو ں بہو ﺅ ں نے بیٹی کی کمی دور کر دی ۔اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ ان کی صحت و خو شیو ں کی دعا ہے ۔یہا ں وہ کچھ رک کر بو لیں،ایک بار پھر فرا غت ڈسنے لگی ہے ۔فر صت میں خیالات، ما ضی میں لوٹ جاتے ہیںاور یادیں دبوچ لیتی ہیں ۔میں نے سو چاہے کہ پھر سے مصروف ہو جا ﺅں۔اللہ کریم کا شکر ہے ،اس کی ر حمتیںسا تھ ہیں۔ ہم پھو لو ں کی نمائش دیکھنے گئے تھے۔وہاں سعودی ٹیلی وژن کے کیمرہ مین شا ئقین کو روک کر وڈیو بنا رہے تھے ۔وہاں میں نے انگلش چینل کے بارے میں ان سے پو چھا تو انہوں نے مجھے ایک نمبر دے دیاکہ یہاں سے معلومات مل جا ئیں گی۔مختصر یہ کہ وہاں مینجنگ ڈا ئیر یکٹر نے مجھے میری مر ضی کی جاب کی پیشکش کر دی ۔میں اسکرین کی بجائے اس کے پیچھے رہ کر کام کی خوا ہشمند تھی ،الحمد للہ، اب 2006ءسے اب تک چیف نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتی رہی ۔حال ہی میں منسٹری آ ف کلچر اینڈ انفارمیشن کی جا نب سے کچھ تبدیلیاں لا ئی گئیںتو مجھے ریا ض ریڈیو کی انگلش ٹرانسمیشن( سینسر شپ ) کی ذمہ داری سو نپ دی گئی ۔اللہ تعا لیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے غم دیا تو اس کا مداوا بھی فرمایا ۔مصرو فیت بھی ایک نعمت ہے ۔اللہ کریم اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھو ڑتا۔
علی ممتاز ہماری گفتگو سن رہے تھے ۔بو لے کہ مجھے بھی وقت اور مصروفیت نے نارمل کیا۔کاروباری مصروفیات کے ساتھ ساتھ میں بیگم کے ٹریو لنگ کے شوق کا بھی احترام کرتا ہوں۔انہیں ملک ملک گھوم کر وہاں کی ثقا فت جا ننے کا بہت شوق ہے ۔اب تک کو ئی 35 ممالک گھوم چکے ہیں ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ ہماری ذہنی ہم آ ہنگی نے بدلتے حالات کے مطا بق ڈ ھلنے میں ہماری معا و نت کی ۔گر ہستی میں مرد کی وسیع ا لنظری خو شگوار زندگی کی ضما نت ہو تی ہے ۔الحمد للہ، ہمارے گھر میں خلوص ، سادگی اور محبتو ں کی پھوار سے زند گیا ں بہت آ سان ہیں ۔تبسم کو کتا بیں پڑ ھنے کا بھی بہت شو ق ہے ۔کہنے لگیں میں نے اردو کے بھی ناول شوق سے پڑھے ہیںجبکہ میں نے اردو با قا عدہ اسکول میں نہیںپڑ ھی۔نیروبی میں یہ نہیں تھی ۔میری ماما کو شوق تھا کہ ہم کسی بھی شعبے میں پیچھے نہ رہیں۔ان کی خواہش پر بڑے بھا ئی نے مجھے بچو ں کااردو رسالہ لگوا دیا ۔اس کی پو سٹ میرے نام تھی جس پر میں پھو لے نہیں سماتی تھی ۔اس کی کہا نیاں میں کئی کئی بار پڑ ھتی ۔اس کے علاوہ نیروبی میں ایک لا ئبر یری بھی تھی سیلف میڈ قسم کی ۔ہر زبان کی کتب کسی نہ کسی حد تک میسر تھیں۔ اس نے بھی اردو سیکھنے میںمیری مدد کی۔اللہ کریم کا شکر ہے ،اب میں اردولکھ اور پڑ ھ سکتی ہو ں ۔
تبسم نے میڈیا کی وسا طت سے پیغام دیتے ہوئے کہاکہ سمجھو تو ں کی را ہیں اپنانے میں ہی عقلمندی ہے ۔عورت خاندانی نظام میں نیو کلیئس یعنی مر کزے کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس کے گرد سب رشتے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے کسی نہ کسی طور محبتوں کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ان میں محبتیں با نٹنے میں ہی مزہ ہے ۔سب سے اہم تو یہ ہے کہ اپنی زبان کا استعمال بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا چا ہئے ۔یہ رشتوں کو جوڑے رکھتی ہے ۔ہر رشتے کو عزت دینا ہی ایک خو شگوار زندگی کی کنجی ہے ۔میری پسند کے چند اشعار:
اپنی آ نکھو ں میں کوئی خواب سجا کر دیکھو
زندگی سامنے ہے سر تو ا ٹھا کر دیکھو
جان جا ﺅ گے نوا بنتی ہے شعلہ کیسے
میری آ واز میں آ واز ملا کے دیکھو
کیا خبر تم کو مصور پہ گزرتی کیا ہے
اپنی تصویر کبھی خود بھی بنا کر دیکھو
صاف شفاف نظر آ ئے گی ساری دنیا
شیشہ دل پہ جمی گرد ہٹا کر دیکھو

شیئر: