Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالم اسلام بیمار ہے....دوا اساتذہ کے پاس

ڈاکٹر عبداللہ بن موسیٰ الطائر ۔ الجزیرہ
روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میںجتنا کچھ کہا جائے، انکے مصائب کی حقیقی منظر کشی سے قاصر ہوگا۔ میں یہ سطور بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے تحریر کررہا ہوں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی بابت جتنے وڈیو کلپس اور جس قدر تصاویر منظر عام پر آئی ہیں وہ اس عذاب کی حقیقت کی جزوی ترجمان ہوسکتی ہیں جن سے وہ میانمار اور دارالہجرہ میں دو چار ہوئے ہیں۔ میرے اس دعوے کو سمجھنے کیلئے ایک مثال کافی ہوگی جس سے آپ میانمار کے ایک انسان کے حقیقی دکھ درد کو محسوس کرسکتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ آپ کے بیٹے کو آپ کے ہاتھ سے چھین کر آپ کے سامنے آگ میں ڈالدیا جائے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے۔ یہ مثال مبالغہ آمیز نہیں بلکہ حق اور سچ ہی ہے کہ یہ جبر و تشدد کی کُل حقیقت کا معمولی سا حصہ ہے۔ یہ روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے بھیانک مظالم کا ایک معمولی سا نمونہ ہے۔
سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے اس بحران کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کرنے کی جو کوشش کی اس نے اس المیے کو ہمارے لئے ایک تفریح کا سامان بناکر رکھ دیا۔ ٹی وی کے مناظرکے حوالے سے عرض ہے کہ اس نے ہمیں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں درد کی ماری ماں کے آنسو دکھائے جو اپنے پورے خاندان کی ہلاکت پر بہا رہی تھی۔ خاندان کا ایک، ایک فرد اس کی آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا گیا۔ ابھی ہم اس درد کی ٹیس کو کنٹرول بھی نہیں کر پائے تھے کہ ٹی وی نے ہمیں ایک دوسرا منظر دکھایا جو سراسر تفریحات کا نمائندہ تھا۔ اس صورتحال نے آنسوﺅں ، حقیقی دکھ درد اور تفریحاتی مناطر کو خلط ملط کرکے رکھ دیا۔
روہنگیا کے لوگوں کے مذہب سے قطع نظر انکے نسلی انتساب اور سیاسی مسائل سے ہٹ کر بھی اگر دیکھا جائے، غور کیا جائے تو یہ بات بخوبی سامنے آتی ہے کہ روہنگیا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ ہے۔ یہ انسانی حقوق کی علمبردار جماعتوں، تنظیموں اور انسانوں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ روہنگیا کے لوگوں کے ساتھ جبر و تشدد کی سرپرست خاتون کو نوبل امن ایوارڈ عطا کردیا گیا۔ گویا اس خاتون کو بے قصور انسانوں کے قتل کا اجازت نامہ دیدیا گیا۔انسانی ضمیر کو امدادی اسکیموں کے ذریعے خاموش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ امدادی عمل بجائے خود اہم ہے لیکن اس سے مصیبت کے ماروں کے دکھ ختم نہیں ہوسکتے۔ جب بھی مسئلے کے ظاہری حالات پر توجہ مرکوز کی جائیگی اور مسئلے کو جڑ سمیت حل کرنے کی کوشش نہیں کی جائیگی ،تب تب صورتحال دھماکہ خیز بنے گی۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ عالمی نظام چلانے والے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو ٹھوس بنیادو ںپر حل کرائیں۔ آنے والا مورخ انکی اس غفلت شعاری کو کبھی معاف نہیں کریگا۔ چین ، امریکہ، روس اور یورپی یونین میں شامل ممالک میانمار کی حکومت پر سیاسی حل تھوپ سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کررہے ۔
اگر آپ مجھ سے مسلم ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کی بابت دریافت کرینگے تو میں یہی کہوں گا کہ ایسے ممالک کو اس قسم کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا جو خود 21ویں صدی میں انسانی مسائل کا شکار ہوں، قرین انصاف نہیں۔ یہ ممالک جب جب امدادی اور سیاسی اعتبار سے کسی کام کا عَلم بلند کرتے ہیں تو ایسے ممالک جن کے ہاتھ میں مسائل کا حل ہوتا ہے وہ ان کے سامنے دیوار چین بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ او آئی سی کے ماتحت اقتصادی، سماجی و تربیتی تحقیقی مرکز” سسرک“ نے اعدادوشمارجاری کرکے بتایا ہے کہ پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی 61.5فیصد تعداداو آئی سی کے رکن ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔71فیصد لوگ جنہیں امداد کی اشد ضرورت ہے، ان میں سے 8.9ملین کا تعلق بھی او آئی سی سے ہے۔ پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے 10بڑے ممالک میں 7کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔
میں ایک دانشور ہوتے ہوئے مسلم امہ کیخلاف سازش کی بات کرنے کا مجاز نہیں البتہ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دنیا ان دنوں جن مصائب سے دوچار ہے ان سے اللہ تعالیٰ اور افرادی قوت کے فرو غ کے سوا کوئی اور طاقت نہیں نکال سکتی۔ اس کے علاوہ جو بھی حل پیش کئے جائیں گے وہ وہم ہیں۔ اگر آپ کے یہاں علمی ، فکری اور ہنر کے لحاظ سے آراستہ انسان نہیں ہونگے، اگر آپ کے یہاں مثبت شکل میں کام کرنے والے نہیں ہونگے تو مسائل حل نہیں ہونگے اسی لئے میں پورے اعتماد سے یہ کہتا ہوں کہ مسلم دنیا کے مسائل کے حل کی تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے کندھوں پر ہے۔ میں ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ ماضی میں انہوں نے کیا کچھ کیا مگر تاریخ ان سے مستقبل کے حوالے سے احتساب ضرورت کریگی۔ یاد رکھئے کہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ گارنٹی دی جاسکتی ہو کہ وہ مذکورہ آفات و مصائب کے شکار ممالک کی فہرست سے خارج ہے اور رہیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: