Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کفایت شعاری ، توازنِ حیات، نمود و نمائش، لا حاصل مشق

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
ارے دیکھو حنا بڑازبردست برانڈ ڈ سوٹ ہے۔ اس کا رنگ بھی بہت پیارا بالکل تمہاری پسند کے مطابق ہے ۔ عید بھی قریب ہے میں نے تو کئی سوٹ خرید لئے، میرے تو پیسے بھی ختم ہوگئے ورنہ میںخرید لیتی۔ اس مہنگائی کے دور میں اس قیمت میں برانڈڈ سوٹ کا ملنا ناممکن ہے ۔ تم لے لیتیں تو اچھا ہوتا تم پر سوٹ بھی کرے گا۔ حنا نے سوٹ کی قیمت دیکھی اور واپس رکھ دیا حالانکہ اسے بھی وہ سوٹ بہت پسند تھا مگر اس کے حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ وہ یہ سوٹ خریدتی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہ سوٹ خریدے گی تو اس کے گھر کا بجٹ آﺅٹ ہوجائے گالہٰذا اس نے یہ کہہ کر سوٹ رکھ دیا کہ میرے پاس ایسا ہی ایک سوٹ موجودہے۔ پھر دوسرا مناسب قیمت کاسوٹ خرید لیا جس پر اس کی بہن فرح نے خوب مذاق اڑایا کہ شادی کے بعد تم بہت کنجوسی کرنے لگی ہو۔ 
حنا اور فرح دونوں سگی بہنیں تھیں ۔ فرح کی شادی خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی جبکہ حنا متوسط گھر انے میں بیاہی گئی تھی۔ یوں تو حنا کو اچھا کھاناپینااور گھومنا پھرنا سب کچھ میسر تھا لیکن بے جا آزادی اور فضول خرچی کی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے شوہر پر دہری ذمہ داریاں بھی عائد تھیں۔ والدین کے علاوہ ایک بہن اور بھائی ابھی زیر تعلیم تھے۔ دونوں کی تعلیم کا خرچ بھی تھا۔ ایسے میں بھلا فضول خرچی کی گنجائش کہاں سے نکلتی۔
شروع میں تو حنا اپنے گھریلو حالات سے بڑی بیزار ہوجاتی تھی مگر پھر اس نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ۔ خصوصاً اس کے شوہر کے حسن سلوک کی وجہ سے وہ اس زندگی کی عادی ہوگئی۔ اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ کسی طرح بھی فضول خرچی بالکل نہ ہونے پائے۔وہ اپنے شوہر کو پریشان نہ کرے۔اپنی اس عادت کی وجہ سے اس نے بہت جلد سسرال والوں اور شوہر کے دل میں گھر کرلیا تھا۔ 
جب حنا کی نند کی شادی کا وقت آیا تو اس وقت بھی اسے احساس تھا کہ اپنے شوہر کی آمدنی میں رہتے ہوئے ہی اسے سب کچھ کرنا ہے لہٰذا جب اس کے شوہر نے بچوں اور اس کیلئے شاپنگ کیلئے کچھ رقم دی تو اس نے یہ کہہ کر واپس کردی کہ میرے پاس پہلے ہی بہت کپڑے ہیں۔ اس نے اپنی بری اور جہیز کے چند جوڑے نکال کر بنوائے اور انہیں ہی استعمال میں لے آئی۔ غرض ہر موقع پر وہ اس بات کا خیال رکھتی کہ کہیں پر بھی فضول خرچی نہ ہو، کسی سے قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ اس مثبت رویے کی وجہ سے شوہر نہ صرف پرسکون رہتا بلکہ اس کے دل میں بیوی کیلئے محبت اور عزت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ وہ بھی اس کا خیال رکھتا ۔یہی نہیں بلکہ سسرال والے بھی حنا پر فخر کرتے کہ قسمت والوں کو ہی ایسی بہو نصیب ہوتی ہے۔عورت کی اخلاقی اور معاشرتی خوبی کی وجہ سے گھر خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طرف تو مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تو دوسری طرف لوگ زندگی میں کفایت شعاری،میانہ روی سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور بے اعتدالی کا شکار ہورہے ہیں۔ حرص و ہوس بڑھتی جا رہی ہے ۔ آسائش کا سامان زندگی کالازمی حصہ بن چکاہے۔ اسٹیٹس برقرار رکھنے کی خواہش زور پکڑرہی ہے۔ زندگی میں بے اعتدالی کے باعث معاشرتی اور اخلاقی خرابیاں جنم لے رہی ہیں جنہیں کبھی پسندیدہ نہیں قرار دیا گیا۔ اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابل تعریف سمجھا گیا ہے۔ اس لئے ہمیں نہ صرف خود پربلکہ اپنے بچوں پر بھی کفایت شعاری اپنانے کے لئے زور دیا جانا چاہئے تاکہ ان کی زندگی میں توازن پیدا ہوسکے۔ فضول خرچی سے حتی الامکان بچنے کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ نمود و نمائش لا حاصل مشق ہے، اس سے نقصان تو ہو سکتا ہے ، فائدہ ہرگز نہیں۔ 
 

شیئر: