Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج افطار دعوتیں بھی ہمارا اسٹیٹس سمبل بن چکیں

تسنیم امجد۔ ریا ض
ہمیں آ ج تک با دام کے اس شربت کا ذا ئقہ نہیں بھو لا جو دادی تیار کرتی تھیں۔ان کا حکم تھا کہ روزہ کھولتے وقت یہ شربت ضرور پینا ہے ۔کھجو روںکے بھرے پیا لوں کو بھی خالی کیا جاتا جو ہر میز پر رکھے ہو تے تھے ۔مردو ں کی میز الگ ،پھر بچو ں کی اور خوا تین کی میز سجی ہوتی تھی ۔ما ں افطار سے آ دھ گھنٹہ قبل سب میز یںتیار کر دیتی تھیں ۔دادا کسی نہ کسی رشتے دار کو ضرور مد عو کرتے ۔باری باری سب آ جاتے اور کچھ دادا کی با تیں سنتے اور پھر دعا ﺅ ں کے لئے سب کے ہا تھ اٹھ جا تے ۔نماز کی صفحیں قریب ہی صحن میں بچھی ہوتی تھیں۔دادا امامت کراتے ۔ان کی تلاوت کلام پاک سے گھر میں ایک با بر کت ما حول بنا ہو تا ۔کچھ ہی دیر میں کھا نا لگ جاتا ۔دادی کا کہنا تھا کہ الا بلا یعنی فرائی و کھٹی میٹھی چیزو ںسے پیٹ بھرنے سے بہتر ہے کہ کھانا ہی کھا لیا جائے ۔ما ں کبھی کبھی سمو سے یا پکو ڑے بنا لیتی تھیں توسمجھ لیں کہ اس دن ہماری عید ہوتی تھی ۔
مشتر کہ خاندان تھا ۔چچا و تایا بھی ساتھ ہی تھے ۔گھر کی تعمیر کچھ ایسے تھی کہ ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ تھا البتہ با ور چی خا نہ سا نجھا تھا ۔دادا اور دادی کا رعب و ا حترام اتناتھا کہ کبھی بھی خوا تین و بچو ں میں کو ئی جھگڑاہوا اور نہ کسی غلط فہمی نے جنم لیا ۔سبھی دو ست احباب و رشتے دار رشک کرتے تھے ۔وقت گزرتا گیا۔ہم لوگ پڑ ھنے کے لئے یو نیور سٹیوں میں چلے گئے ۔دادا دادی بھی باری باری سفرِ آ خرت پر روانہ ہوگئے ۔مصرو فیات میں تبد یلیاں آ نے سے اب گھر میں وہ بات نہیں رہی تھی۔ایک ہی جگہ کھا نا اپنی اپنی مر ضی سے پکنے لگا ۔کھا نے کے اوقات بھی الگ الگ ہو گئے ۔چچا نے اپنا گھر بنایا اور وہ اس میں منتقل ہو گئے ۔اب نہ وہ رمضان کریم کی رو نقیں رہیں اور نہ ہی اس دستر خوان میں وہ روایات کی رچی بسی خو شبو ۔
یہ کو ئی زیادہ پرانی بات نہیں ۔1985ءکا دور تھا ۔بیا ہنے کے بعد سب ادھر ادھر چلے گئے ۔اب تعطیلات پر اگر رمضان مبارک ہو تو حالات یکسربدلے دیکھ کر حیرت ہو تی ہے ۔ہر ایک کی کو شش ہوتی ہے کہ ایک افطاران کے ہا ں بھی ہو جا ئے ۔اس طرح نا را ضی کو مد نظر رکھتے ہوئے خوا ہشوں کا احترام لا ز می کرنا پڑ تا ہے ۔افطار کی انگنت ڈشیںسجائی جا تی ہیں ۔با تو ں ہی با توں میں بچیو ں سے خبر لے لی جاتی کہ کل فلاں کے گھر کیا کیا کھایا تھا۔بس پھر کیا ،مسا بقتی دوڑ میں ہمارا ستیا ناس ہو جاتا ۔یہ چکھ ،وہ چکھ ،اور اس طرح گلے تک کھا نا بھر لیا جاتا۔پھرآ واز آ تی کہ کھانا کتنے بجے تک لگا ئیں ؟لاکھ سمجھایا کہ کچھ تو خیال کریں۔ہم بیمار ہی نہ پڑ جا ئیں لیکن اسٹیٹس کا کیا کریں،کہیں اس کی کلغی نیچی نہ ہو جا ئے ۔گھر وا لیا ں اسی فکر میں رہتی ہیں کہ کیا بنا یا جائے ۔یہ بھی خیال کہ قرآن کریم پڑ ھنا ہے لیکن وقت نہ ہونے کے باعث مزاج میںچڑ چڑا پن اور بات بات پہ بر ہمی ۔کاش سوچ لیا جا ئے کہ رمضان مبارک ہمیں صبر کا درس دیتا ہے ۔ایثار سکھا تا ہے۔ہمیں ان لو گو ں کاا حساس کرنا چا ہئے جو معاشی مسا ئل میں پھنسے دو وقت کی رو ٹی کا انتظام بھی نہیں کر پاتے ۔ایک لمحے کے لئے اپنا احتساب کیجئے تو شر مندگی ہی ہو گی کہ ہم کن را ستو ں کو ا ختیار کئے ہو ئے ہیں ۔افسوس آج افطا ردعوتیں بھی ہمارا اسٹیٹس سمبل بن چکی ہیں ۔
گز شتہ رمضان کریم میں تو حیرت ہو ئی کہ افطار پارٹیوں کو اب را بطہ عامہ کا بھی ذریعہ بنا یا جا نے لگا ہے ۔نئے رشتو ں پر اپنی دھاک بٹھا نے کے لئے اور سیاسی قا ئدین و کار کنان اپنے ووٹروں کو قا ئل کرنے کے لئے خوب میزیں سجاتے ہیں ۔اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو اس کے مطا بق گزارنے کی تلقین کرتا ہے ۔ہم رمضان مبارک کا اہتمام کیا دکھا وے کے لئے کرتے ہیں؟یہ مہینہ تو ہمیںتقوے کا درس دیتا ہے ۔تمام خواہشات کو اسلامی ا صو لو ں کے مطا بق ڈھا لنے کادرس دیتا ہے ۔کیا خوب کہا گیا ہے کہ:
قد سیو ں میں ہے مسرت کی لہر دو ڑی ہو ئی 
شور ہے اوج فلک پر آ مد رمضان کا
قید ہو تے ہیں شیا طیں اس مبارک ماہ میں 
گیت گاتے ہیں فر شتے عظمت سبحان کا 
کل ہی کی بات ہے کہ ابا حضور کا پا را کا فی اونچا ئی پر تھا ۔ڈرتے ڈر تے امی سے وجہ پو چھی تو معلوم ہوا کہ سحری میں پھینیاں بنانابھو ل گئی تھی۔ سچ پو چھو تو آ ج آ نکھ ہی دیر سے کھلی ۔پراٹھے بنانے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ کچھ اور کرنے کا وقت ہی نہیں رہتا ۔کیا ہو گیا اگر آ ج پھینیاں ،کھجلا نہ ملا ۔ذرا سی بات پر میری شامت لے آ تے ہیں ۔امی رو ہا نسی ہو رہی تھیں ۔ہم نے جلدی سے انہیں لسی کا گلاس تھمایااورسحری کرنے کو کہا لیکن اسی دوران ا ذان کی آ واز نے ان کے ہاتھ روک لئے ۔چہرے پر زبر دستی کی مسکرا ہٹ لا تے ہو ئے انہو ں نے لسی پی لی۔بد قسمتی سے ہماری ایشیائی عورت بظاہر حقوق یا فتہ ہونے کے با وجودگھر گر ہستی کے معاملات میں اسی جگہ کھڑی ہے جہاں سے چلی تھی ۔اس پر سارے گھر کوخوش رکھنے کی ذمہ داری ہے ۔افطار میں کسی کو پکوڑے ،کسی کو دہی بڑے،کسی کو گلاب جامن وہ بھی گھر کے بنے ہو ئے،کسی کو چنا چاٹ اور کسی کو فروٹ چاٹ چاہئے۔وہ دوپہر سے ہی ان خوا ہشوں کی تکمیل میں کو لہو کے بیل کی طرح جت جاتی ہے۔کو ئی مدد بھی کرنا چا ہے تو اس خوف سے نہیں کر سکتا کہ مبادا جو رو کا غلام کہلائے ،اس کی اپنی پسند کیا ہے ؟یہ کسی کو جا ننے کی ضرورت نہیں۔
کاش یہ جان لیا جائے کہ ماہِ صیام اخلاقی و رو حانی تر بیت کا مہینہ ہے ۔تمام مہینوں میں یہ مہینہ انفرادیت کا حامل ہے ۔اسی لئے اس ماہ میں کی جانے وا لی عبادات کا انعام بھی زیادہ ہے ۔یہ دینی و دنیاوی فوائد کے حصول کابہترین مو قع ہے ۔صحت کے معا ملات بھی اس ایک ماہ کے معمولات سے صحیح ہوجاتے ہیں۔کیوں نہ زیادہ سے زیادہ ان فوائد کو سمیٹ لیا جائے ۔جن لو گو ں کو سال بھر وزن کم کرنے کی فکر لگی رہتی ہے ان کے لئے بھی اس سے اچھا اور کو ئی مو قع نہیں ۔ایک پنتھ اور دو کاج۔ایک مختصر سا پلان حا ضر ہے ۔عمل کرنا آ پ کی ذمہ داری ہے ۔
٭٭روزہ ایک کھجور سے کھو لئے ۔
٭٭لیموں کی سکنجبین بغیر چینی کے یا سیب کے سرکہ والا پانی۔
٭٭کسی بھی سبزی کے دو پکو ڑے۔
٭٭لو بیا چاٹ،ایک چھو ٹی پیالی ،فروٹ چاٹ بھی بغیر چینی ملی کھا ئی جا سکتی ہے۔
٭٭چائے ،قہوہ،کافی بغیر چینی کے ۔
٭٭کھانے میں ایک چپاتی یا ایک پیالی ابلے چا ول اور گوشت ( مرغی یا بکرے کا) میں ابلی سبز یو ں کا پیالہ،ایک کپ دہی۔ فرائی چیزوں سے پر ہیز کریں ۔فروٹ حسبِ خواہش کھا سکتے ہیں۔جنہیں رات بھر جا گنے کی عادت ہو تی ہے وہ بسیار خوری سے وزن بڑھا لیتے ہیں ۔ان کے لئے خصو صی ہدایت ہے کہ وزن بڑ ھانے والی چیزیں کھا نے سے پر ہیز کریں ۔دینِ اسلام تقویٰ و پر ہیز گاری پر بہت زور دیتا ہے ۔
یہ ماہ نیکیوں کی بہار لے کر آ تا ہے۔ اس سے استفادے کا پکا ارادہ کریں۔اپنے اور گھر والوں کے لئے نظام اوقات مرتب کرنا ضروری ہے جس سے سبھی مستفید ہو سکیں ۔ہمیں اپنا محا سبہ کرتے رہنا چا ہئے۔اللہ تعالیٰ ہی خا لق کا ئنات ہے ۔اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیو ں کو اس کے عطا فرمائے ہوئے قوا نین کے مطا بق ڈھالنا ہی ا صل کا میا بی و کا مرانی ہے ۔یہ قوا نین قرآن کریم میں مو جود ہی ۔علامہ اقبال نے اس حقیقت کی تر جمانی ان حکیمانہ الفاظ میں کی ہے:
قر آن میں ہو غو طہ زن اے مر د مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
آج کے حالات بھی عجیب ہیں، آ پا دھا پی کا دور ہے ۔ ہر ایک کو یہی فکر ہے کہ میری دیوار دوسرے کی دیوار سے او نچی بنے ۔ اس سوچ نے انسان کو اس کے حقیقی رتبے سے گرا دیا ہے ۔کہا گیا ہے کہ:
تمہیں معلوم ہے کچھ ،رہ گئے ہو کیا سے کیا ہو کر
کد ھر آ نکلے ہو ،راہ تر قی سے جدا ہو کر

شیئر: