Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوری غلغلہ

***شہزاد اعظم***
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم نے نیا نیا انگوٹھاچوسنا شروع کیا تھا، ہماری پڑنانی کے سوتیلے تایانجانے کیوں گاہے بگاہے عام طور پر اور کسی بھی شادی بیاہ یا دیگر ’’مسرتی مواقع‘‘ پر خاص طور پریہ شعر ضرور گنگنایا کرتے تھے کہ :
عید کی اصلی خوشی تو اقربا کی دید ہے
جو وطن سے دور ہیں کیا خاک ان کی عید ہے
سوتیلے تایا کی زبان سے ادا ہونے والا یہ شعر ہماری سماعتوں سے اتنا ’’متصادم‘‘ ہوا کہ کسی دھاندلی باز حکمران کی طرح ہماری یادداشت پر مسلط ہو گیا۔قبل اس کے کہ ہم انگوٹھا چوس عمر سے نکل کر’’ عمر ناطق‘‘ میں قدم رکھتے، سوتیلے تایا اس دار فانی سے ملک عدم ’’فرار‘‘ ہوگئے ۔کچھ ہی عرصے کے بعد ہم اسکول میں داخل ہوگئے۔ مس شکیلہ نے ہم سے دریافت کیا کہ آپ کوالف بے کی کوئی شد بد بھی ہے یاموصوف بالکل ہی کورے ہیں؟ہم نے وہی ’’عید کی اصلی خوشی تو اقربا کی دید ہے ‘‘ والا شعرسوتیلے تایا جیسے لحن میں پڑھ ڈالا۔ یہ سن کر ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ بے ساختہ چلا اٹھیں کہ بس کر دیں ، پلیز بس کر دیں نہیں تو میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ہم فوراً ہی خاموش ہوگئے کہ کہیں مس شکیلہ کا کہا پورا نہ ہوجائے۔کچھ توقف کے بعد جب ان کی حالت ذرا سنبھلی تو انہوں نے ہم سے سوال کیا کہ آپ کی بڑی خوشی کیا ہے ؟ہم نے کہا کہ مس ! ہماری بڑی خوشی یہ ہے کہ جو کچھ علم آپ کے ذہن میں ہے وہ سب کا سب ہمارے حافظے کا حصہ بن جائے۔انہوں نے کہا کہ اس کم سنی میں اتنی بڑی تمنا، برخوردار اپنی اوقات پہچانئے،سیدھا سیدھا اپناقاعدہ نکالئے اور الف ، بے ، پے یاد کیجئے۔
وقت گزرتا گیا۔ ہم میٹرک میں یعنی عمر کی اس دہلیز پر پہنچ گئے جہاں انسان آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بننا سنورنا شروع کر دیتا ہے ، ہلکی ہلکی مونچھیں بھی نمودار ہونے لگتی ہیں۔ انہی دنوں میں مس شکیلہ نے ایک روز کلاس میں سب سے پھر وہی سوال کیا کہ آج آپ کی سب سے بڑی خوشی کیا ہے؟ہم نے کہا کہ دل چاہتا ہے کہ پورے بورڈ میں ہم اول آئیں اور پھر جس کا لج میں چاہیں ہمیں داخلہ مل جائے۔مس شکیلہ نے پھر وہی جملہ کہا کہ حد میں رہیں اور اپنی اوقات یاد رکھیں۔انجام یہ ہوا کہ ہم گرتے پڑتے نمبروں سے پاس ہوگئے۔ مزید وقت گزرا توہم جامعہ میں پہنچ گئے ۔ وہاں ایک ہستی نے ہم سے یہی سوال کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خوشی کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ سب سے بڑی خوشی وہ ہو گی جب ہم جامعہ سے نکلنے کے بعدکسی اعلیٰ ادارے یا کمپنی میں بھاری بھرکم تنخواہ پر نوکر لگ جائیںگے ۔ انہوں نے بھی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ وہی فرمایا کہ انسان کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاہئے۔پھر یوں ہوا کہ ہم حصول تعلیم کے بعد 17سو روپے ماہانہ پر ملازم ہوگئے۔ وہاں ایک رو ز ہم سے ہماری ساتھی شخصیت نے دریافت کیا کہ آپ کی نظر میں سب سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے؟ ہم نے کہا کہ پیکر حُسن و جمال ، بے مثال، دراز زلف، سرو قامت،چشمِ آہو، ستواں ناک، گلاب کی پنکھڑی جیسے لب اور کوئل جیسی آواز کی حامل صنف نازک رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجائے ، یہی ہماری منزل ہو گی۔اس نے جواب دیاکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کے گھر میںیا تو آئینہ نہیں اور یا آپ نے کئی روز سے آئینہ دیکھا نہیں، ورنہ آپ ایسی بات ہرگز نہ کرتے۔آئینہ دیکھ لیا کیجئے کیونکہ یہ انسان کو نہ صرف اس کی اوقات یاد دلاتا ہے بلکہ اسے اپنی ’’حد ‘‘ میں رہنے کا مشورہ بھی دیتا ہے۔پھر یوں ہوا کہ ہماری نصف بہتر بھی تشریف لے آئیں اور ہماری زندگی میں دخیل ہوگئیں۔
وقت گزرتا گیا۔ ہم کروڑوں ساکنانِ پاکستان کے ساتھ گرتے پڑتے، روتے جھینکتے، چیختے چلاتے ، پستے پساتے، گرتے گراتے، لٹتے لٹاتے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے تھے کہ ملک میں جمہوریت کا غلغلہ اٹھا۔ ہمیں باور کرایا گیا کہ بس ووٹ نام کی پرچی بیلٹ نام کے ڈبے میں ڈال دو، پھر دیکھنا ، اس کے بدلے ہم آپ سب پاکستانیوں کو کھانے کے لئے روٹی دینگے،پہننے کے لئے کپڑے دیں گے اور رہنے کے لئے مکان دیں گے ۔وقت گزرتا گیا۔مہنگائی کے عفریت نے ہمیں دبوچ لیا، جلائو گھیرائو کی سیاست نے پنجے گاڑ لئے۔ہم سے ایک سیاسی شخصیت نے پوچھا، آپ کی نظر میں بڑی خوشی کیا ہے ۔ ہم نے کہا کہ مہنگائی کم ہوجائے، دووقت کی روٹی میسر آجائے، ہر طرف مچی ہوئی افراتفری ختم ہو جائے ،اس نے کہاسب کام چھوڑ کر آئینے میں منہ دیکھیں تاکہ آپ کو اپنی اوقات یاد آجائے۔وقت گزرتا گیا، پھر غلغلۂ جمہوریت کا اعادہ ہوا۔ کہا گیا کہ ووٹ نام کی پرچی ، بیلٹ نامی ڈبے میں ڈال دو، ہم اس مرتبہ روٹی کھلائیں گے، مکان دلائیں گے اور کپڑے پہنائیں گے۔عوام نے پھرکہا مان لیا، پرچیوں سے ڈبے بھردیئے اور پھر یوں ہوا کہ سر سے سائبان سرکادیا گیا، پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی، منہ سے نوالہ چھین لیا گیا اورمعصوم شہریوں کوزندگی کے آخری پہناوے کی شکل میں’’ بوریاں‘‘دی گئیں ۔وطن سے محبت کرنے والوں کو تنافر کا نشانہ بنایا گیا،دشمنوں سے محبت اور دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں ۔ان حالات میں کراچی کے ایک اجتماع میں کسی سیاسی شخصیت نے ہم سے دریافت کیا، آپ کی نظر میں سب سے بڑی خوشی کیا ہے ؟ ہم نے کہا بے گناہ انسانوں کے قتل کا گناہ کرنے والے گناہگاروں کو موت کی نیند سلا دیاجائے،وطن کے لئے قربان ہونے والوں کو محب وطن کہا جائے اور اس سے دشمنی کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیاجائے۔ اس نے کہا اگر ایسا کر دیاگیا تو بوریاں بنانے والی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی اور وہاں کام کرنے والے کارکنوں کے گھروں کے چولھے بجھ جائیں گے۔ہمارا جغرافیائی ہمسایہ ناراض ہو جائے گا، سیاست اور سیاستدانوں کی شبیہ متاثر ہوگی۔ آپ آئینہ دیکھئے اور اپنی اوقات پہچانئے ۔
کل پھرجمہوری غلغلہ اٹھا اور ہمیں کہا گیا کہ ووٹ نامی پرچی سے بیلٹ نامی ڈبہ بھر دو۔ ہم نے کہا بالکل ایسا ہی کریں گے مگر اس مرتبہ ہمارے ایک ہاتھ میں ووٹ کی پرچی ہوگی اور دوسرے ہاتھ میں آئینہ تاکہ ہم ووٹ کے خواستگاروں کوباور کرا سکیں کہ اس مرتبہ آئینہ ہم نہیں دیکھیں گے بلکہ آپ کواوقات یاد دلانے کے لئے آئینہ دکھا ئیں گے۔
 

شیئر: